زندگی کی دھوپ چھاؤں۔۔۔



میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ زندگی قدرت کا حسین تحفہ ہے اور سانسوں کی مالا سے نتھی زندگی عمروں کی محتاج نہیں، اسے قائم رکھنے کیلئے نہ مال و زر کی ضرورت ہے اور نہ ہی غریبی اس کا کچھ بگاڑ سکتی ھے، صرف’’سانس،، کی محتاج ہے اسی سے زندگی کی گاڑی چلتی ہے لیکن کچھ عاقبت نا اندیش اسے مال و دولت، زمین و جاگیر اور مسند و منصب سے جوڑتے ہیں حالانکہ رشتہ صرف سانس کا ہے۔ آ پ صرف اسکے ’’کیئر ٹیکر،، ہیں اپنی عادات ،خواہشات، ضروریات کی منصوبہ بندی سے زندگی کی حفاظت بھی کر سکتے ہیں اور انہیں لامحدود کر کے اپنے اور زندگی کیلئے نت نئے امتحانات بھی پیدا کر سکتے ہیں ،دنیا کے ایک ذمہ دار سروے کے مطابق بھوکے لوگ کم مرے ہیں اور کھاتے پیتے خوش خوراکوں کی اموات زیادہ ریکارڈ پر ہیں، جس پر زندگی کا نسخہ کیمیا دین حق نے یہی دیا کہ خوراک متوازن سادہ اور ہمیشہ بھوک رکھ کر کھاؤ، ہر لزیذ کھانے پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ نہ پڑو، ورنہ تم نہیں جانتے اس لذیذ اور مرغن غذا کو تم ہضم بھی کر سکو گے یا نہیں؟ ایسے میں بھی ہمارے معاشرے میں خوش خوراک ہی نہیں بلکہ جنہیں نصیب ہے انہیں فخریہ طور پر ضائع کرنے کی عادت بھی اکثر دیکھی جاتی ہے۔ میرے ارب پتی دوست نے کھانے کی دعوت پر مجھ سے پوچھا کیا آ پ،، ہوٹلنگ،، کرتے ہیں۔ میں نے کہا جی ہاں، بہت زیادہ تو نہیں لیکن بچوں کے اصرار پر ہر ماہ دو چار مرتبہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہو جاتی ھے فورا بولے ،،جو کھانا بچ جاتا ہے اس کا کیا کرتے ہیں؟ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیاوہ پیک کرا لیتے ہیں، خوش ہو کر بولے ،، اسے بچوں کی بھی عادت بنائیں، ہوٹل میں چھوڑنے سے منوں نہیں، ٹنوں خوراک ضائع ہو رہی ہے اگر خود استعمال نہ بھی کریں تو راستے میں کھڑے کسی بھکاری یا غریب شخص کو دے دیں مجھے ان کی سوچ پر حیرانگی اس لیے ہوئی کہ ماشاء اللہ ان کا کاروباری حلقہ پاکستان کے علاوہ برطانیہ اور ترکی تک وسیع ہے، دل ہی دل میں سوچا۔۔ کاش یہ سوچ ہم سب کی ہو جائے اور ہمارے اشرافیہ کے ذمہ داران بھی ایسا ہی سوچنے لگ جائیں کیونکہ کسی خوشی، غمی کی تقریب میں دیکھ لیں کھانا کھلتے ہی امیر، غریب جاہل، گنوار ،پڑھا لکھا طبقہ ایک ہی طرح حملہ آور ہوتا ہے پھر اپنی پلیٹوں پر بوٹیوں کا پہاڑ، دوسرے ہاتھ میں نان اور کچھ پہلوانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ پہلے ہی حملے میں سویٹ ڈش بھی لے کر فتحیابی سے ہنستے مسکراتے اپنی میز پر لوٹیں اور پھر چند منٹوں بعد کھانا آ دھے سے زیادہ چھوڑ کر اٹھ جاتے ہیں۔ یہ منظر کبھی بھی، کہیں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ہاں یاد آ یا برسوں پہلے جب چودھری پرویز الٰہی پہلی مرتبہ وزیراعلی بنے تو انہوں نے حلف برداری کی تقریب میں مجھے بھی مدعو کیا۔ میری شامت کی گھڑی تھی ،میں نے اپنے بھانجے کو بھی ہمراہ چلنے کی دعوت دے دی کیونکہ اسے خبر ملی کہ میں گورنر ہاؤس تقریب حلف برداری میں جا رہا ہوں تو اس نے کہا آپ تو جاتے رہتے ہیں ہم جیسوں نے آ ج تک گورنر ہاؤس صرف باہر سے دیکھا ہے۔ دراصل میں اسکی خواہش مند نظریں بھانپ گیا تھا پہلے میں نے تسلی دی کہ یہ کون سی نئی بات ہے۔ میاں اظہر جب تک گورنر نہیں بنے تھے وہ بھی صرف باہر سے ہی گورنر ہاؤس دیکھتے تھے۔ لاہوریوں کے اکثریت وہاں کبھی نہیں گئی ہوگی لیکن تم چاہو تو میرے ساتھ جا سکتے ہو؟ اس کا چہرہ کھل اٹھا اور چشم زدن میں تیار ہو گیا‘ وقت مقررہ پر ہم دونوں پہنچ گئے دربار ہال میں حلف برداری کے بعد ماہ رمضان کے باعث باہر گراؤنڈ میں دو حصوں میں افطار اور ڈنر کا پرتکلف اہتمام کیا گیا تھا جونہی روزہ کھولنے کا اعلان ہوا معزز مہمانوں نے ایک ہی حملے میں دونوں مقامات پر فتح حاصل کر لی حالانکہ افطار کے بعد ڈنر سجایا جانا تھا لیکن مہمانوں نے افطار کے ساتھ ہی ڈنر کی دیگوں تک رسائی حاصل کر لی، انتظامیہ پسپا ہو گئی اور کلف زدہ سفید لباس اور شیروانیوں میں ملبوس دیگوں میں گھستے پائے گئے، کپڑے رنگین ہو گئے پھر بھی کسی کو ملال نہیں تھا۔ اس لیے کہ وہ فاتحانہ انداز میں نہ صرف اپنے لیے بلکہ مہمانوں کیلئے خوراک حاصل کر چکے تھے ،انہیں بالکل پرواہ نہیں تھی کہ کھانا کتنا ضائع ہوا یا کسے نہیں ملا، میں ان حالات میں شرمندگی محسوس کر رہا تھا کیونکہ افرا تفری اور خانہ جنگی کی کیفیت میں میرا بھانجا صورتحال کے مطابق سوال پر سوال داغ رہا تھا ،میرا جواب تھا یہی ہمارا کلچر ہے تمہیں میں کسی اچھے سے ریسٹورنٹ سے کھانا کھلاتا ہوں تم صرف میلہ دیکھو، تھوڑی دیر بعد واپسی کی تو سامنے سے آ تی خواتین ایم۔ پی۔ ایز نے پوچھا ،، آ پ لوگوں کو کچھ ملا کہ صبر کر لیا؟ میں نے کہا ’’اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ وہ زبردستی خواتین کے کیمپ میں ہم دونوں کو لے گئیں اور وہاں ہر چیز بغیر مانگے مل گئی لیکن ایک ہی تقریب میں ان دو مناظر کا عینی شاہد آ ج تک ہر لمحے پر کسی نہ کسی بہانے ان کی یاد تازہ کرتا رہتا ہے ۔
دنیا بھر کے طویل العمر لوگ یہی بتاتے ہیں کہ سادہ اور متوازن غذا کیساتھ اگر آ دم زادے پیدل چلنا عادت بنا لیں تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ پھر بھی کوئی اس بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں، خوش خوراکی کے جنگجوؤں سے یہی سوال کریں کہ حضور اپنی اداؤں پر ذرا خود غور کریں، تو جواب ملتا ہے کہ کوئی انتظار کرتا ہے جو ہم صبر کریں؟ بھائی یہ پاکستان ہے یہاں صبر اور تحمل سے کچھ نہیں ملتا‘ شرافت کی زندگی کیلئے بھی آ پ کو بدمعاشی کرنی پڑتی ہے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں نے دیکھی جس میں مرزا غالب سے منسوب یہ پیغام ملا کہ زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے جنازے میں ضرور شرکت کیا کریں اور دیکھا کریں کہ وہ کتنی زمین ساتھ لے کر جا رہا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ سکندر جب گیا دنیا سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے، اس بات سے بھی سب واقف ہیں کہ کفن میں جیب نہیں ہوتی، ہر ذی شعور کو اس کا بھی ادراک ہے کہ سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں، وجہ یہی ہے کہ بڑے بڑے رستم زماں، طاقت کے پہاڑ انسانی زندگیوں سے کھیلتے ہوئے قتل و غارت گری سے خوف برپا کرنے والے بھی ماضی کا حصہ بن چکیییں، اولاد نرینہ کی خواہش کر کے اپنا نام زندہ رکھنے کے تمنائی بھی گمنامی میں کھو چکے ہیں کیونکہ ان کی اولادوں نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ،لوگ دولت سے امیر ہونا چاہتے ہیں بلا سوچے سمجھے کہ یہ جائز ہے یا ناجائز، اسی لیے معاشرے میں ایسے لوگ بھی قدم قدم پر دکھائی دیتے ہیں جن کے پاس دولت کے سوا کچھ بھی نہیں، نہ سکون، نہ پیار ،نہ ہی رواداری و برداشت، بس سانس کا بندھن ٹوٹنے کی دیر ہے کہ وہی دولت پورے خاندان کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے اس دھن دولت کی لڑائی میں اپنے خونی رشتے بھی پرائے ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ زندگی میں زیادہ رشتوں کا ہونا ضروری نہیں، لیکن جو رشتے ہیں ان میں زندگی کا ہونا اشد ضروری ہے، زندگی کی دھوپ چھاؤں میں،، شفا،، ہر وقت مانگنی چاہیئے۔ صرف بیماریوں سے نہیں، حد سے بڑھی ہوئی خواہشات سے، کسی کے خلاف پیدا ہونے والے بغض، حسد، شر، نفرت اور کینہ سے، دل کو گرد آلود سوچوں اور ذہنی سکون چھین لینے والے انسانوں سے، اللہ مہربان تو بندہ پہلوان۔ ورنہ اس مٹی کے پتلے کا مقدر حقیقت میں مٹی ہی ہے۔ دعائیں مقدر بدل دیتی ہیں اس لیے زندگی کی دھوپ چھاؤں سے گھبرانا اور مایوس نہیں ہونا چاہیے، مالک کائنات نے، جس نے ہمیں جان اور جہان دیا اور ایسی ایسی نعمتوں سے نوازا ہے کہ ہم اسکا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے کیونکہ وہی 70 ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے جہاں تک ہم اور آ پ نہیں پہنچ سکے اس کے لیے بھی نسخہ کیمیا صحیفہ آ سمانی میں تلقین کر دی کہ یہ زمین و آ سمان ،،بندہ خدا،، تیرے لیے ہیں۔ ہمت کر کے مثبت جدوجہد سے انہیں تسخیر کر۔ یہ سب تیرے ہی لیے ہے پھر سورہ رحمن میں یہ کہہ دیا،، اور تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ ایسے میں آ دم زادے اگر دنیا کی بھول بھلیوں اور ترقی و خوشحالی کی چکاچوند میں بہک جائے تو قصور اسی کا ہے کیونکہ اس نے زندگی کی دھوپ چھاؤں میں اپنی ،،حقیقی ابتدا اور وارد دنیا ،،کے مراحل سے کچھ سیکھا ہی نہیں، رب کائنات نے اسے عقل و دانش عطا کر کے اشرف المخلوقات قرار دے دیا تو اس کا گھمنڈ اس حد تک بڑھ گیا کہ جیسے سب کچھ اس کا اپنا ہے حالانکہ دنیا تو ،،دارالامتحان،، ہے۔ آ دم زادہ سمجھتا ہے کہ میں جو کچھ ہوں وہ میری اپنی محنت اور ہمت ہے اور جو نہیں ہوں وہ اللہ کی مرضی، اس کم عقل کو ذرا احساس نہیں کہ بھلا تیرا اور مالک کا کیا مقابلہ؟ ذرا سوچ کہ اگر زندگی میں دھوپ چھاؤں نہ ہو تو یکسانیت کا جن تجھے کیسے نکل جائے گا؟ مالک ارض و سما نے زمانے کی قسم کھا کر کہہ دیا،، انسان خسارے میں ہے لیکن جن لوگوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اور حق و صداقت کا ساتھ دیا ان کی فلاح میں کوئی رکاوٹ نہیں، نظام قدرت میں کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ما سوائے،، متقی،، کے۔ہم گنہگار دنیا پرستوں کو اپنی ہر لمحے اصلاح کرنی چاہیے اس لیے کہ زندگی صرف سانس کی آس ورنہ کچھ بھی نہیں، امیری غریبی کوئی معیار نہیں ،حقیقی معیار احترام آ دمیت ہے ایک دوسرے سے پیار کریں، ہنستے مسکراتے رہیں، کیا پتہ زندگی کی میسر دھوپ چھاؤں کب ختم ہو جائے؟ پھر چلے جانے والوں کیلئے آنسو بہائیں، کل کو چھوڑیں، آ ج کی فکر میں ہی پیار بانٹیں، کل کس نے دیکھی ؟ دعا ہے کہ اللہ کریم سب کو میسر آ نیوالی زندگی کی اس دھوپ چھاؤں میں ذہنی، قلبی ،روحانی اور جسمانی شفائے کلی عطا فرمائے ،،ہم اور آ پ،، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بہترین ادائیگی کر سکیں ،ہم زندگی کی دھوپ چھاؤں سے بیزاری کی بجائے مالک کے شکر گزار رہیں کہ جس نے یہ لمحات ہمیں عطا کئے۔

ای پیپر دی نیشن