ماں ایک عظیم ہستی

اگر خوبصورت رشتوں کی بات کی جائے تو دنیا میں سب سے زیادہ خوبصورت رشتہ ماں کا ہے ماں کا لفظ دیکھنے میں تو بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے معنی پر غور کیا جائے تو بہت گہرے ہیں ماں ایک ایسی نایاب ہستی کا نام ہے جو اپنی اولاد کیلئے سراپا چھاؤں، شوہر کیلئے ہمنوا اور ہمدرد مگر دوسروں کیلئے فقط ایک عورت ہے۔ ماں کے لغوی معنی پیار کے ہیں۔ یہ پیار ماں اور اس کی اولاد کے مابین ہوتا ہے اس پیار سے اولاد ہی نہیں بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ مستفید ہوتا ہے۔ بچے کی تکلیف پر ساری رات جاگنے اور ہر پہلو سے خیال رکھنے والی اس ہستی کا رتبہ دنیا اور آخرت میں بہت بلند ہے۔ ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کے سائے تلے بیٹھ کر دل کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے جس نے اپنے اندر اپنی اولاد کا ہر دکھ چھپا رکھا ہے۔ جس کی دعا کی بدولت ہر انسان دنیا کی کسی بھی مشکل اور کٹھن حالات کو آسانی سے پار کر سکتا ہے ۔ماں وہ ہستی ہے جس کی دعا میں کوئی رکاوٹ نہیں اس لئے ہمیں اپنی ماں کی عزت اور عظمت کوٹھیس نہیں پہنچانی چاہئے کیونکہ خدا اور ماں کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔ ماں تو ایک ایسی ہستی ہے جو اپنے بچوں پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتی اور سب کچھ ہنسی خوشی برداشت کرتی ہے اور اولاد کی سرکشی کے باوجود بھی اسے معاف کردیتی ہے تو ایسی ماں اگر سراپا محبت نہیں ہے تو اور کیا ہے۔غموں سے چور اس عظیم شخصیت کی زندگی میں والدین اور سسرال والوں کی خدمت‘ خاوند سے وفا اور اولاد سے پیار کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں ماں کا رتبہ تمام ہستیوں سے بڑھ کر آیا ہے حتیٰ کہ ’’جنت کو ماں کے قدموں تلے قرار دیا ہے۔‘‘نیز ماں کو دکھ پہنچانے والی اولاد پر جنت حرام کی گئی ہے دنیا کے تمام دانشور اور علمائے کرام اس عظیم ہستی کی دعاؤں کی بدولت ہی دنیا و آخرت میں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ماں اپنی خواہشات کو بھول کر صرف اپنی اولاد کی خواہشات کو ترجیح دیتی ہے اولاد کی بہترین پرورش کیلئے ماں دن رات ایک کردیتی ہے اور اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہو جاتی ہے کہ ماں خود کو اکیلا محسوس کرنے لگتی ہے لیکن ماںیہاں آ کر بھی شکوہ کرنے کی بجائے قبر کا مظاہرہ کرتی ہے اگر یہ کہا جائے کہ اﷲ نے ماں کو صبر اور تحمل کا عملی نمونہ بنایا ہے تو بے جا نہ ہو گا بڑی سے بڑی پریشانی کو جھیل لینا ہی ماں کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ بچپن میں بچّوں کی غلطیاں رد کرنے والی لڑکپن میں عقل و شعور دینے والی‘ جوانی میں نیکی کی تلقین کرنے والی اس ہستی کو بڑھاپے میں سہارا ہی بہت کم حاصل ہوتا ہے اور پھر یہ ہستی اپنے تمام تر راز اور اہم سینے میں دفن کیے جہان فانی سے رخصت ہو جاتی ہے اس گوہر نایاب کی قدر ومنزلت کا اندازہ موت کے بعد ہوتا ہے۔ انسان فانی ہے مگر کردار اور اچھے اخلاق و سکون ہمیشہ زندہ رہتے ہیں دلوں میں بھی۔ لفظوں میں بھی اور دعاؤں میں بھی کوشش کریں کہ ہم بھی اس دولت سے فیض یاب ہو سکیں۔
قبر کی آغوش میں تھک کر سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کے تھوڑا سکون پاتی ہے ماں
فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گھل جاتی ہے ماں
نوجوان ہوتے ہوئے بھی بوڑھی نظر آتی ہے ماں
روح کے جذبوں کی یہ گہراییاں تو دیکھیے
چوٹ ہم کو لگتی ہے اور چلاتی ہے ماں
چاہے ہم خوشیوں میں ماں کو اپنی بھول جائیں لیکن
جب مصیبت سر پہ آئے تو یاد آتی ہے ماں
شکریہ ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مرتے بھی دُعا جینے کی دے جاتی ہے ماں
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
یہ تو ان لوگوں سے پوچھ جن کی مرجاتی ہے ماں
ماں تو دنیا میں میرے وجود کی موجودگی کا باعث بھی تیری ذات میں میرا وجود پنہاں تھا۔ میں جب کچھ نہ تھا تو آپ ہی تھی آپ کا بطن میری تخلیق کا ذریعہ تھا۔ میری ہستی تیرا نمونہ تھی آپ نے مجھے وہ سب کچھ دیا جو میرا نہ تھا آپ ہی میرے لئے راحت اور فرحت و انبساط کا ذریعہ تھیں آپ کے وجود کی مہک میرا سامان راحت تھا۔ انگلی پکڑ کر میں نے سفر زندگی شروع کیا تھا میری زندگی کے سبھی نشیب فراز آپ کی دعاؤں سے عبارت تھے کچھ کو کہے اور سنے بغیر میرے دکھوں کے مداوا کیلئے دعاگو رہتیں۔ ان کے ہاتھ میری کامیابی کیلئے اٹھتے ہے ماں کی موجودگی میں کبھی شکست کا ڈر نہیں تھا ایک نادیدہ قوت ہر وقت ہمیں اپنے حصار میں لئے رکھتی تھی ایک نامعلوم غیبی طاقت کے زیر اثر اپنے وجود میں بھرپور توانائیاں محسوس کرتا تھا کچھ کہتے اور کئے بغیر سب کچھ پالیتا تھا کیونکہ دعاؤں کا حصار مجھے اپنے حلقے میں لے کر حفاظت کرتا تھا۔
آج میری ماں مجھ سے منہ موڑ کر اپنے خالق حقیقی کی عظیم جنت میں اس کی عطا کردہ نعمتوں اور راحتوں کے درمیان چین و راحت کی ابدی زندگی گزار رہی ہے پر میں تیرے بغیر ادھورا ہوں اور رہوں گا تیری یادوں کے سنگ اپنا بقیہ جیون بناؤں گا یہ ہی مشیت ایزدی ہے اور مجھے اپنے رب کے حکم کو بسر و چشم ماننا ہے۔
یہ کامیابیاں‘ عزت یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے
تمہارے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب
میرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے
کہاں یہ بساط جہاں اور میں کم سن و نادان
یہ میری جنت کا سب اہتمام تم سے ہے
اور جہاں جہاں سے میری رنجش سب میں ہوں
اور جہاں جہاں ہے میرا احترام تم سے ہے
جب ماں کو اﷲ تعالیٰ نے بنایا تو فرشتوں کو حکم ہوا کہ چاند کی چمک‘ شبنم کے آنسو‘ بلبل کے نغمے‘ چکور کی تڑپ گلاب کے رنگ‘ پھول کی مہک‘ کوئل کی کوک ‘ کہکشاں کی رنگینی‘ صبح کا نور‘ سمندر کی گہرائی‘ دریاؤں کی روانی‘ موجوں کا جوش اور آفتاب کی تمانت کو جمع کیا جائے تاکہ ماں کی تخلیق کی جائے جو ماں کو بنایا گیا تو فرشتوں نے خدا تعالیٰ سے پوچھا اے مالک دو جہاں تو نے اپنی طرف سے اس میں کیا شامل کیا تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ۔ سبحان اﷲ‘ سبحان اﷲ‘ سبحان اﷲ ۔ اﷲ اکبر ماں کے بغیر گھر قبرستان ہے ماں کی آغوش انسان کی پہلی درس گاہ ہے ماں دنیا کی عظیم ترین ہستی ہے۔ ماں زندگی کی تاریک راہوں میں روشنی پھیلاتی ہے ہاں روشنی کا مینار ہے ماں کی محبت پھول سے زیادہ تر و تازہ ہے ماں سے بڑھ کر کوئی استاد نہیں۔ ماں کی اصل خوبصورتی اس کی محبت ہے ماں کی دعا کامیابی کا راز ہے مجھے دنیا میں جس ہستی سے پیار ہے وہ میری ماں ہے ماں کی محبت پھول سے زیادہ ترو تازہ اور لطیف ہے ماں کے بغیر کائنات ادھوری ہے۔ ماں انسان کو سب سے زیادہ پیار کرنے والی ہستی ہے پس ماں ایک سایہ دار درخت کی مانند ہے جو بچوں کے سکون کیلئے خود کڑی دھوپ میں جلتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن