تعلیم، صحت اور سیکورٹی :نظرانداز کیوں؟

 گلوبل ویلج                

مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ہم تین باتو ں کا ذکر کریں گے ،ایک ٹیچر، ایک ڈاکٹر، اور ایک پولیس مین، یعنی صحت سے متعلق ،تعلیم سے متعلق، ڈسپلن سے متعلق، تینوں چیزوں میں ہم کوالفائیڈ لوگوں کو رکھنے کے عادی نہیں ہیں۔جب ہم صحت کے متعلق بات کرتے ہیں تو ہمارا زیادہ تر انحصار عطائی ڈاکٹروں یعنی حکیموں پر ہے اور جب ہم کسی ڈاکٹر کو دکھانا چاہتے ہیں تو ہمارا زیادہ تر انحصار جو ہوتا ہے وہ عطائی ڈاکٹروں پر ہوتا جو میٹرک پاس مڈل فیل جو کمپوڈر ٹائپ لڑکے مل جاتے ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ کسی ڈاکٹر کے کلینک پر کام کیا ہو وہ باہر بورڈ لگا کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری نظر میں ایک صحت مند معاشرے کو قائم کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں ہے کوئی وقت نہیں ہے،کوئی پیسہ نہیں ہے۔ پورا پاکستان، پورا انڈیا ، پورا بنگلہ دیش،پورا سری لنکا، پورا افغانستان اس وقت عطائیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور عجیب بات ہے کہ دنیا میں کہیں بھی امریکہ ،یورپ اورکینیڈا میں آپ نے سردرد کی گولی لینی ہو تو کوئی آپ کو اس وقت نہیں تک نہیں دیتا جب تک آپ کے پاس کسی ڈاکٹر کی لکھی ہوئی میڈیسن نہیں دیکھ لیتے ۔یعنی سردرد کی ابتدائی گولی نہیں خرید سکتے۔یہاں پر ہم نے صحت کو اتنا خراب کر دیا کہ ڈاکٹر اپنی ڈاکٹر چمکائی کے لیے مریض کواتنی سخت ڈوز دیتا ہے کہ وہ جلد ٹھیک ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ میری مشہوری کرے گا کہ اس ڈاکٹر سے مجھے آرام آیا ہے ۔ابھی پچھلے دنوں میرا ٹرانسپلانٹ ہوا ۔ میں تین ماہ کے ٹور کے بعدآیا تو میں بیمار ہوگیا۔پیٹ کا مجھے ڈائریا ہو گیا۔ میں اپنے دوست ڈاکٹروں کے پاس گیا ۔انہوں نے مجھے کہا کہ ہم آپ کو دوائی نہیں دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ لیب جاﺅ اور ٹیسٹ کروا کر آﺅ اور اس کے بعد جن ڈاکٹروں نے آپ کا ٹرانسپلانٹ کیا ہے ہم ان سے پوچھیں گے کہ ہم اس کو کوئی دوائی دیتے سکتے ہیں کہ نہیں آپ کو وہی ٹیم ہینڈل کرے گی۔اگر میں پاکستان میں ہوتا تو انہوں نے مجھے سخت ڈوز دینی تھے اور مجھے وقتی طور پر آرام آنا تھا۔ یعنی مجھے میرا دوست ڈاکٹروں نے بھی دوائی دینے سے انکار کیا۔یعنی ایک صرف ڈائریا کے لیے میرا چھ سات ہفتے لگ گئے۔ اور آخر میں اس کڈنی ٹیم کے پاس گیا اور انہوں نے میرے کافی ٹیسٹ کیے اور اس کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ فلاں دوائی استعمال کریں۔ہر شخص درمیانہ راستہ دیکھنا چاہتے ہے
سب سے سستا اور آسان طریقہ سرکاری جاب ڈھونڈنے کا ہے وہ یہ کہ آپ ماسٹر یا استانی لگ جائیں۔ بے شک معمولی تنخواہ ہوتی ہے لیکن آپ کی ایک مستقل آمدن لگ جاتی ہے آپ کو کوئی نکال نہیں سکتا ۔ میں نے کسی ٹیچر یا استانی کو اس محکمے سے نکلتے نہیں دیکھا۔ حالانکہ وہ بچوں کو پڑھانے کے لیے کوالفائیڈ ہی نہیں ہوتے تھے۔ میری بہن بھی ٹیچر تھی ہمارے گھر میں کافی لوگ ٹیچر تھے اس دور میں پی ٹی سی کورس ہوتا تھا گورنمنٹ کا۔ آپ نے پہلے پی ٹی سی کرنی ہے اس کے بعد ٹیچر لگنا ہے لیکن اب اس کورس کی بھی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی اور دانش سکول بنائے جا رہے ہیں اور دانش سکولوں میں اساتذہ تو وہی سفارشی لگیں گے، وہی جو گورنمنٹ کے قریب ہوں گے جو گورنمنٹ کی پالیسیوں کو سپورٹ کرتے ہوں گے ۔یا کسی ایم این اے ، ایم پی اے یا بیوروکریٹ یا جنرل کے جاننے والے ۔اب دانش سکول کے ٹیچر بھی وہی ہوں گے۔ پاکستان میں آج بھی پنجاب میں پنجابی نہیں پڑھائی جا رہی ۔ انگلش پانچویں کے بعد شروع کی جاتی ہے۔ پڑھائی اسی فرسودہ نظام کے تحت چل رہی ہے۔ کوئی نئے نظام کو متعارف نہیں کروایا۔ جب کہ ہمارے چاروں طرف ایسے ملک ہیں جیسے ایران ہے،انڈیا ہے، سری لنکا ہے انہوں نے جدید نظام کواپنایا ہے اس وقت پوری دنیا کو سکلڈ لیبر دے رہے ہیں۔جب کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے کو یتیم کرکے رکھ دیا ہے۔ ٹیچر لگ جائیں عورتیں سارا دن سویٹر بننے کے لیے اون ساتھ لے جاتی ہیں۔ اور ماسٹر اوپر چادر لے کر سکول جاتے ہیں۔ سٹوڈنٹس کا ہو یا نہ ہومعلم کا ایک یونیفارم ہونا چاہیے۔میں خود ترکی ،مراکش، انڈونیشیا اور تیونس کے سکولوں میں ابھی گھوم کر آیا ہوں۔ ادھر سکولوں میں جائیں انہوں نے ٹیچروں کے لیے ایک یونیفارم رکھا ہے۔کلاس میں جاتے ہیں اپنا کورٹ پہنتے ہیں اور پڑھائی شروع کرتے ہیں۔ادھر یورپ ،امریکہ اور کینیڈا میں جو سب سے زیادہ تنخواہ ہے وہ ٹیچر کی ہوتی ہے۔ جس کو ٹیچر کی جاب مل جائے اس کے آگے ڈاکٹر یا انجینئر زیرو ہیں۔ ادھر ایک عام لیبر کی تنخواہ چھ ہزار ڈالر ہے لیکن ایک سکول ٹیچر کی تنخواہ چودہ پندرہ ہزار ڈالر سے شروع ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اسے معاشی پرابلم ہو گی تو یہ تعلیم پر فوکس نہیں کر سکے گا۔یعنی یہ لاٹری نکلنے والی بات ہے اگر کسی کو تعلیم کے شعبے میں نوکر ی مل جائے۔پاکستان میں آپ نے دیکھا ہے کہ جتنی دیر ہم ہائی سکول میں پڑھتے رہے ہمارا ٹیچر ہمیں بھینسوں کو گھاس ڈالنے کے لیے بھیج دیتا تھا۔ہمارے ایک ٹیچر تھے وہ ہمیں ایک ایئرگن اور چھرلے دے کر بھیج دیتے تھے اور اس کے لیے ہم گگیاں اور کبوتر مار کر لاتے تھے اور ہم بڑے خوش ہوتے تھے کہ ہمیں پڑھنا نہیں پڑے اور انگلش کا پیریڈ ہم باہر گزاریں گے ۔اب یہ حال ہے پاکستان میں تعلیم کا۔
ایک بچہ پولیس میں بھی کروا دیں، تھانے اور کچہری بھی جانا ہوتا ہے۔ جس کے پاس طاقت ہو وہ اے ایس آئی نہیں تو سپاہی اور حوالدار کروا دیتے ہیں۔ جب وہ سپاہی بھرتی ہو گیا اس نے یہ طے کر لیا کہ میری زندگی کی جو انکم ہے وہ اوپر والے حصے سے ہی کرنی ہے۔ اب سپاہی کو شروع سے ہی وہ تربیت دی جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ دس بیس سپاہی رکھنا ہوتو اس کے لیے دس بیس ہزار درخواستیں آ جاتی ہیں۔جو دوڑ میں فرسٹ آ گیا اس کو پولیس میں رکھ لیا ۔اب ہم 2025میں جی رہے ہیں ۔ ہماری کوئی تربیت ہی نہیں ہے کوئی قانون ہی نہیں ہے۔ ایک پولیس مین وہ آدمی ہونا چاہیے جس کو رشوت کی ضرورت نہ پڑے۔ اگر میں اس کو ہزار دو ہزار رشوت دینا چاہوں تو وہ میرے منہ پر مارے۔ منہ پر تو تب مارے گا کہ جب اس کے پاس خود اتنے پیسے ہوں گے ورنہ وہ میرے دیئے ہوئے پیسے جیب میں ڈال لے گا۔اس وقت تک ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکتا جب تک ہم تین بنیادی اثاثوں پر توجہ نہیں دیں گے ۔ہم کسی عمارت کو کتنا بھی مضبوط کر لیں وہ تب تک پاﺅں پر کھڑی نہیں ہوتی جب تک آپ اس کی بنیادیں صحیح طریقے سے نہیں بنائیں گے۔تعلیم،صحت اور سیکیورٹی بنیادی ضروریات ہیں ان کو پہلے صحیح کریں تو ملک خود بہ خود ٹھیک ہو جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن