دنیا میں عظیم کارنامے انجام دینے والی ہستیاں (خصوصاً انبیاء علیہم السلام) ہمیشہ غیرمعمولی صلاحیتوں سے آراستہ ہوتی ہیں۔اصلاح کے کام، تحریکوں کی رہنمائی اورتہذیبوں کی تعمیرنو کرنے والوں کی اصل قوت ان کی شخصیت ہی ہوتی ہے، جو خاص طرح کے افکار وکردار سے بنتی ہے سیرت پاک کے مطالعہ کی ایک غایت یہ بھی ہے کہ محسن انسانیت کی شخصیت کو سمجھا جائے۔
کسی بھی شخصیت کو سمجھنے میں اس کی وجاہت بہت بڑی مدد دیتی ہے آدمی کا سراپا اس کے بدن کی ساخت،اس کے ذہنی اور اخلاقی اور جذباتی مرتبے کا آئینہ دار ہوتاہے۔ خصوصاً چہرہ ایک ایسا قرطاس ہوتاہے جس پر انسانی کردار اور کارناموں کی ساری داستان لکھی ہوتی ہے اور اس پر ایک نظر ڈالتے ہی ہم کسی کے مقام کا تصورکرسکتے ہیں۔
ہم بعد کے لوگوں کی بدقسمتی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے انسان کا روئے زیبا ہمارے سامنے نہیں ہے اور نہ ہم عالم واقعہ میں سر کی آنکھوں سے زیارت کا شرف حاصل کرسکتے ہیں۔ہم حضور? کے حسن وجمال کی جوکچھ بھی جھلک پاسکتے ہیں وہ حضور? کے پیغام اور کارنامے کے آئینے ہی میں پاسکتے ہیں۔
حضور? کی کوئی حقیقی شبیہ یا تصویرموجود نہیں ہے۔ خود ہی حضور? کی امت کو اس سے باز رکھا۔ کیونکہ تصویر کافتنہ شرک سے درے درے نہ رک سکتا۔ حضور? کی اگر کوئی تصویرموجود ہوتی تونہ جانے اس کے ساتھ کیاکیا کرامات اور اعجاز منسوب ہوجاتے اور اس کے اعزاز کیلئے کیسی کیسی رسمیں اور تقریبیں نمود ہوچکی ہوتیں بلکہ بعید نہ تھاکہ اس کی پرستش ہونے لگتی۔ یورپ میں حضور? کی فرضی تصاویر بنائی جاتی رہی ہیں لیکن کون سا آرٹسٹ ایساہے کہ جو حضور? کے عالم خیال اورکردار کا شوشہ بہ شوشہ کامل اورجامع تصور رکھتاہو اورپھر اس تصویرکولکیروں اور رنگوں میں پوری طرح جلوہ گرکرسکے۔ فرضی تصویریں جوکچھ بھی بنتی ہیں وہ اس مخصوص پیکر کی نہیں ہوتیں جس کا اسم مبارک محمدؐ تھالبکہ کسی موہوم وجودکا خاکہ گھڑکر اسکوحضور کا نام دے دیاجاتاہے۔ معاملہ دیانت کے تابعہ بھی نہیں رہتا بلکہ دانستہ ایسی تصویریں پیش کی جاتی ہیں جن سے ایک کمزور اور ناقص شخصیت کاتصور پیدا ہو۔ ان تصاویرکیلئے رنگ انہیں معتصبانہ تصانیف اور تذکروں سے لیاجاتاہے جو عنادکج فہمی اور حقیقیت ناشناسی کے مظہر ہیں۔ انبیاء اورصحابہ کی فرضی تصاویر بنانے یا انکے کردار ڈراموں میں لانے سے نقصان یہی ہے کہ ان کے اصل کردار ان پردوں کے پیچھے بالکل گم ہوکے نہ رہ جائیں اور دیکھنے والوں کوغلط اثرپڑے۔
لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں نے کم سے کم پردہ الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ کومرتب کردیاہے اور اسے محفوظ حالت میں اصحاب روایت نے ہم تک پہنچادیاہے یہاں لفظی شبیہ کوپیش کرنے کامقصدیہ ہے کہ قارئین حضورؐکے کردار کامطالعہ کرنے سے پہلے اس عظیم انسان کی ایک جھلک دیکھ لیں یہ گویا ایک نوع کی ملاقات ہے۔ایک تعارف!
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس، قدوقامت، خدوخال،چال ڈھال اور وجاہت کا جو عکس صدیوں کے پردوں سے چھن کرہم تک پہنچتاہے وہ بہرحال ایک ایسے انسان کا تصوردلاتاہے جو ذہانت، شجاعت، صبرو استقامت راستہ ودیانت، عالمی ظرفی، سخاوت، فرض شناسی،وقار وانکسار اور فصاحب وبلاغت جیسے اوصاف حمیدہ کاجامع تھا، بلکہ کہنا چاہیے کہ حضورؐ کے جسمانی نقشے میں روح نبوت کاپَر تو دیکھاجاسکتاہے اور آپؐکی وجاہت خود آپ کے مقدس مرتبہ کی ایک دلیل تھی۔ اس موقع پر آپ کا ایک ارشاد یاد آیا۔ خدا کا تقویٰ ہی چہروں کو روشن کرتاہے۔ نبوت تو ایمان وتقویٰ کی معراج ہے نبی کا چہرہ تو نور افشاں ہی ہونا چاہیے۔
یوں تو حضورؐ کے متعدد رفقاء نے حضورؐ کی شخصیت کے مرقعے لفظوں میں پیش کئے ہیں لیکن ام معبد نے جو تصویرمرتب کی ہے اس کا جواب نہیں، وادی ہجرت کا سفر طے کرتے ہوئے مسافر حق جب اپنی منزل اول(غارثور) سے چلاتو پہلے ہی روز قوم خزانہ کی اس نیک نہاد بڑھیا کاخیمہ راہ میں پڑا۔ حضورؐ اور آپ کے ہمرا ہی پیاسے تھے۔ فیضان خاص تھاکہ مریل سی بھوکی بکری نے اس لمحہ وافر مقدار میں دودھ دیا۔ حضورؐ نے بھی پیا، ہمراہیوں نے بھی اورکچھ بچ رہا ام معبد کے شوہر نے گھرآکر دودھ دیکھا تو اچنبھے سے پوچھاکہ یہ کہاں سے آیا۔ ام معبد نے سارا حال بیان کیا۔ وہ پوچھنے لگاکہ اچھا اس قریشی نوجوان کا نقشہ تو بیان کرو۔ یہ وہی تو نہیں جس کی تمنا ہے اس پر ام معید نے حسین ترین الفاظ میں تصویر کھینچی۔ ام معبد کو نہ توکوئی تعارف تھانہ کسی طرح کا تعصب بلکہ جوکچھ دیکھا من وعن کہہ دیا۔
حضورکی چال عظمت،وقار،شرافت اور احساص ذمہ داری کی ترجمان تھی۔ چلتے تومضبوطی سے قدم جماکرچلتے۔ ڈھیلے ڈھالے طریق سے قدم گھسیٹ کرنہیں۔ بدن سمٹاہوا رہتا۔ دائیں بائیں دیکھے بغیرچلتے۔ قوت سے آگے کو قدم اٹھاتے۔ قامت میں آگے کی طرف قدرے جھکاؤہوتا۔ ایسا معلوم ہوتاکہ اونچائی سے نیچے کواتر رہے ہیں، ہند بن ابی ہالہ کے الفاظ میں گویا زمین آپ کی رفتار کے ساتھ لپٹی جارہی ہے۔ رفتار تیزہوتی قدم قدم کھلے کھلے رکھتے آپ معمولی رفتار سے چلتے مگربقول حضرت ابوہریرہ ؓہم مشکل سے ساتھ دے پاتے۔ حضوؐ کی رفتار یہ پیغام بھی دیتی جاتی تھی کہ زمین پر گھمنڈ کی چال نہ چلو۔