ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
کیا تیسری جنگ عظیم سر پر کھڑی ہے ؟؟؟نہیں! سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔حق بات کہنے اور جنگ کرنے کے لیے غیرت ،حمیت ،جو ش ا یمانی اور مردانگی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بدقسمتی سے دنیا کے 57 اسلامی ممالک بلکہ پوری امتِ مسلمہ بھنگ کھا کر سوئی ہوئی ہے۔ غزہ میں جب اسرائیل نے اپنی سفاکیت، بربریت اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بمباری کی جس کی نتیجے میں بچے آسمانوں میں اُچھل رہے تھے۔ یہ ایسا دل خر اش منظر تھا کہ دل کے ہزاروں ٹکڑے ہو گئے۔ ابلیس بھی کپکپا کر رہ گیا ہوگا ۔۔۔لیکن ہمارے ہاں کسی کو احساس ہوا ؟کسی کا قلیجہ پھٹا ؟کسی نے اُٹھ کر اسرائیل پر لعنت بھیجی بلکہ ایک ایسے وقت میں ایک عربی شیخ نے سوشل میڈیا پر اپنی تصویر شیئر کی جس میں وہ اپنی گندی سی شکل کے ساتھ مسکرا رہا تھا اور اس نے تصویر پر درج کیا تھا کہ اس نے اپنے اور اپنے اونٹ کے سونے کے دانت لگوائے ہیں۔ کسی نے ان لوگوں کے متعلق ٹھیک ہی کہا تھا کہ یہ لوگ آج 21 صدی میں بھی نرے بدو کے بدو ہیں ۔دانت سفید رنگ کے لگائے جاتے ہیں اور سونا پیلے رنگ کا ہوتا ہے مگر شیوخ کے پاس اس قدر دولت ہے کہ وہ اسے محض عیاشی پر خرچ کرتے ہیں۔ ابھی چند سال قبل غالباً قطر کا ایک شیخ مرا تو اُس کے گھر میں سونے کے انبار تھے ۔اُس کا بیڈ، فرنیچر، کراکری ،گاڑی، بیسن کموڈ تک سونے کا تھا ۔مسلم حکمرانوں نے زیادہ تر عیاشیوں کو ترجیح دی ہے حضرت خالد بن ولیدؓ، طارق بن زیاد ،محمد بن قاسم ،صلاح الدین ایوبی چند نامور سپہ سالار ہیں جن کی زندگیوں کا مقصد اسلام کا دفاع اور اسلام کی سربلندگی تھا وگرنہ ہمارے ہاں ایسے مسلم حکمران بھی گزرے ہیں جن کی زندگیوں کا مقصد محض عیش و عشرت تھا ۔زیادہ تر حکمرانوں، بادشاہوں نے زندگی میں شادیاں رچانے کے علاوہ کیا کیا؟ ان لوگوں نے اپنے حرم میں کئی کئی بیویاں رکھی ہوئی تھیں ۔مسلم بیویوں کے علاوہ ہندو ،عیسائی ،یہودی ،پارسی سکھ بیویاں بھی ہوتی تھی خاص طور پر مغلیہ عہد میں تو ہر نسل کی بیوی حرم کی زینت ہوتی تھی۔ تاریخ پر پر دے ڈالنے کی بجائے اور تاریخ کومسخ کرنے کے بجائے آئیے آج اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنی تلخ و ترش سچائیوں سے کچھ سبق سیکھیں۔ ہمارے اکثر مسلم بادشاہوں کی زندگی شادیوں کے گرد گھومتی ہے ۔حرم میں عورتیں ہوتی تھیں جن میں کنیزیں بھی بکثرت ہوتی تھیں۔کیا یہ کوئی شغل میلہ تھا؟؟؟ مردانگی ثابت کرنے کا مقام میدان جنگ ہوتا ہے ۔مردانگی ثابت کرنے کے لیے غیرت اور حمیت تقاضا کرتی ہے۔ مرد انگی کا وصف یہ ہے کہ آپ اپنے خاندان کو کیسے عزت اور طاقت دیتے ہیں ۔مردانگی کے جو ہر علم و ادب یا سائنس اور ٹیکنالوجی یا کسی بھی میدان کو سر کر کے ظاہر کیے جاتے ہیں۔ مردانگی آپ کی اخلاقیات میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ مرد تو حضرت خالد بن ولیدؓ تھے جو کہتے تھے کہ شبِ عروسی سے زیادہ مجھے میدان جنگ عزیز ہے۔ حقیقت سے پردہ اُٹھانے دیں۔ سچ کانوں کو کاٹتا ضرور ہے لیکن سچ سننے سے انسان میں اصلاح کاجذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ذرا غور فرمائے کہ ایک بوڑھا ترین حکمران کرنل مُعمر قذافی جس نے لیبیا کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس نے اپنی حفاظت کے لیے عورتوں کی فوج رکھی ہوئی تھی۔ ہر کام پر عورت مامور تھی ۔پھر جیسے اسکو موت آئی وہ ایک عبرت ناک داستان ہے ۔صدام حسین حکمرانوں کا سلطان راہی تھا جو صرف بڑہکیں لگانا جانتا تھا ۔اس کے محلات بھی عیاشی کے اسباب سے لبریز تھے ۔ایران کا مشہور بادشاہ رضا شاہ پہلوی جسے دولت ،طاقت ،شہرت کا جنون تھا ۔اُس نے دولت کے انباروں کو اپنا خدا بنا لیا تھا۔ اُس کی موت بھی ایک سبق آموز کہانی ہے۔ مجھے کہنے دیںکہ ہماری تمام عرب ریاستیں دنیاوی جاہ و جلال اور عیش و عشرت کے سامانوں سے بھری ہوئی ہیں۔ اُن کی زندگیاں کا مقصد ہرنوں، چکوروں اور عقابوں کے ساتھ شکار کرنا رہ گیا ہے اورمرغوں،تیتروں ،شُتر مرغوں، گھوڑو ں،اُونٹوں کو لڑانا ہے۔ غریب ممالک سے چھوٹے معصوم بچوں کو اُونٹوں کے پیچھے باندھ کر دوڑیں لگواتے ہیں۔ بچے خوف سے چیخیں مارتے ہیں اور اکثر مر جاتے ہیں۔ مگر یہ شیخ اس بہیمانہ غیر انسانی کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مسلم حکمرانوں کو ہمیشہ محلات، سونے، بیش قیمت گاڑیوں،شکار اور ناچ گانوں سے دلچسپی رہی ہے۔نریندر مودی کو ہمارے شیوخ میں ایک خاص مقام حاصل ہے کیونکہ وہاں ہر سال نئی سے نئی اور خوبصورت لڑکیاں فلم کے ذریعے منظر عام پر لائی جاتی ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ سب دبئی ،ابو ظہبی ،قطر ،کویت اووعمان جاتی ہیں اور دل پشوری کا سامان بنتی ہیں۔ امریکہ، انگلینڈ ،فرانس، تھائی لینڈ، بینکاک، ماریشس، سنگاپور میں مسلم شیوخ اورامراء وہاں جا کر دادِ عیش دیتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کو بھلا فلسطین اُجڑتا، تباہ و برباد ہوتاکیوں دکھائی دے گا ۔جب انسان عیاشیوں میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے کسی کی مصیبت، دکھ درد دکھائی نہیں دیتا ۔ہمارے مسلم حکمرانوں کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ جب دولت، طاقت، اقتدار پاتے ہیں تو آپے اس سے باہر ہو جاتے ہیں۔ جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ ایک بھی حکمران زندگی بھر حاکم نہیں رہا ۔اقتدار کا جھولا تھوڑے دن کا ہوتا ہے۔ دو ارب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے فلسطین کی چند ماہ میں اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے اور اُن کی نسل کشی کرنے جا رہے ہیں ۔یہاں تک کہ غزہ کی دہشت گردی اور ظلم و جبر کو چھپایا گیا ۔غلط اعداد و شمار دئیے گئے۔ سعودی عرب نے دو تین مرتبہ بات کی لیکن امریکہ نے مصلحتوں کا جال بچھا دیا ۔مصر اور ترکی نے آواز اُٹھانی چاہی لیکن انہیں خاموش کرا دیا گیا۔ شام، لبنان ،یمن نے ساتھ دیا تو اُن پر شدید بمباری کر دی گئی۔ ایران نے للکارہ تو ایران کو سخت دھمکیاں دی گئیں۔ روس،چین ،فرانس ،کینیڈا، جرمنی اور انگلینڈ نے مخالفت کی ہے۔ مظاہرے ہوئے ،احتجاج ہوا، بڑی بڑی ریلیاں نکالی گئیں لیکن اسلامی ممالک میں ساری مسلم اُمہ کوسانپ سونگھے رہا ۔دنیا کی دوسری بڑی تنظیم اوآئی سی ستو پی کر سوتی رہی۔ دو تین بار روایتی انداز میں ڈھیلے ڈھالے طریقے سے ایسے بات کی جیسے غزہ لہو میں نہیں نہا رہا بلکہ غزہ کو یوں ہی ہلکا پھلکا بخار ہے ۔ساری دنیا کو ُگل مکئی کی ڈائری نظر آگئی۔ امریکی ایجنڈے پر چلنے والی ملالہ یوسف ذئی کے باپ ضیاء نے کامیابی سے پروگرام پر عمل درآمد کیا۔ ملالہ یوسف زئی کو نوبل پرائز دیا گیا۔ کوئی بتائے کہ اُس نے ایسا کیا کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ کون سا انقلابی معرکہ سر کر لیا تھا ۔جیسا کہ ٓاج کل ماہ رنگ بلوچ کو نوبل پرائز کے لیے نامزد کر دیا گیا ہے ۔ہمارے لیے تو فخر کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں تیسرا نوبل پرائز آ جائے۔ لیکن اس کی ٹھوس وجوہات بھی تو ہوں ۔ماہرنگ بلوچ غیار کے ہاتھوں میں کھیل کر بلوچستان کے حالات خراب کر رہی ہے۔اتنی غریب ہے کہ تین وقت کی روٹی نہیں کھا سکتی ۔ماں اپنے کپڑے بیچ کر اُسے پڑھاتی رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ ہر سال چار مرتبہ غیر ملکی دورے کر کے آتی ہے اور لاکھوں کے موبائل لیپ ٹاپ استعمال کرتی ہے۔ آخر ملک سے غداری پر کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا ۔یہودیوں کے متعلق نویںدسویں جماعت میں پڑھا تھا کہ یہ دنیا کی منافق ترین قوم ہے۔ بغل میں چھری منہ میں رام رام کرتے ہیں ۔یہ مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے ہیں اور مسلمانوں کو صفحہء ہستی سے مٹانے کے در پہ ہیں ۔فلسطینیوں نے اسرائیل کا ایسا کیا بگاڑا ہے ۔تاریخ اور جغرافیے کا مطالعہ کر لیں کہ چند صدیوں پہلے جو علاقہ عیسائیوں کا تھا وہ مسلمان کا ہوگیا تھا۔آریاؤں نے ہندوستان پر تسلط جما لیا پھر مسلمان آگئے۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے اکثر مسلم علاقوں پر قبضہ کیا۔ ترکی، فلسطین شام، ایران، اٹلی ،یونان، سپین ،امریکہ، مصر، عراق، یمن، سکاٹ لیند، آئرلینڈ، روس اور انڈیاسمیت بے شمار ممالک پر پہلے دوسرے اقوام کی حکومت تھی لیکن کبھی یوں نسل کشی ظالمانہ طریقے سے نہیں کی گئی ۔گزشتہ کئی ماہ سے اسرائیل نے دہشت گرد ی کی آگ برسا رکھی ہے ۔وہ دنیا کی تاریخ میں آپ کو کہیں نہیں ملے گی ۔پہلے غیر مہذب ،غیر تعلیم یافتہ اور غیر متمدن اقوام تھیں۔ لیکن نیتن یاہونے ہٹلر میں ،نپولین، چرچل ،ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھی مات دے دی ہے۔ انسان نہیں درندہ ہے ۔اس پر ڈونلڈ ٹرمپ کی آشیرباد ایک شیطانی مکروہ فعل ہے۔ اقوام متحدہ محض کٹھ پتلی ہے۔ کوئی عیسائی یہودی ہندو مر جائے تو زمین آسمان ہلا دیتے ہیں۔ لیکن غزہ میں بوڑھے جوان بچے بیمار معذور عورتیں سب کو مار ڈالا ہے۔ لیکن نہ نتن یاہو کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ رہی ہے نہ ڈونلڈ ٹرمپ کو چین آ رہا ہے۔ فلسطین آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ایک فلسطینی لڑکی نے کہا کہ مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ہماری نسل مٹا دی گئی ہے۔ ایک نوجوان نے کہا کہ مسلمان مزے کریں ،مصلحتوں کے جھولے جھولیں۔ اُن سے آخرت میں سوال ہوگا۔غزہ کھنڈر بن چکا ہے جہاں امریکہ اسرائیل کی بڑی بڑی طاقتور کمپنیاں اب نئے شہر آباد کریں گی ۔اے مسلمانوں!! تمہاری بے حمیتی کو اکیس طوپوں کی سلامی ۔کل عراق، افغانستان ،شام ،یمن ،لبنان اور لیبیا کو تہس نہس کیا گیا۔ آج فلسطین کو لہو لہو کیا ہے اور کل ہم سب کی باری ہے۔ اے مسلمانو ں!یہی تمہاری مردانگی ہے؟؟؟