مطلوبہ نتائج نہ مل سکے انتخابات میں بڑے بڑے برج الٹ گئے۔

فرحان انجم ملغانی

عام انتخابات 2024 کے انعقاد کا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ عوامی حق رائے دہی کے نتیجہ میں سادہ اکثریت کیساتھ حکومت بنانے کے دعویداروں کو مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے بلکہ انتخابات میں بڑے بڑے برج الٹ گئے، آئی پی پی کے چیئرمین جہانگیر خان ترین، پی ٹی آئی پیڑیاٹ کے چیئرمین پرویز خٹک اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے الیکشن میں شکست پر اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے جبکہ پر صاحب پگاڑا نے سندھ اسمبلی کی دو اور جماعت اسلامی کراچی کے رہنما حافظ نعیم نے الیکشن نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے بطور احتجاج جیتی ہوئی نشست چھوڑ کر اسمبلی جانے سے انکار کردیا ہے۔ عوام نے سب کو سرپرائز کردیا۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ عوام قومی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے بڑی تعداد میں باہر نکلے اور لمبی لمبی لائینوں میں لگ کر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور واضح پیغام دیا کہ طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہی ہیں مگر حسب سابق اس بار بھی پری پولنگ اور پوسٹ پولنگ کے بعض بلاجواز اقدامات نے الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھا دیے۔۔ موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کیوجہ سے جہاں ووٹرز کو شدید پریشانی کا سامنا رہا وہیں الیکشن کمشن آف پاکستان کو بھی نتائج کی تیاری میں مشکلات کا سامنا  کرنا پڑا اور چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے ای ایم ایس سسٹم کے بغیر انٹرنیٹ کام کرنے کے دعوے کے برعکس انٹرنیٹ بندش کو نتائج میں تاخیر کا جواز قرار دیا گیا۔ ریٹرننگ افسروں کے دفاتر میں امیدواران الیکشن آبزرورز اور میڈیا نمائندگان کو باہر بھی نکالا گیا۔
امیدواران کی جانب سے نتائج کی تیاری کے موقع پر انکو اس اہم عمل سے باہر رکھنے اور امیدواران کی ری کنسولیشن کے بغیر فارم 47 جاری کیے جانے پر بیشتر امیدواران تاحال سراپا احتجاج ہیں ان امیدواران کی جانب سے یہ دعوے سامنے آرہے ہیں کہ پریذائیڈنگ آفیسرز کی جانب سے جاری کردہ فارم 45 کے نتائج کے مطابق وہ جیت رہے ہیں مگر آر اوز کی جانب سے فارم 47 میں انہیں ہرادیا گیا ہے اور ایسے درجنوں امیدواران تاحال احتجاج کرتے نظر آتے ہیں اور انہوں نے یہ نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے انہیں ہر فورم پر چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نتائج پر اعتراضات اٹھانے والے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد معروف امیدواران میں سلمان اکرم راجہ، شعیب شاہین ، ریحانہ ڈار ، ڈاکٹر یاسمین راشد ، مہربانوں قریشی بیرسٹر تیمور الطاف مہے شامل ہیں۔ اسی طرح ڈیرہ غازی خان سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار این اے 185 علی محمد کھلول ، این اے 186 سے امیدوار میر سجاد حسین چھینہ پی پی 286 سے فرحت عباس بڈانی پی پی 287؛سے اخلاق احمد بڈانی پی پی 288 سے 
ملک اقبال ثاقب ، پی پی 290 سے سردار محی الدین کھوسہ پی پی 291 سیفہیم سعید جنگوانی نے لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ میں پٹیشن دائر کردی ہیں اسی طرح امیدواران کی ایک بڑی تعداد نتائج کو چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
 اس حوالے سے ملتان کے حلقہ این اے148 سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے معمولی مارجن سے شکست کھانے والے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار بیرسٹر تیمور الطاف مہے اور این اے151 سے پی پی پی کے امیدوار سید علی موسیٰ گیلانی سے شکست کھانے والی مخدوم شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہربانوں قریشی نے دعوی کیا ہے کہ فارم 45 کے مطابق وہ جیت چکے ہیں جبکہ آر اوز نے فارم 47میں ہزاروں ووٹوں کو خارج قرار دیکر مخالف امیدواران کو جیت کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اس حوالے سے مہربانو قریشی کا کہنا ہے کہ میرے پاس تمام پولنگ اسٹیشنز کے فارم 45 ہیں جنکے مطابق میں جیت چکی ہوں ۔ 
ہمیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے کہ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے گا ۔ میں علی موسیٰ گیلانی کو یہی پیغام دونگی کہ دل بڑا کریں اور سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شکست کو تسلیم کرلیں۔ اس موقع پر بیرسٹر تیمور مہے کا کہنا تھا کہ حلقہ این اے 148 میں فارم 45 کے مطابق انکی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے 7000 کی لیڈ ہے جو کہ فارم 47 میں تبدیل کی گئی ۔میں گیلانی صاحب کو یہی کہنا چاہوںگاکہ اپنی سینٹ کی سیٹ سے استعفیٰ نہ دیں اور فارم 45 کے مطابق اپنی شکست قبول کرلیں۔ اس موقع پر پی پی 218 سے الیکشن ہارنے والے آزاد امیدوار ظہور بھٹہ نے کہا کہ انکے ساتھ بھی دھاندھلی کی گئی اور 12000 ووٹ مسترد کئے گئے جو کہ انتہائی غلط عمل ہے۔ ہم بھرپور قانونی چارہ جوئی کرینگے اور جب تک انکو انصاف نہیں ملے گا عوامی مینڈیٹ پر پہرہ دینگے. ملتان میں اتنی بڑی تعداد میں ووٹ مسترد ہونے پر بھی امیدواران میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ ملتان کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مسترد ووٹوں کی تعداد  ایک لاکھ تین سو چوالیس ھوگئی۔ اس حوالے سے الیکشن نتائج ڈیٹا کے مطابق ملتان ضلع کی چھ قومی اور 12 صوبائی نشستوں پر ایک لاکھ سے زائد ووٹ مسترد ہوئے۔ 
6 قومی اسمبلی کے حلقوں میں ٹوٹل 54,801 مسترد ہوئے۔ سب سے زیادہ مسترد ووٹوں کی تعداد حلقہ این اے 151 میں ریکارڈ کی گئی جو16,555 رہی۔ اس حلقہ  سے علی موسیٰ گیلانی کامیاب ہوئے۔ اسی طرح حلقہ این اے 148 میں مسترد ووٹوں کی تعداد 12,665 رہی جہاں سے یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوئے۔ حلقہ این اے 149 میں 2,832 ووٹ مسترد ھوئے۔ یہاں سے عامر ڈوگر کامیاب ہوئے۔حلقہ این اے 150 سے 7,761 ووٹ مسترد ھوئے جہاں سے زین قریشی کامیاب ہوئے۔ حلقہ این اے 152 سے  مسترد ووٹ 6,573 رہے  جہاں سے سید  عبدالقادر گیلانی کامیاب ہوئے ہیں۔ حلقہ این اے 153 میں مسترد ووٹ 8,415 رہے  جہاں سے رانا قاسم نون کامیاب ہوئے۔ اسی طرح 12 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر 45 ہزار سے زائد ووٹ مسترد کئے گئے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن