امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف وار پالیسی سے شروع ہونے والی عالمی تجارتی جنگ پہلے فیز سے نکل کر دوسرے فیز میں داخل ہوچکی ہے جہاں امریکہ نے یورپی یونین سمیت 60 سے زائد ممالک کیخلاف عائد کردہ اضافی ٹیرف کا اطلاق 90 روز کیلئے روک دیا ہے اور دنیا پر فقط دس فیصد فلیٹ ٹیرف کے اطلاق کے بعد ساری توجہ کا مرکزو محور چین کو بنا لیا گیا ہے۔امریکہ ایسا کرنے پر اس لئے مجبور ہوا کہ امریکی انتظامیہ کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا تھا کہ دنیا کیخلاف اضافی ٹیکس عائد کرنے کے باعث امریکہ عالمی سطح پر تنہا بھی ہو سکتاہے۔ہم اپنے گزشتہ کالم بعنوان "ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی اور دنیا کا مستقبل " پر اس حوالہ سے تفیصلا" بات کر چکے ہیں کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کیخلاف شدید ردعمل سامنے آسکتا ہے۔
گزشتہ ہفتہ کے دوران امریکی ڈالر جاپانی ین اور سوئس فرانک کے مقابلے میں کمزور ہوا ہے جبکہ یورو مضبوط ہوا تاہم اضافی ٹیکس کو نوے دنوں کیلئے روکنے کے بعد ڈالر دوبارہ سے مضبوط ہورہا ہے۔
ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کیخلاف چین اور یورپی یونین دونوں نے امریکی مصنوعات کی درامد پر ڈیوٹی میں اضافہ کیا ہے۔ یورپی یونین نے سویا بین،موٹر سائیکلز اور بیوٹی مصنوعات پر ڈیوٹی عائد کی ہے تاہم امریکہ نے یورپی یونین کیخلاف جوابی قدم نہیں اٹھایا، باوجود اس کے کہ یورپی یونین نے امریکی مصنوعات پر 25 فیصد ڈیوٹی عائد کی ہے.۔تجارتی جنگ میں تنہا چین کو ٹارگٹ کیا گیا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکی ٹیرف کیخلاف چین کا ردعمل شدت کیساتھ سامنے آیا ہے جسکے بعد امریکہ نے چین کیخلاف محاذآرائی کو تیز کردیا ہے۔امریکہ کی طرف سے چین پر34 فیصد ٹیرف کے اطلاق کے بعد چین نے ردعمل کے طور بر امریکی مصنوعات کی درامد پر 84 فیصد ڈیوٹی عائد کردی ۔ جواباً امریکہ نے انتہائی سخت قدم اٹھاتے ہو?125 فیصد ٹیرف ڈیوٹی کا اطلاق کر دیا ہے۔چین نے جن 18 امریکی کمپنیوں پر ڈیوٹی عائد کی ہے وہ دفاع سے منسلک ہیں۔ چین نے امریکہ کیخلاف ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں بھی مقدمہ دائر کیا ہے اور یہ الزام عائد کیا ہے کہ امریکی ٹیرف کی لاپرواہی سے عالمی تجارتی نظام کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں.چین نے امریکی ٹیرف پالیسی کیخلاف وائٹ پیپر بھی شائع کیا ہے جس میں دوطرفہ تجارتی فوائد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے امریکی ٹیرف پالیسی کی مذمت کی گئی ہے۔چین امریکہ کیخلاف جوابی اقدامات اٹھاتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ سخت اور غیر مناسب امریکی تجارتی پالیسی کیخلاف متحد ہو۔
امریکہ چین کی تجارتی جنگ میں شدت نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے۔کیا تجارتی جنگ اصل جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے؟کیا آزاد منڈی کی معیشت زوال پذیر ہونے جارہی ہے؟ کیا تجارتی جنگ دنیا کی غربت و افلاس میں مزید اضافے کا سبب بن سکتی ہے؟ کیا دنیا کسی نئے عالمی معاشی نظام کی طرف بڑھ سکتی ہے؟ تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے کہ جب عالمی طاقتیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو دنیا میں وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کو جنم دیتی ہیں۔مثال کے طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کے زیر تسلط نوآبادیاتی نظام سے تقریبا" پچاس کے قریب ممالک نے آزادی حاصل کی۔اس جنگ کے خاتمے کے بعد برٹن ووڈ کانفرنس کے ساتھ ہی امریکہ کی دنیا پر چودھراہٹ کا آغاز ہوا۔اسی طرح جب سرمایہ داری سوشلزم کیساتھ ٹکرائی تو دنیا بائی پولر ورلڈ سے یونی پولر ورلڈ میں داخل ہوئی۔ حالیہ چین امریکہ کشیدگی میں اضافہ بھی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ آزاد معاشی منڈی کا سرخیل بن چکا تھا جس نے دنیا پر اپنا سکہ جمانے کیلئے ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے ادارے بنائے۔ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی اور اسے چلانے کیلئے اصول وضوابط بھی بنائے تاہم اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو امریکہ نے ان تمام اداروں کو اپنی ذاتی مرضی و منشا اور ذاتی فائدے کیلئے استعمال کیاہے جس سے یہ ادارے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔چین کیساتھ حالیہ تجارتی جنگ امریکہ کا کوئی نیا کھیل نہیں1971ء میں امریکی صدر رچرڈنکسن نے جرمنی و جاپان کیخلاف اسی نوعیت کی ٹیرف پالیسی کواختیار کیا جسے "نکسن شاک" کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
امریکہ چین کی بے پناہ ترقی سے خائف ہے اگرچہ چین نے انقلاب چین کے بعد کمیونزم سے سرمایہ داری کی طرف قدم بڑھایا اور آزاد معاشی منڈی کا حصہ بنا تاہم امریکہ کو یہ یقین نہیں تھا کہ چین معاشی اعتبار سے اتنا آگے نکل جائے گا کہ خود امریکہ کیلئے درد سر بن جائے گا۔ اگر دوسرے زاویہ سے دیکھا جائے تو چین سرمایہ داری کے مقابلے میں ایک بڑی معیشت بن کر سامنے آیا ہے۔چین کی ابھرتی ہوئی معیشت نے آزاد منڈی کی معیشت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ امریکہ بطور سپر پاور یہ سمجھ رہا تھا کہ کمیونزم اور سوشلزم کی شکست کے بعد وہ جس طرح چاہیں گے دنیا کو چلائیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے نعرہ" امریکہ فسٹ " کا اگر سائینسی انداز میں تجزیہ کیا جائے تو آپ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ٹرمپ نے ازخود فری مارکیٹ اکانومی سے واپسی کا سفر شروع کر دیا ہے۔اگر ہم وقت کی سوئی کو الٹا گھمائیں اور سو برس پیچھے چلیں جائیں تو ہم انسانی تاریخ کے اس کنٹرولڈ معشیت کے دور میں داخل ہوجاتے ہیں جہاں ہر ملک کا کاریگر اپنے ملک کے اندر ہی رہ کر کام کرتا نظر آتا ہے کوئی شخص بھی اپنی مہارت کسی دوسرے ملک میں نہیں لے جا سکتا تھا تاہم سرمایہ داری نے بارڈرز کو کھولا۔اور قومی معیشت کو عالمی معیشت میں بدلا۔اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو "امریکہ فسٹ" کا نعرہ فری مارکیٹ اکانومی سے واپسی کا واضع اعلان ہے۔جس سے مستقبل قریب میں ہرملک کی اپنی قومی معشیت ہی اسکی اولین ترجیع ہوگی۔ اس سارے عمل میں قومی معشیت موجودہ بین الاقوامی معشیت اور ڈالر کے اثر سے باہر نکل کر کوئی دوسری شکل اختیار کر سکتی ہے۔
چین امریکہ تجارتی کھینچا تانی سے موجودہ عالمی معاشی نظام کے مزید شکست و ریخت ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں جس سے دنیا بھر میں غیر یقینی صورتحال میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
دنیا کے عوام کو سر دست کوئی ریلیف ملنے کی توقع نہ ہے..اس تجارتی جنگ میں یہ خدشہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کہیں تجارتی جنگ تیسری عالمی جنگ میں نہ تبدیل جائے کیونکہ سرمایہ دار کے پاس شکست کی صورت میں آخری حربہ جنگ ہی رہ جاتا ہے.تجارتی جنگ اصل جنگ میں تبدیل ہو نہ ہو یہ بات طے ہے کہ ہم عالمی تبدیلیوں کے دور سے گزر تے ہو? موجودہ عالمی معاشی نظام کے دور سے باہر نکل رہے ہیں.موجودہ اندھیرے کی کوکھ سے طلوع ہوتے ہوئے نئے عالمی معاشی نظام میں داخل ہونے کی ہم نے کیا پلاننگ کی ہے۔قومی سلامتی کے اداروں کو سوچ بچار کی ضرورت ہے۔