بزدلانہ حملے کی پسپائی

عام طور پر ضلع خیبر پختونخواہ کا خوبصورت شہر اپنی رنگین شاموں کے حوالہ سے مشہور ہے جہاں ہر شام ڈھول کی تاپ پر رقص کرنے اپنے غموں کو موسیقی کی تیز اواز میں بھول جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور خوش ذائقہ ملکر  "پینڈا" کھانے کے لئے مشہور ہیں یاد رہے کہ پینڈا ایک قسم کی دعوتی لذیذ کھانا ہے لیکن یہ ایک بد قسمت شام تھی پورا شہر خریداری کے بعد اپنی اپنی دسترخوانوں کے گرد اپنے پیاروں کے ساتھ موذن کی اواز کے انتظار میں خشک لبوں تر انکھوں اور مطمئن دل کی دھڑکنوں کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اچانک ایک فلک شگاف دھماکہ ہوا پھر فائرنگ اور اس کے بعد ایک اور دھماکہ ہوا جس نے ارد گرد کے گھروں مسجدوں کے چھتوں کو گرا زمین بوس کیا جس کے نتیجے میں لوگ ملبے تلے دب گئے .4 بمبار خودکش 14 مزید حملہ اوروں کے ہمراہ ٹرالی میں چھ من بارود لے کر ائے اور انگریزوں کے دور کی بنی فوجی چھاونی سے ٹکراء￿  جس کے نتیجے میں ہر طرف قیامت صغری برپا ہوء اور ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی فوج نے دوسری فوج پر اچانک شب خون مارا ہو اور خون ہولی جاری تھی.اذان کی اواز دب گء￿  اور چیخ و پکار نے فضا میں غم و درد کے نالے ہر طرف بکھیر دئیے اور ہر طرف سے مسلسل فائرنگ کی اوازیں ارہی تھیں اور کچھ لوگ مدد کے لئے اپنوں کو پکار رہے تھے لیکن زوردار دھماکوں کی وجہ سے سب کے اوسان خطا تھے اور کسی کی سمجھ میں نہیں ارہا تھا کہ کیا کریں کس طرف بھاگیں اور کس سے مدد لیں.  فوجی بیرکوں میں بھی فوجی افطاری کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ دھماکے کے ساتھ سب لوگ تیز دوڑتے ہوئے اٹھے بھاگے اور ہر کسی کو پتہ تھا کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور دشمن کتنی جدید اسلحہ وبارود ے ساتھ ہم پر حملہ اور ہوا ہے . گھمسان کی جنگ جاری تھی ہر طرف گولیوں کی بوچھاڑ تھی اور یہ چند ہی ساعتیں تھیں کہ خدانخواستہ اگر وہ لوگ دیواروں دروازوں کو توڑ کر پھلانگ کر اندر داخل ہوتے اور مزید دھماکے فائرنگ کرتے تو ارمی پبلک سکول کی طرح ہر طرف لاشیں اور خون کے دریا بہتے نظر اتے اور لاشوں کے انبار لگتے لیکن وہاں پر موجود فوجیوں نے انتہاء￿  بہادری مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنے بڑے حملے کو پسپا کر دیا اور تمام حملہ اوروں کو بھی موت کے گھاٹ سلا دیا .اج کی تحریر ان لوگوں کے لئے ہے جو کہہ رہے ہیں کہ یہ کیسا حملہ پسپا ہوا جب اتنے سارے لوگ لقمہ اجل بن گئے اور کء￿  لوگ زخمی ہو کر ہسپتالوں میں داخل ہو گئے ہیں تو ان لوگوں کے لئے عرض ہے کہ در اصل بہت ساری اموات اس وجہ سے ہوء￿  ہیں کہ جب چھ من بارودی مواد زور سے دھماکوں سے پھٹے تو اس وجہ سے بہت ساری عمارتوں کے گرنے سے ہوئیں اور اصل مقابلہ پاک فوج اور حملہ اوروں کے درمیان ہوا جس میں فوجی بھی گرے اور اور حملہ اور بھی موت کی نیند سو گئے اور کوء￿  بھی حملہ اور خودکش چھاونی کے اندر داخل ہونے سے قاصر رہا اور اپنے سروں کو وہ کینٹ کی دیواروں کے ساتھ ٹکراتے رہے اور وہیں پر ڈھیر ہو گئے .اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ خود کش کیسے ائے؟ کہاں سے ائے اور اتنی دلیری سے وہ فوجی چھاونی پر کیسے حملہ اور ہوئے تو یہ ایک مسلسل ان کی پیش قدمی ہے جو وہ اگے بڑھ رہے ہیں جیسے انھوں نے کسی ایکشن فلم کی طرح بنوں جیل کے دروازے توڑے اور اپنے ساتھیوں کو بیڑیوں سے ازاد کر کے بہت دور لے گئے اور شاید یہ بھی ایک وجہ ہو جس میں خود ہم نے ان کی ہتھکڑیاں کھول دیں اور وہ ازاد پھرنے لگے اور کچھ اور خاص لوگ جیسے احسان اللہ احسان ترکی کے ہوٹلوں میں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے لگے .اگر یسا نہ ہوتا اور اس مرحلے پر ہم ان کو پکڑ لیتے قابو کر لیتے تو اج یہ صورت پیش نہ اتی اور ایک اور بات بھی ہے کہ فوج سے پہلے سی ٹی ڈی کا یہ دائرہ کار ہے کہ وہ ایسے امدورفت اہسے کرداروں اور ایسے منصوبوں و شخصیات کو پکڑ کر ایسے خطرنا نٹ ورک توڑیں.حقانیہ مدرسہ میں مولانا حامد کی شہادت اور اب بنوں چھاونی پر حملہ نے ہر طرف خوف کے سائے پہلے سے اور گہرے کئے ہیں اور اگر کوء￿  یہ کہے کہ یہ حملے اپ بندوق سے بند کر سکیں گے تو یہ اپ کی بھول ہے کیونکہ یہ تب ممکن ہو سکے گا جب اپ کے ریاست کی پالیسی درست سمت میں ہو اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ان کے تعلقات جنگ کی جگہ مفاہمت و سیاست کی بنیاد پر ہوں لیکن اگر اپ دوبارہ شریف اللہ جیسے لوگوں دوبارہ امریکہ کے حوالے کریں گے تو یہ جنگ یہ حملے یہ کاروائیاں تا دیر جاری رہیں گی اور ہم اس جہنم جیسی اگ سے نکلنے میں ناکام ہوں گے اور ہماری زندگی اسی طرح  بدامنی اور بے چینی سے دوچار ہو گی اور ہمیں کبھی بھی سکون حاصل نہیں ہو گا.پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے بدھ کی شام کو جس طوفانی خطرناک حملے کو پسپا کیا ہے اور اس کے تمام کرداروں کو انجام تک پہنچایا تو ان کو داد ضرور دینی چاہیے کیونکہ اگر یہ کمزور فوج ہوتی غیر تربیت یافتہ لوگ ہوتے تو دم دبا کر بھاگتے اور اگ اور خون کے اس سمندر میں کودنے خود کو اگ کے شعلوں میں جلانے کی بجائے ہاتھ اٹھا کر دور کھڑے ہوتے اور دشمن ان کی وردیاں اتار کر ان کو گولیوں سے بھون ڈالتے لیکن نہیں ہماری فوج ہمارے جوانوں نے خود کی پروا نہ کی اور اگ کے اس طوفان کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہے اور اپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگ کے طوفان کے ساتھ لڑنا اس کو پسپا کرنا ہر کسی کا کام نہیں اور یہی کارنامہ بدھ کی رات کو پاک فوج کے افسران  و جوانوں نے سرانجام دیا ہے جسے تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھا جائے گا کہ اب تک کے سب سے بڑے خودکش حملے کو اس وقت پسپا کیا جب اس میں 16 بہت ہی تربیت یافتہ جنگجو اور چار خودکش جیکٹ پہنے نوجوان اپنی زندگی سے بے پرواہ اگے بڑھ رہے تھے .ہمیں فوج کے ایسے جوانوں کے جزبوں کی قدر کرنی چاہیے جو وطن پر مر مٹ رہے ہیں لیکن دشمن کے قدموں کو اس دھرتی پر برداشت نہیں کر رہے ہیں . بنوں کا یہ دردناک واقعہ سانحہ اے پی ایس کے بعد بہت بڑا واقعہ ہوتا اور شاید کء￿  دنوں تک اگ خون اور بارود کا یہ کھیل کاری رہتا لیکن ہمارے فوج کے جوانوں اور افسروں نیاس اگ کو قابو کر کے اسے بروقت ٹھنڈا کیا.دعا ہے کہ یہ وطن امن سکون اور خوشحالی کا گہوارہ ہو اور یہاں کے رہنے والے دنیا کے اور قوموں کیطرح خوشحال زندگی گزار سکیں.امینپروفیسر بشردوست بام خیل

ای پیپر دی نیشن