دوسری جنگ عظیم کے دوران جنگ میں شریک تمام ممالک کی معیشت تباہ حالی کا شکار ہو چکی تھی۔جنگ کے نتیجے میں تباہ حال ملکوں کے پاس سونے کے ذخائر بھی کم ہو گ۔ تھے چناچہ بین الاقوامی تجارت اور لین دین میں شدید مشکلات کا سامنا آن پڑا۔ دوسری طرف جنگ کے خاتمے پر سب سے زیادہ گولڈ امریکہ کے پاس جمع ہو چکا تھا۔ایک اندازے کیمطابق امریکہ کے پاس 22 ہزار ٹن گولڈ تھا۔امریکہ نے جمع شدہ گولڈ کا فائدہ اٹھاتے ہو۔ برٹن ووڈ کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں 44 ممالک کے 700 نمائندے شریک ہوئے۔ کانفرنس میں امریکہ نے جنگ سے متاثرہ ممالک کی مدد کرنے کیلئے یہ شرط رکھ دی کہ وہ تمام متاثرہ ممالک کی مدد کیلئے تیار ہے تاہم تمام ممالک کو آپس میں لین دین گولڈ اور ملکی کرنسی میں کرنے کی بجا۔ ڈالر میں کرنا ہوگا۔جنگ سے تباہ حال معیشتوں کے پاس اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کا کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا چنانچہ ڈالر کو بین الاقوامی لین دین کیلئے بطور کرنسی قبول کر لیا گیا جس کے ساتھ ہی آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک کا قیام عمل میں آگیا۔برٹن ووڈ کانفرنس امریکی ڈالر کی حاکمیت کا نقطہ آغاز تھا جس نے دنیا میں نئے بین الااقوامی معاشی نظام کی بنیاد رکھی۔ چناچہ جہاں سرمایہ داری سوشلزم کیساتھ ٹکرائی وہاں اس ٹکراؤ میں شدت کی ایک وجہ ڈالر کی بطور بین الااقوامی کرنسی کا اجرا بھی تھا جسکے تحفظ کیل۔ امریکہ نے سوویت یونین کو شکست دینے کی مکمل منصوبہ بندی کچھ اس طرح سے کی کہ ساری اسلامی دنیا کو اپنا ہم خیال بنالیاتاکہ امریکی بیانیہ اسلامی دنیا کے بیانی۔ میں ڈھل سکے۔یہ عالمی سیاست کا وہی پیریڈ ہے جب اسلامی دنیا کے مختلف ممالک میں اقتدار ڈکٹیٹرز کے سپرد کیا گیا تھا کیونکہ ڈکٹیٹرز کیساتھ ڈیل کرنا قدرے آسان ہوتا ہے۔اسی عہد میں دنیا بھر میں ابھرنے والی سماجی انصاف کی ہر آواز کو سختی سے کچلا جاتا رہا کیونکہ سرد جنگ کیدوران سماجی انصاف کیل۔ آواز بلند کرنے کا مطلب سوشلزم سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے ۔اسلامی دنیا کا سہارا لیکر امریکی بیانیہ بالا آخر کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے اور 1990ء میں امریکی ڈالر کے متبادل بلاک سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے بعد دنیا بائی پولر ورلڈ سے یونی پولر ورلڈ میں داخل ہوجاتی ہے۔ یونی پولر ورلڈ سے دنیا کا توازن بگڑ جاتا ہے اور دنیا قدرے غیر متوازن نظر آنے لگتی ہے۔۔تیسری دنیا کی محکوم قومیں اور ممالک آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک کے بوجھ تلے دب کے رہ جاتے ہیں۔مغربی دنیا کے مشرقی دنیا کے اوپر تسلط میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے جسکیردعمل کے طور پر مشرقی ممالک متبادل بین الاقوامی معاشی نظام کی پیاس محسوس کرنے لگتے ہیں۔دنیا میں امریکی ڈالر کی حاکمیت کیخلاف ایک نئی بحث کا آغاز ہوتا ہے۔تاہم اس بحث کا اصل کریڈٹ معروف ماہر معیشت جم اونیل کو جاتا ہے جس نے اپنے تحقیقی مقالہ میں یہ سوال اٹھایا کہ اگر برازیل ‘ روس ‘ بھارت‘ اور چین مشترکہ طور پراپنی معیشت کو بہتر بناتے ہیں تو ایسا ممکن ہے کہ 2050ء تک یہ ممالک گلوبل معیشت میں امریکی ڈالر سے آگے نکل جائیں۔ جم او نیل کی کیس سٹڈی نے آگے چلکر 2009ء میں ان چار ملکوں کیل۔ برکس فورم کی بنیاد فراہم کی 2010ء میں مذکورہ چار ممالک کیساتھ پانچواں ملک ساوتھ افریقہ بھی شامل ہوگیا۔وقت کیساتھ جسطرح برکس بلاک کی ممبرشپ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ گلوبل معیشت میں برکس بلاک کی معیشت کے امریکی اور یورپی ملکوں کی معیشت سے آگے نکل جانے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ مصر ‘ایتھوپیا‘ ایران‘ متحدہ عرب امارات کے بعد انڈونیشیا بھی برکس کا مکمل رکن بن گیا ہے۔انڈونیشیا انتہائی اہم ملک ہے جو آبادی کے اعتبار سے چوتھا اور دنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہے۔ گلوبل معیشت میں 2.4 فیصد شیئر کیساتھ انڈونیشیا فرانس اور برطانیہ سے بھی آگے جا چکا ہے جبکہ فرانس اور برطانیہ ہر ایک کا شیئر 2.2 فیصد ہے۔ اگرچہ فرانس اور برطانیہ بظاہر طاقتور ملک دکھائی دیتے ہیں تاہم حقیقت اسکے برعکس ہے کیونکہ ٹرینڈ تبدیل ہورہے ہیں۔ دوسری طرف برکس پارٹنر ممبر کی حیثیت سے بیلا روس‘ بولیویا‘ قازقستان‘ کیوبا‘ ملائیشیا‘ یوگنڈا‘ تھائی لینڈبھی شامل ہو چکے ہیں۔پانچ مزید ممالک جنکو برکس کی جانب سے شمولیت کی دعوت دی گ۔ ہے ان میں سعودی عرب ,‘ ویتنام‘ نائیجیریا‘ ترکی اور ارجنٹینا شامل ہیں۔برکس ممالک اس وقت دنیا کی.38.8 فیصد جی ڈی پی کی نمائندگی کرتے ہیں جو کہ جی سیون ممالک کی معشیت سے زیادہ ہے اگرچہ جی سیون میں کینیڈا‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ جاپان‘ اور برطانیہ جیسے بڑے ملکوں کی معیشت شامل ہے جو کہ 29 فیصد ورلڈ جی۔ڈی۔پی کی نمائندگی کرتی ہے تاہم جی سیون ممالک کا گلوبل شیئر کم ہورہا ہے جبکہ برکس ممالک کا گلوبل شیئر بڑھ رہا ہے۔برکس بلاک میں شامل ہونیوالے اکثریتی ممالک میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ یہ برطانیہ کی کالونیز کا حصہ رہے ہیں اور برکس بلاک میں شمولیت سے آزادی کے ایک نئے تصور سے روشناس ہورہے ہیں۔
برکس بلاک کی مقبولیت اور ورلڈ جی۔ڈی۔ پی میں اسکے بڑھتے ہو۔ شیئر کو دیکھتے ہو۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ برکس بلاک فقط امریکی ڈالر کے متبادل بین الااقوامی لین دین اور تجارت تک محدود نہیں رہے گا۔بلکہ ایشیائی ملکوں کا بڑا سیاسی و معاشی بلاک بن سکتا ہے جس میں آئندہ ایشیا کے تمام ممالک ایک دوسرے کا حصہ بن سکتے ہیں جس کا تمام ریجن کو فائدہ ہوگا۔ ایشیائی ممالک آئی۔ایم۔ایف‘ ورلڈ بینک اور دوسرے مغربی اداروں کے تسلط سے آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔اگرچہ ڈونلڈٹرمپ 20 جنوری کو حلف اٹھانے سے قبل ہی جارحانہ موڑ میں دکھائی دے رہا ہے۔ٹرمپ نے برکس ممالک کو دھمکی بھی دے رکھی ہے تاہم برکس کوئی چین اور روس کا اتحاد نہیں۔اب تک15 ممالک اس میں شامل ہوچکے ہیں جنکے خلاف پابندیاں لگانا کوئی آسان کام نہیں بلکہ اگر ٹرمپ نیپابندی کا کوئی اقدام اٹھانے کی غلطی کی تو یہ برکس بلاک میں مزید تحرک کو جنم دے گی۔
قومی سلامتی کاتقاضا ہے کہ پاکستان بھی اپنی معیشت کے اشاریے بہتر بنانے کی خاطر برکس بلاک کا حصہ بنے جسکے اندر ملٹی پولر ورلڈ کو پیدا کرنے کی بھر پور صلاحیت ہے۔تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی سیاست کے باعث برکس بھی سیاسی شفٹ لے رہا ہے ہمیں بھی اس بلاک میں شامل ہوکر معاشی آزادی مل سکتی ہے۔