بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مشری اور افغان قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کی دبئی میں ملاقات ہوئی ہے۔ بھارتی حکام کے مطابق بھارت مستقبل قریب میں افغانستان میں ترقیاتی سرگرمیوں میں شامل ہوگا۔ صحت اور افغان تعمیرنو کیلئے بھارت مزید مالی امداد جاری کرے گا۔ چابہار بندرگاہ سے باہمی تجارتی سرگرمیاں فروغ دینے پر بھی طالبان بھارت اتفاق ہوا۔ کرکٹ تعاون مزید مضبوط کیا جائے گا۔
بھارت اور طالبان حکومت کے مابین ایک عرصے سے رابطے جاری ہیں۔ان رابطوں کو پاکستان سازش کے تناظر میں دیکھتا ہے۔طالبان حکومت کی اس سے کہیں زیادہ مدد پاکستان ان شعبوں میں کر سکتا ہے جن کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔بلکہ پاکستان ایسا کرتا بھی رہا ہے۔ افغان کرکٹ ٹیم کو تربیت کس نے دی۔ افغانستان کی ضروریات چاہ بہار بندر گاہ سے زیادہ بہترپوری کر سکتی ہے گوادر اور کراچی کی پورٹ۔افغان حکومت اپنے معاملات میں با اختیار ہے وہ کسی ملک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے فیصلہ کر سکتی ہے۔پاکستان کے ساتھ تعلقات متاثر کیے بغیر بھی طالبان طبقہ بھارت کے ساتھ رابطوں میں رہ سکتا ہے۔لیکن آج کے تعلقات اوررابطے پاکستان کے خلاف استعمال ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔بھارت کے ساتھ طالبان حکومت کی مزید قربتیں پاکستان کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔ اس کے ساتھ ٹی ٹی پی کی طرف سے بھی دھمکی دی گئی ہے کہ وہ پاکستان میں پاک فوج کے زیر اہتمام کاروباروں پر حملہ کرے گی۔ ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ جو لوگ پاک فوج کے کمرشل یا کاروباری اداروں میں کام کرتے ہیں وہ تین مہینے میں اپنے روزگار کے متبادل کا انتظام کر لیں۔اس دھمکی کو حکومت پاکستان کی طرف سے اگر آسان لیا جاتا ہے تو حماقت ہوگی۔
پاکستان کے دفاعی حلقوں اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کو پناہ دی گئی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ان کی افغانستان میں طالبان حکومت سے بات ہوئی تھی۔انہیں کہا گیا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان میں مداخلت سے روکیں تو ان کی طرف سے 10 ارب روپے کی ڈیمانڈ کی گئی تھی۔ ہم نے کہا کہ آپ گارنٹی دیتے ہیں کہ ٹی ٹی پی والیپاکستان میں کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ اس پر طالبان حکومت نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔
پاکستان کو یقین ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کرواتی ہے۔پاکستان کی طرف سے دو مرتبہ ان کے ٹھکانوں کو افغانستان کے اندر داخل ہو کے نشانہ بنایا گیا۔اس پر کچھ حلقوں نے کہا کہ طالبان کے پاس جواب دینے کے لیے فضائیہ نہیں ہے۔اس لیے پاکستان نے ان پر حملے کر کے زیادتی کی ہے۔کیا جواب کے لیے پاکستان افغانستان کو اپنی فضائیہ فراہم کردے؟۔حملوں کی نوبت نہیں آنی چاہیے تھی۔یہ نوبت کیوں آئی؟ طالبان حکومت کو اس کا جائزہ لینا چاہیئے۔ایسے حملوں کے نتائج کا پاکستان کو اندازہ ہے۔ساری جمع تفریق کر کے ہی آخری اقدام اٹھایا گیا۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے اندر سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی پاکستان کی ریاست کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔
افغانستان کے حوالے سے ایک متھ ہے کہ اسے دنیا کی کوئی طاقت آج تک شکست نہیں دے سکی۔وقتی طور پر طاقتیں حاوی ہو جاتی ہیں لیکن پھر ان کو اس خطے سے رسوا ہو کر ہی نکلنا پڑتا ہے۔اول تو پاکستان کا ایسا کوئی ارادہ اور پلاننگ نہیں ہے کہ افغانستان پر باقاعدہ حملہ کیا جائے۔ مزید برآں افغانستان پر اس طرح قبضے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں گیا جس طرح پہلے روس اور پھر امریکہ افغانستان میں آ کر بیٹھ گیا تھا۔کسی دور میں برطانوی سرکار کی طرف سے بھی افغانستان پر یلغار اور قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسے بھی منہ کی کھانی پڑی۔پاکستان کے چونکہ ایسے کوئی عزائم ہیں ہی نہیں لہٰذا یہ سوال بھی نہیں بنتا کہ پاکستان اور افغانستان بالمقابل ہوں گے تو کون جیتے گا۔ دونوں کے مابین باقاعدہ جنگ ہونے کا خدشہ نہیں ہے۔ بالفرض جنگ ہو بھی جاتی ہے تو نہ پاکستان افغانستان پر قبضہ کر سکتا ہے نہ افغانستان پاکستان پر۔
بالفرض صورتحال جنگ تک چلی جاتی ہے۔ پٹھانوں کی تاریخ یہی رہی ہے وہ کسی کے قبضے کو تسلط کو حکمرانی کو قبول نہیں کرتے۔افغانستان میں اکثریت پٹھانوں کی ہے۔وہاں دیگر تاجک۔ ازبک۔ ترکمن۔ ہزارہ۔ بلوچ۔ نورستانی۔ پشائی۔ قزلباش۔ ایماق۔ سادات سمیت چالیس قومیتیں آباد ہیں۔مگر پٹھانوں کی "ہوڑھ متی" بلا سوچے سمجھے سر دھڑ کی بازی لگانے کی جبلت افغانوں کی عمومی شہرت بن چکی ہے۔ افغانستان میں اور پاکستان میں ایک ہی نیچر کے ایک ہی زبان بولنے والے پٹھان موجود ہیں۔یہ ایک دوسرے کے مقابل ہوں گے تو آپ کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟ کہ کون جیتے گا۔نہرو اور ایوب خان کا فرضی کلمہ مشہور ہے: نہرو نے کہا تھا کہ پاکستان انڈیا سے اس لیے نہیں جیت سکتا کہ اس کے پاس ایسے لوگ ہیں جو کچھ کر گزرنے کے بعد سوچتے ہیں، وہ سکھ ہیں۔ ایوب خان نے جواب میں کہاکہ ہمارے پاس ایسے ہیں جو کچھ بھی کر گزرنے کے بعد بھی نہیں سوچتے وہ پٹھان ہیں۔
طالبان حکومت آج پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔افغانستان کے اندر سے پاکستان پر دہشت گردی اعلانیہ نہیں ہوتی لیکن چیک پوسٹوں پر حملے ہوتے رہتے ہیں۔جن کا جواب بہرحال پاکستان کی طرف سے دیا جاتا ہے۔اس کے لیے فضائیہ بھی کبھی استعمال کر لی جاتی ہے۔وہ بھی صرف ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر، افغانستان کے مفادات کو کبھی بھی کہیں بھی پاکستان نے نقصان نہیں پہنچایا۔افغانستان کے اندر بیٹھے ہوئے دہشت گردوں پر پاکستان حملہ کرتا ہے تو طالبان حکومت اسے اپنی خود مختاری اور سلامتی پر حملہ قرار دیتی ہے۔جب کہ اقوام متحدہ نے اب ایسا کرنے ک اجازت دے رکھی ہے۔افغانستان کی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں پہلی مرتبہ میلان کونکرسی (9 ایم 135) گائیڈڈ میزائل فعال کردیئے گئے ہیں۔ یہ گائیڈڈ میزائل آرمرڈ ٹینکس، وارشپس اور نیچی پرواز کرنے والے ہیلی کاپٹرز کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ان میزائلوں کو چلانے کے لیے 13 افراد نے تربیت مکمل کرلی ہے۔کئی طالبان سٹنگر میزائل چلانے کی بھی مہارت رکھتے ہیں۔یہ تربیت امریکہ نے طالبان کو اس دوران دی تھی جب ان کو مجاہدین کا درجہ دیا گیا تھا۔سٹنگر میزائل بھی ان کے حوالے کیے گئے تھے۔کندھے پر رکھ کر چلائے جانے والے ان میزائلوں سے مجاہدین روس کے افغانستان کے اندر اڑنے والے طیارے تباہ کر دیا کرتے تھے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں جس طرح کشیدگی ہے۔ بھارت بھی افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ان میزائلوں کی رینج جو بھی ہے وہ پاکستان کے خلاف استعمال ہوتے ہیں تو انتہائی زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔پاکستان اور افغانستان فطری طور پر دشمن ہیں ہی نہیں۔ پاکستان کے خلاف کسی کے اکسانے پر وقتی ابال ہے۔ یہ کسی بھی وقت اتر سکتا ہے۔ طالبان کو بہر صورت انگیج کرنے کی ضرورت ہے۔طالبان پاکستان کے لیے اتنے خطرناک نہیں ہو سکتے جتنا بھارت ان کو استعمال کر کے خطرناک بنا سکتا ہے۔