پانی ہے زندگی

آدم زادوں نے اشرف المخلوقات ہونے کے گھمنڈ میں اپنی کوتاہیوں اور لاپروائی سے اپنے لیے جو بڑے چیلنج پیدا کیے ہیں ان میں موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی کمی سرفہرست ہیں، 1947ء سے اب تک ریاست پاکستان کو ہزار مرتبہ پانی کی کمی محسوس ہوئی، اس کے مخصوص علاقوں میں زراعت بھی رحمت باراں کے بغیر ممکن نہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے مملکت بہت سے علاقوں میں عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے میں بھی ناکام رہی ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ بہت سے دور دراز اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں آ ج بھی آ دم زادے اپنی پیاس بجھانے کے لیے جانوروں کے ساتھ پانی پینے پر مجبور پائے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، ترقی یافتہ شہروں میں بھی ایسا غیر معیاری پانی موجود ہے جس کے استعمال سے ایک بڑی تعداد ہیپاٹائٹس ہیضہ اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہے یہی وجہ ہے کہ لاہور، کراچی ،پشاور اور اسلام آباد میں بھی ماضی کے حوالے سے اس موذی امراض میں شامل مریضوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہو چکی ہے حکومت اور رفاعی اداروں نے ،، واٹر فلٹر پلانٹ ،،بھی جگہ جگہ نصب کئے ہیں پھر بھی آ گاہی کے باوجود آ دم زادے اپنی کوتاہی میں ان سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کر رہے، سب اس راز سے واقف ہیں کہ ،،پانی ہے زندگی،، پھر بھی جنہیں میسر ہے وہ اسے لاپروائی میں ضائع کرنے سے گریز نہیں کرتے اور جنہیں یہ سہولت حاصل نہیں، انہیں جان جوکھوں میں ڈال کر اس نعمت کے حصول اور زندگی کی آ بیاری کے لیے میلوں کی مسافت کرنا پڑتی ہے۔ برسوں پہلے زمانہ قدیم میں نہ موسمی تبدیلی کے اثرات تھے اور نہ ہی بظاہر پانی کی کمی تھی۔ پھر بھی ٹی وی اور ریڈیو کے ساتھ اخبارات میں یہ ،،پبلک سروس میسج،، دیا جاتا تھا کہ پانی نعمتِ رب الجلیل ہے اسے ضائع مت کریں، آج کے جدید دور میں میڈیا نے اودھم مچا رکھی ہے لیکن حرام ہے کہ ایسا کوئی اجتماعی مفاد کا پیغام کہیں دکھائی دے حالانکہ حکومتی اداروں کی رپورٹ میں باقاعدہ شور و غوغا کیا جا رہا ہے کہ،، پانی بچائیں۔۔ زندگی بچائیں،، گھروں، گلیوں اور بازاروں میں گاڑیاں دھونے پر پابندی بھی لگائی گئیں بلکہ بھاری جرمانوں کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے پھر بھی آ دم زادے اپنی ،،موج مستی،، میں بڑا نقصان فخریہ انداز میں کرتے پائے جاتے ہیں حالانکہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے کہ لاہور جیسے شہر میں بھی پانی کی سطح پہلے سے بہت زیادہ نیچے جا چکی ہے۔ اخبارات اور چینلز بھی بارہا یہ خبر دے چکے ہیں کہ ڈیمز میں بھی پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے پھر بھی کسی کا محتاط رویہ نہیں، صرف اس لیے کہ،، پانی نعمت الہی ہے اور باران رحمت ہمارا حق،، حالانکہ ماضی کے اوراق دیکھیں تو یہ کہانی ایک سے زیادہ مرتبہ ملے گی کہ جب جب بارش نہیں ہوئی تو حضرت انسان اس کے لیے گڑگڑائے، توبہ استغفار کیا کرے۔ آ ج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ بارشیں نہ ہوں تو،، نماز استسقا ،، پڑھی جاتی ہے۔
 مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو دنیا یہ بات کہتی دکھائی دے گی کہ جن ممالک کو موسمیاتی تبدیلی نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ان میں پاکستان سرفہرست ہے، پاکستان زرعی ملک ہے اس کے کھیتوں کھلیانوں کی آ بیاری کے لیے بھی پانی کی اشد ضرورت ہے ہمارے راوی ،چناب اور ستلج پر ہمسائے ازلی دشمن نے ڈیمز بنا لیے ،ایسا یقینا ماضی کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے باعث ہوا لیکن دہشت گردی اور آ بی دہشت گردی بلکہ ڈیجیٹل دہشت گردی میں بھی بھارتی شواہد موجود ہیں، وفاق نے دریائے سندھ سے چھ نہریں نکالنے کی منصوبہ بندی کی تو سندھی قوم پرست اور سندھ حکومت مد مقابل آ کھڑی ہوئی۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اصولی موقف اپنایاکہ سندھو سے نہریں نا منظور۔ لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم ،،فیک نیوز،، کی بنیاد پر کھڑے ہونے والے قوم پرستوں کا ساتھ دیں گے، ہم پاکستان کھپے کے نعرے کے ساتھ وفاق کے ساتھ کھڑے ہیں قصہ کینالز کا کچھ اس طرح ہے کہ یہ دو سندھ، دو پنجاب، ایک خیبر پختو نخوا اور ایک بلوچستان سے ہے، یہ منصوبہ تین سالوں میں مکمل کیا جائے گا شور سندھ نے مچایا کہ ہم اپنا پانی کسی قیمت پر نہیں چھوڑیں گے لیکن چشمہ رائٹ بینک کنال کے حوالے سے گنڈاپور وزیر اعلی خیبر پختونخوا بھی میدان میں آ گئے، ان کا کہنا ہے 1991ء کے معاہدے کے مطابق ہمیں پانی دیا جائے اور گزشتہ 32 سالوں میں جو پانی ہمیں نہیں دیا گیا اس کی نقد ادائیگی کی جائے، ان کا دعویٰ ہے کہ ہم،، چشمہ رائٹ بینک کنال ،،سے ڈیرہ اسماعیل خان کی بنجر زمین سیراب کریں گے۔ انہوں نے اس سلسلے میں عبدالرحمن شاہ کو لینڈ کلکٹر تعینات کر کے ضرورت کے مطابق زمین خریدنے کا ٹاسک بھی دے دیا ہے، وہ کہتے ہیں ہم اس منصوبے سے تین لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو قابل کاشت بنائیں گے جبکہ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ برسوں پہلے واپڈا نے چشمہ رائٹ بینک کنال کو مکمل کرنے کے بعد خیبر پختونخوا کو دینے کی سر توڑ کوششیں کیں لیکن کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی لہذا ایک حصہ جو پنجاب سے گزرتا ہے اسے پنجاب نے لے کر دیکھ بھال شروع کر دی تھی۔ نہر کا 274 کلومیٹر خیبر پختونخوا اور 103 کلومیٹر پنجاب سے منسلک ہے۔ اب نئے منصوبے کے تحت گنڈاپور کو تین جگہ،، اپ لفٹ ایریگیشن،، بنانے پڑیں گے کیونکہ ڈیرہ اسماعیل خان کی زمین اوپر اور نہر نیچے ہے اس کی اونچائی 64 فٹ سے لے کر 170 فٹ تک پائی جاتی ہے جس کے لیے خطیر رقم درکار ہے گنڈاپور کا دعویٰ ہے کہ یہ بانی چیئرمین کا ویڑن ہے حالانکہ 2005ء میں سابق وزیراعلی اکرم خان درانی بھی اس حوالے سے وفاق سے مطالبہ کرتے رہے ہیں چشمہ رائٹ بینک کنال سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو نے بنائی تھی لیکن وہاں ایسا سسٹم نہیں کہ پانی درست انداز میں کھیتوں تک پہنچایا جا سکے البتہ یہ حقیقت ہے کہ 1991ء سے 2024ء تک کے پی کے کو 38 فیصد پانی کم ملا‘جس سے انکار ممکن نہیں‘ وہاں دریائے کابل سے نکلنے والا دریائے سوات پانی کا اہم ذریعہ ہے جبکہ دو نہریں لوئر سوات 1895ء اور اپر سوات 1914ء میں انگریز دور میں بنی تھیں 
 حالات و واقعات کی روشنی میں،، پانی بم ،،پاک بھارت جنگ کے لیے ہی نہیں ،صوبوں کی لڑائی میں اگر استعمال ہو گیا تو ہماری قومی یکجہتی اور مملکت کے استحکام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اس سلسلے میں جہاں صوبوں کو رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کر کے مذاکرات کے ذریعے حقائق کی روشنی میں حل ڈھونڈنا پڑے گا وہاں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ حقیقی اعداد و شمار سے مسائل کو حل کیا جائے، ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں بھی نظام آ بپاشی پرانا اور فرسودہ ہو چکا ہے جس سے اس کے حصے کا پانی بھی منزل مراد تک نہیں پہنچ پاتا، اسی طرح گنڈاپور کے لیے،، اپ لفٹ ایریگیشن،، کی خطیر رقم کی ادائیگی ناممکن ہے اسی طرح معاہدہ 1991ء میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ زائد پانی استعمال کرنے پر کسی قسم کی ادائیگی کرنی ہوگی لہذا گنڈاپور کا مطالبہ لاحاصل رہے گا، ایک انکشاف ہمارے دوست ذوالفقار علی مہتو نے کیا ہے کہ یہ مسئلہ بآ سانی بات چیت سے حل ہو سکتا ہے لیکن آ ٹھ اہم افسران نے اسے پیچیدہ بنا دیا ہے۔ معاملات کچھ بھی ہوں حکومت کو چاہیے کہ پہلی توجہ آ بی مسائل اور وسائل پر دے تاکہ کوئی نادان اسے صوبوں میں نفاق پیدا کرنے کے لیے استعمال نہ کر سکے، عالمی سطح پر بھی آ بی اور موسمیاتی معاملات خصوصی توجہ کا باعث ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کتنا احساس ہے؟ توقع تھی کہ بارشیں زیادہ ہوں گی جو نہیں ہوئیں، انسان کی اپنی منصوبہ بندی قدرت کی اپنی، حضرت انسان زمین سے پرواز کر کے خلاؤں بلکہ چاند تک پہنچ گئے پھر بھی قدرت ان سے بالاتر ہے ایسے میں حالات کی سنگینی کے پیش نظر ہمیں اور ہر کسی کو ہر سطح پر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،، پانی ہے زندگی،، تو اس کی فکر بھی کرنی ہوگی اس نعمت عظیم کو ضائع کر کے تماشہ دیکھنے سے بہتر ہے کہ احتیاط کریں ،حسب ضرورت استعمال کریں، باقی بچت کریں ،اپنے کل اور دوسروں کے لیے ،ضروری نہیں کہ جب تک حکومت ڈنڈا نہ چلائے ہم باز نہ آئیں، معاملات کو سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں، کیونکہ غلطی کر کے پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، گھریلو صارفین ہوں کہ صنعتی، سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانی کو محتاط طریقے سے استعمال کریں لیکن نلکے کی ٹونٹی کھولنے اور بند کرنے کی عادت اپنائیں اس لیے کہ پانی ہے زندگی، نہ ملا تو زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن