دنیا ہے کالا بازار یہ پیسہ بولتا ہے

   آج کا انسان کس قدر بدل چکا ہے جس کو دیکھو وہ دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ حتی کہ اس دنیا کی خاطر اپنے خون کے رشتوں کو بھی بھول جاتا ہے بس یہی وجہ ہے کہ آج کے ذریعے کل کو بہتر بنانے کی فکر انسان کو آخرت سے غافل کر دیتی ہے۔ آج کے کالم میں انسان سے جڑے ہوئے رشتوں اور نوٹوں کے متعلق کچھ ایسی باتیں تحریر کر رہا ہوں ’’ ہیں تو تلخ مگر ہے حقیقت ‘‘  آپ میری ان باتوں سے یقیناً اتفاق کریں گے کیونکہ یہ آج کے انسان کی کہانی کی وہ تصویر ہے جس سے کسی بھی شخص کو کوئی انکار نہیں ہو سکتا اسی تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ ایک انسان کے آگے دوسرے انسان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی یہ سب کچھ کالا بازاری اور کالا دھن کمانے والوں کے نزدیک انسان تو ہر لحاظ سے اپنی قیمت کھو چکا ہے اور رہی سہی کسر مہنگائی پیدا کرنے والے مافیا نے دولت اکٹھی کرنے کے چکر میں ان بے بس انسانوں کا جینا تنگ کر کے رکھ دیا ہے۔

 1960میں بننے والی انڈین مووی ’’ کالا بازار ‘‘ اس مووی کے شروع ہوتے ہی اس کا ایک گیت جو اداکار قادر خان پر فلمایا گیا ہے اس گیت کی شاعری میں آج کے زمانہ میں بسنے والے انسان کے دولت کمانے کے طریقہ کار کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے اس گیت کے بول ہیں.
  یہ دنیا ہے کالا بازار یہ پیسہ بولتا ہے۔ دھن گورا ہو یا کالا ہو جگ اس کا جو پیسے والا ہو۔ اپنے سے ملے یا رشوت سے ، بنتا ہے مقدر دولت سے ، سچا ہے یہاں کنگال تو بے ایمان ہے مالا مال۔ بھگوان کے گھر پر بھی کھوٹ چلے پوجا کے لیے بھی نوٹ چلے ، ملتا ہے اسی کو ووٹ دکھائے جو ووٹر کو نوٹ ، پیسوں پہ اگر میں مرتا ہوں بتائو کیا گناہ کرتا ہوں ، جب بجتی ہے شہنائی دھن کی تب اٹھتی ہے ڈولی دلہن کی۔ میں گنگو تیلی کو دوں راج گدھوں کے سر پہ رکھ دوں تاج ،’’ یہ پیسہ بولتا ہے.‘‘
 اس مووی میں یہ شخص سمجھتا ہے کہ سب کچھ پیسہ ہی ہے مان لیتے ہیں مگر سب کچھ پیسہ نہیں بھی ہے یہ بھی ماننا پڑے گا اس کا خیال ہے کہ دنیا صرف ناجائز کمائی سے ہی ہے مووی کے آخر میں اسے پتہ چلتا ہے کہ میں اپنی زندگی میں ناجائز کمائی کے ذریعے جو کچھ بھی کرتا رہا وہ سب کچھ غلط تھا۔ آج ہماری کہانی کی حقیقت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اور اب آجائیں پیسہ کے ساتھ جڑی ہوئی وہ باتیں جن میں آج کا انسان بالکل کھو چکا ہے۔ اگر جیب میں وزن ہو تو بات میں وزن آہی جاتا ہے پھر لوگ آپ کی بکواس بھی  بھی بڑے غور سے سنتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پیسہ کبھی بولتا نہیں ہے مگر سب کی بولتی بند کر سکتا ہے کیونکہ آج عزت انسان کی نہیں ہوتی صرف پیسوں کی ہوتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں پیسہ برائی کی جڑ ہے لیکن پیسہ برائی کی جڑ نہیں بلکہ پیسے کی کمی ہی ساری برائی کی جڑ ہے۔ یہ بھی یاد رکھو جب جیب میں پیسہ ہو تو دنیا آپ کی اوقات دیکھتی ہے اور جب جیب میں پیسے نہ ہوں تو دنیا اپنی اوقات دکھاتی ہے۔ اسی لیے مذاق اور پیسہ ہمیشہ سوچ سمجھ کر اڑانا چاہیے۔ سکے ہمیشہ آواز کرتے ہیں لیکن نوٹ ہمیشہ خاموش رہتے ہیں اسی لیے جب آپ کی قیمت بڑھے تو پرسکون رہیے۔ پیسہ کمانا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن پیسہ کما کر کبھی گھمنڈ نہ کرنا بہت بڑی بات ہے۔ آج کل زمانہ ایسا ہے اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو لوگ ساتھ رہیں گے۔ کیا آپ بھی مانتے ہو کہ پیسہ ہو تو پرائے بھی اپنے ہو جاتے ہیں اور نہ ہو تو اپنے بھی پرائے ہو جاتے ہیں۔ یقیناً آپمیری ان باتوں سے ضرور متفق ہوں گے اگر نہیں تو یہ تحریر آپ کو پڑھنے کے بعد متفق ہونے پر مجبور کر دے گی۔
 پیسے کی وجہ سے ہی خون کے رشتوں کی اصلیت بھی آج کے زمانے سے انسانی رویوں سے پتہ چلتی ہے۔ وہ ایسے حقیقی بھائیوں کی اصلیت پتہ چلتی ہے شادی کے بعد ، اولاد کی بڑھاپے کے بعد ، شوہر کی اصلیت پتہ چلتی ہے بیوی کی بیماری میں اور بیوی کی اصلیت پتہ چلتی ہے شوہر کی غربت میں ، دوست کی اصلیت پتہ چلتی ہے مصیبت میں، چچا پھوپھی کی اصلیت پتہ چلتی ہے والد کے انتقال کے بعد ، ماموں خالہ کی اصلیت پتہ چلتی ہے والدہ کے انتقال کے بعد ہمسائے کی اصلیت پتہ چلتی ہے ضرورت کے وقت اور رشتے داروں کی اصلیت پتہ چلتی ہے امیر ہونے کے بعد ایسے حالات میں اس دنیا میں ہر کوئی بدل جاتا ہے کوئی کسی کا نہیں رہتا اسی لیے آپ اپنے دل کو مالک کائنات کے ساتھ جوڑ لیں دنیا کے دھندوں کو چھوڑ کر ہمیشہ اپنی اصلیت پر قائم رہیں جو اصل میں ہے اسی پر ڈٹ جائے۔ اسی میں ہی ہم سب کی بھلائی ہے یہ دنیا تو آج ہے کل نہیں ہے۔ بس یہی حقیقت ہے

ای پیپر دی نیشن