بیمار معیشت اور اسکا واحد علاج!


ڈاکٹر احمدسلیم 
میں کوئی معاشی ماہر نہیں لیکن کسی بھی گھر یا خاندان کی معاشی تنزلی کو سمجھنا کوئی بہت بڑی سائنس نہیں  اور کسی ملک کے معاشی حالات پر بھی وہی بنیادی اصول لاگو ہوتے ہیں جو  میرے یا آپکے گھر کی معاشی صورتحال پر۔ آپ ایسے سمجھ لیں کہ پاکستان ایک بڑی حویلی ہے جس میں ’’جوائنٹ فیملی سسٹم ‘‘ میں بہت سے خاندان مل کر رہ رہے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے ہیں جن کے افراد محنت کرتے اور پیسہ کماتے ہیں اس لیے وہ اپنے کام کاج میںمصروف رہتے ہیں۔ ان ہی خاندانوں میں کچھ بڑے ’’ چاچے مامے‘‘ بھی ہیں جو اس مشترکہ خاندانی نظام کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور اس بنا پر وہ کہتے ہیں کہ ان کو تمام سہولیات مفت ملنی چاہئیں۔ سہولیات کا یہ مطالبہ بڑھتے برھتے جائز ناجائز عیاشیوں تک پہنچ چکا ہے۔ ان اور کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر اس مشترکہ خاندان کے اخراجات انکی کمائی سے بڑھ گئے جن کو پورا کرنے ک لیے کریڈٹ کارڈ استعمال کیا گیا۔ پھر اس کریڈٹ کارڈ کا بل ادا کرنے کے لیے کسی بینک سے قرضہ اور پھر اس قرضے کی ادائیگی کے لیے کسی اور مہاجن سے قرضہ۔ کچھ عرصہ تو یہ چکر چلتا رہا ، لیکن پھر تمام بنکوں اور مہاجنوں نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا۔ بغیر کسی معاشی ماہر کے ہم سب جانتے ہیں کہ اس خاندان کے لیے اس معاشی بدحالی سے نکلنے کا سیدھا اور واحد حل یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے غیر ضروری اخراجات کم کیے جائیں ، دوسرے نمبر پر آمدنی بڑھائی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اس جوائنٹ فیملی سسٹم کی دیکھ بھال کے نام پر ’’ چاچوں ماموں‘‘ کی مفت عیاشیاں ختم کر کے انہیں بھی وہی روکھی سوکھی دی جائے جو باقی افراد کا مقدر ہے ۔ اس بنیادی نکتے کے علاوہ اس خاندان کے معاشی مسائل کے حل کے لیے کسی معاشی ماہر یا انکم ٹیکس وکیل کی ضرورت نہیں۔ یہ ماہرین تو صرف اس کام آ سکتے ہیں کہ اعداد و شمار آگے پیچھے کر کے ایک دو مزید بنکوں سے قرضہ لے کر صورتحال کو مزید ابتر کیسے بنایا جا سکتا ہے جبکہ کئی بنکوں کے کارندے تو انہیں مزید قرضوں میں پھنسانے کے لیے آس پاس کے گائوں کے چودھریوں کے لیے کام کر رہے ہونگے جن میں سے کسی کی نظر اس خاندان کی زمینوں پر ہو گی اور کسی کی جائیداد پر۔ خاندان کے مبینہ منتظمین کو یا تو سمجھ نہیں یا سمجھ ہے بھی تو انہیںکوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہوں نے اس دوران شہر میں اپنی کوٹھیاں بھی بنا لی ہیں اور بنک بیلنس بھی۔ خدانخواستہ اگر کبھی ’’دہلی اجڑنے‘‘ کا وقت آیا تو یہ خواص دوسرے شہر والی اپنی کوٹھیوں میں شفٹ ہو جائیں گے۔ خاندان کے عام افراد ، انکی زندگیوں اور پرانی بوسیدہ ہوتی حویلی کے در و دیوار سے انہیں کوئی حقیقی دلچسپی نہیں ہے۔ 
 
کسی بھی شعبے میںکسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس شعبے کے بارے میں مثبت اور مسلسل پالیسیاں بنائی جائیں۔ اگر ہم گزشتہ دو دہائیوں کی حکومتوں کے بیانات اور تقاریر کا جائزہ لیں تو ان سب میں صرف ایک پالیسی مسلسل ملتی ہے وہ یہ کہ ہر آنے والی حکومت نے یہ کہنا ہے کہ پچھلی حکومت نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کیا ہے اور اب وہ آسمان سے چاند تارے توڑ کر لے آئیں گے ۔ اس کے بعد اس سے اگلی حکومت ان کے بارے میںیہی کچھ کہے گی۔ اور عوام ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتی رہے گی ۔ ہوتے ہوتے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب ہماری کسی حکومت کے پاس کوئی مثبت پروگرام، یا دو ر رس معاشی ایجنڈا تو کیا ہونا، کسی دوست ملک یا معاشی ادارے سے قرض یا امداد ملنے کی امید یا اعلان ہو جائے تو وہ حکومت اسے بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرتی ہے اور خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ جن گھروں میں قرضے کے موبائل یا گاڑی لے کر یہ سوچے بغیر کہ قرض واپس کیسے کرنا ہے ’’ الحمدللہ ‘‘ کے سٹیٹس لگائے جاتے ہیں ان کا حال کیا ہوتا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ قرض کی یہ اشیاء گھر کے سربراہوں کی عیاشی کے کام تو آ سکتی ہیں، لیکن بچوں کی تعلیم، صحت اور خوراک کے نہیں بلکہ ان کی قسطیں بچوں کی فیسوں اور خوراک میں کٹوتی کر کے ادا کی جاتی ہیں۔ قرضے لینا اور قرضے پر عیاشی کرنا نہ تو کسی خاندان کے سربراہ کے لیے باعث عزت ہو سکتا ہے اور نہ کسی ملک کے سربراہ کے لیے۔ ہماری کہانی اونٹوں پر لدی امریکی گندم سے شروع ہوتی ہوئی ڈالروں اور کچھ دیگر مغربی ممالک سے آنے والی امداد تک آئی اور اسکے بعد ہم کبھی چین، سعودی عرب اور گلف ممالک کی جانب دیکھتے ہیں اور کبھی عالمی معاشی مہاجنوں کی منتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران ہم اپنے طور طریقے بدلنے کی کوشش کرنے کی بجائے آئی ایم ایف سے 23 مرتبہ قرض لے چکے ہیں
آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوا تھا۔ شروع میں آئی ایم ایف کا بنیادی کام دنیا کی مختلف کرنسیوں کے شرح مبادلہ طے کرنا تھا۔ 1973 میں ان الزامات کے بعدکہ یہ ادارہ ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کر تا ہے کرنسیوں شرح مبادلہ کو بظاہر آزاد کر دیا گیا اور آئی ایم ایف غریب اور ترقی پذیر ممالک کو معاشی ترقی کے لیے قرضے اور سہولیات دینے لگا۔ ان سہولیات میں تکنیکی معاونت، تربیت، مشاورت یعنی مشیروں کا تعین وغیرہ شامل ہیں ۔ جتنا قرضہ یہ ادارہ کسی ملک کو دیتا ہے اس کا بڑا حصہ ان ’’سہولیات‘‘ کے خرچے کے طور پر واپس لے لیتا ہے۔ اور سود اس کے علاوہ ہے۔ اسی لیے آپ کو دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ملے گا جس نے اس ادارے کی مدد سے معاشی ترقی کی ہو۔ صرف ان ممالک کی معیشت بہتر ہوئی جنہوں نے جلد یا بدیر سبق حاصل کر کے ان مہاجنوں سے چھٹکارا حاصل کیا اور اوپر بیان کئے گئے بنیادی اور سادہ معاشی اصول کے مطابق اپنے اخراجات میں کمی، آمدنی میں اضافے اور چاچوں ماموں کی مفت عیاشیوں سے جان چھڑا لی۔ 
کرونا، سیلاب، کمزور گورننس، قدرتی آفات اور ملک دشمنوں وغیرہ کا کردار اپنی جگہ لیکن اس سب صورتحال میںہمارے سیاستدانوں کی اکثریت کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ملک خاص طور پر سب سے بڑے صوبے میں سیاسی عدم استحکام سے پاکستان کو کوئی معاشی فائدہ نہ ملا نہ مل سکتا ہے۔ ایک دوسرے کو کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش، الزامات، دشنام طرازیوں میں ساری طاقت صرف کرنے والوں میں سب کی واحد دلچسپی یہ ہے کہ طاقت اور حکومت اسے مل جائے۔ جب ملک کی خدمت کے جذبے سے سرشار ( جانے انہوں نے خدمت کس چیز کا نام رکھا ہے)، تمام سیاستدان اس بات پر متقق ہیں کہ ملک اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے تو پھر وہ کچھ عرصے کے لیے ملک کو اس منجھدار سے نکالنے کے لیے متفق کیوں نہیںہو سکتے؟ اگرذاتی مفادات کی بجائے ان سب کی پہلی ترجیح پاکستان اور پاکستان کی عوام ہوتی تو اب تک یہ سب اس ایک نکتے پر متفق ہو چکے ہوتے ۔ 

ای پیپر دی نیشن