ایک کپ چائے اور افغانستان!

چائے کو رابطوں کا ذریعہ کہا جاتا ہے کسی دوست سے ملاقات کیے ہوئے عرصہ بیت گیا ہو تو اسے چائے پر بلا لو یا پھر اگر وہ نہیں آ سکتا تو اس کے پاس چائے پینے پہنچ جاؤ اور چائے کے بہانے ملاقاتوں کی تشنگی پوری کرنا اور اس خلا کو پورا کرنے کی کوشش کرنا جس سے احباب کو فاصلہ بڑھنے کا خدشہ لاحق ہوتا ہے ایک کامن پریکٹس یعنی عمومی کام تصور کیا جاتا ہے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں چائے رشتوں کو جوڑنے کی ایک علامت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ چائے کی بیٹھکوں میں بڑی بڑی گتھیاں سلجھائی جانے کے ساتھ ساتھ آئیڈیوں کا تبادلہ بھی کیا جاتا ہے۔
معاشرتی بندھن کے اس نظریہ کو ہمیشہ انفرادی یا گروہی سطح پر ہی محسوس کیا جاتا ہے اور دیکھا جا سکتا ہے مگر جناب من آپ نے چائے کے اس فعال کردار کو کبھی بین الاقوامی سطح پر بھی محسوس کیا ہے یا دیکھا ہے تو اس کا جواب یقینی طور پر مثبت ہے اور اس کی مثال ہمیں اپنے ہی ملک میں اور اپنے ہی لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہے
جومحض چائے کے ایک کپ کو خارجہ پالیسی کی ترجمانی کے گر کے طور پر جانتے ہیں بلکہ دیگر ممالک کے لیے ٹرینڈ سیٹر بھی ہیں آپ یقینی طور پر اس لمبی چوڑی تمہید کے توسط پوچھی جانے والی کسوٹی کے قریب پہنچ چکے ہوں گے تو آئیے چلتے ہیں ماضی قریب میں جب عمران حکومت کے دوران دو مختلف واقعات میں چائے کے دو کپوں نے پاکستانی خارجہ پالیسی اور دنیا کو پیغام دینے کی ایک نئی مثال قائم کی پہلا چائے کا وہ کپ جو گرفتار بھارتی پائلٹ ابھینندن کو گرفتاری کے بعد دیا گیا جبکہ دوسرا کپ اس سابقہ پاکستانی فوجی جرنیل سے وابستہ ہے۔ انصافی بھائی ایک ماورائی شخصیت تصور کرتے تھے میرا مطلب جنرل فیض حمید سے ہے جنہوں نے امریکی اور نیٹو افواج کی افغانستان سے روانگی کے بعد کابل میں دورہ کے دوران فاتحانہ انداز میں تھامے ہوئے چائے کے کپ کے ساتھ مسکراہٹ والی وائرل ہونے والی تصویر بظاہر خارجہ پالیسی کی آئینہ دار تھی کہ ہم پاکستانیوں نے طالبان کو تھپکی دے کر امریکی اور نیٹو فوجیوں کی افغانستان سے دوڑیں لگوا دیں اگرچہ ابھی نندن اور جنرل فیض دونوں کے چائے کے کپ والی تصاویر دو مختلف کہانیاں اور پس منظر رکھتی ہیں لیکن یہ ایک تکون یعنی ٹرائی اینگل ہے جس کے کونے ہمیشہ آپس میں ملتے ہیں۔
 پاکستان افغانستان اور انڈیا اور جس کا مرکز بھی پاکستان ہے فی الوقت ایک پر ہی بات کی جائے تو بہتر ہے اور وہ ہے فیض کا کپ جس سے دنیا کو یہ تاثر دیا گیا کہ ہم بہت بڑے دفاعی و سازشی تھیوریوں کے چیمپیئن ہیں اور گیم چینجر بھی ہیں مگر کسی کو کیا علم تھا کہ یہ چائے کا کپ ہمیں کس قدر مہنگا پڑے گا اور وہ خام خیالی جس کے زیر اثر سوچا جا رہا تھا کہ طالبان کے آتے ہی پاکستان میں امن کی فاختائیں آزادانہ محو پرواز ہوں گی اور ہم جیسا چاہیں گے جب چاہیں گے طالبان کو ایک حکم کے ساتھ تابع کر لیں گے۔
 کس کو کیا پتہ تھا کہ جنرل رحیل شریف اور جنرل باجوہ کے دور میں کیے جانے والے مختلف فوجی آپریشن اور جنگوں کے نتیجے میں پاکستان سے ختم ہونے والی دہشت گردی پھر پلٹ آئے گی ویسے توافغانستان میں طالبان حکومت کے آتے ہی پاکستان کے ساتھ تعلقات خرابی کی طرف بڑھنے شروع ہو گئے تھے لیکن حالیہ دنوں یہ خرابی اپنے انتہائی عروج پر ہے جب دوست کا دشمن آپ کا دوست بن جائے تو معاملہ گڑبڑ ہوتا ہے بالکل اسی طرح آج کل وہ بھارتی حکومت جو کہ اشرف غنی کی حکومت کے بعد اپنے سلیپنگ سیل اور کونسل خانے چھوڑ کر افغانستان سے بھاگنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے بے قرار تھی۔
بڑھتے ہوئے افغان بھارت تعلقات نے انڈیا کے مذموم عزائم کو امید کا راستہ دکھایا ہے جس کے تحت دبئی میں بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مشری اور قائم مقام افغان وزیر خارجہ امیر متقی کی ملاقات خدا نخواستہ پاکستان میں ایک بار پھر امن کی غارتگری کی شنید دے رہی ہے البتہ اس ملاقات کے اصل محرکات پاکستانی خوارج تحریک طالبان پاکستان فاٹا کی آئینی حیثیت کا برقرار رہنا اور پاک افغان سرحد پر تنصیب کی گئی باڑ پر دو ٹوک اصولی اور حتمی موقف ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے اندر گھس کر ٹی ٹی پی کے اس مرکز کا ملیہ میٹ کرنا بھی ہے جو کہ افغانستان میں بیٹھ کر مسلسل پارہ چنار اور کرم میں قتل گری اور سوشل میڈیا کے توسط در اندازی اور ریاستی امن کا خاتمے کے منصوبے پر عمل پیرا بنیادی وجوہات کے علاوہ اس کشیدگی میں پاکستان تاجکستان اور چین کے درمیان واقع افغانی درہ وخان کو بھی وجہ تنازعہ قرار دیا جا رہا ہے جس سے افغانستان خود اچھال رہا ہے حالانکہ واخان اصل وجہ نہیں بلکہ طالبان کی نسبت شمالی اتحاد اور شمالی اتحاد اور تاجکستان کی طرف جھکاؤ بھی افغانستان کے پیٹ میں درد کا ذریعہ بن رہا ہے۔
وہ قابل ذکر بات جو یہاں بھلائی نہیں جا سکتی پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار افغان طالبان تو ہیں ہی یہاں پر عمران حکومت کی غیر ذمہ داری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اشرف غنی کے دور میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کرنے والے ہزاروں دہشت گردوں کو گرفتار کیا تو طالبان حکومت نے آتے ہی سب کو باعزت رہا کر دیا جبکہ پاکستان سے نام نہاد جذبہ خیر سگالی کے طور پر عمران حکومت نے اپنے آخری ایام میں دہشت گردی کی سنگین وارداتوں اور واقعات میں ملوث 3 ہزار سے زائد دہشت گردوں کو چھوٹ دے دی۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن