فلسطین ایک ایسا خطہ ہے جس کی زمین تاریخ کے جبر، جنگ اور ناانصافی کی گواہ ہے۔ فلسطینی عوام کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کیے جانے کا عمل ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ صرف سیاسی بلکہ انسانی حقوق کے زاویے سے بھی ناقابل قبول ہے۔ اگر اسرائیل واقعی غزہ کی تعمیر نو میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس کا کوئی اور خفیہ ایجنڈا نہیں ہے، تو سب سے منصفانہ اور پائیدار حل یہی ہوگا کہ فلسطینیوں کواسرائیل کے زیر قبضہ ان علاقوں میں دوبارہ بسایا جائے جہاں سے انہیں 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد زبردستی نکال دیا گیا تھا، اور وہ آج بھی مہاجر کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے اور دیگر ممالک میں بھی فلسطینی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جو اپنے آبائی گھروں میں واپس جانے کا حق رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 194 بھی فلسطینی مہاجرین کے حقِ واپسی کو تسلیم کرتی ہے، لیکن اسرائیل نے اس قرارداد پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا۔
امریکی صدر ٹرمپ کا تعمیر و ترقی کے نام پر فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کے خطر ناک منصوبے نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈالا ہوا ہے ۔ویسے توامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ سے متنازعہ پالیسیوں کے لیے مشہور رہے ہیں، لیکن ان کے حالیہ منصوبے ،جس میں فلسطینیوں کو پڑوسی اسلامی ملکوں آباد کرکے غزہ کو تعمیرکرنے کے منصوبے نافذ کرنے کی بات کی جا رہی ہے،نے عالمی سطح پر شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ یہ منصوبہ اسرائیلی اور امریکی صدور کی ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے، جس نے نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کی ہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کی امیدوں کو بھی دھچکا پہنچایا ہے۔ٹرمپ کے منصوبے کے تحت غزہ کو ایک ''جدید شہر'' میں تبدیل کرنے کی بات کی جا رہی ہے، جہاں بڑی بڑی عمارتیں، ہوٹل، اور کاروباری مراکز قائم کیے جائیں گے۔ لیکن اس ترقی کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ فلسطینی آبادی کو ان کے گھروں سے بیدخل کر کے دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کیا جائے۔ یہ منصوبہ درحقیقت اسرائیلی مقاصد کی حمایت میں ایک نیا قدم معلوم ہوتا ہے، جس میں فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بیدخل کرنے کا دیرینہ خواب شامل ہے۔یہ پالیسی دراصل اسرائیلی حکومت کے اس ناپاک ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہے، جو 1948 سے فلسطینیوں کو نکال کر ان کی زمینوں پر یہودی بستیاں تعمیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس سے پہلے بھی ٹرمپ انتظامیہ نے 2020 میں ''صدی کا معاہدہ'' (Deal of the Century) پیش کیا تھا، جو فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کر کے اسرائیل کے مفادات کو ترجیح دیتا تھا۔ٹرمپ کے اس منصوبے پر عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نے اس منصوبے کی مذمت کی ہے، کیونکہ یہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مسلم ممالک، خاص طور پر ترکی، ایران، اور ملائیشیا، نے اسے فلسطینی عوام کے خلاف کھلی جارحیت قرار دیا ہے۔یورپی یونین کے کئی ممالک نے فلسطینیوں کی جبری بیدخلی کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور اسرائیل و امریکہ پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کریں۔ایک طرف عرب ممالک،امریکی دباو کے سامنے کھڑے نہیں ہو پاتے،اور فلسطینی مسلمانوں کے حق کے لیے مضبوط آواز بلند نہیں کر پاتے، لیکن عوامی سطح پر اسرائیلی اقدامات کی سخت مخالفت کے بعد وہ بھی اس منصوبے کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔دوسری طرف مصر اور اردن جیسے ممالک، جو فلسطینی مہاجرین کو سنبھال رہے ہیں، اس منصوبے کو اپنے لیے بھی خطرہ سمجھتے ہیں۔غزہ کے لاکھوں شہری پہلے ہی اسرائیلی بمباری کے بعد بے گھر ہو چکے ہیں، اور اب اگر انہیں مکمل طور پر بیدخل کر دیا گیا تو ان کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں رہے گی۔اس منصوبے کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں مزید بدامنی پھیل سکتی ہے، کیونکہ یہ منصوبہ فلسطینی مزاحمت کو مزید بھڑکانے کا سبب بنے گا۔جبری بیدخلی بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی جرم ہے، اور اگر ٹرمپ کا منصوبہ عملی جامہ پہن لیتا ہے تو یہ اقوام متحدہ کے قوانین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔ڈونلڈ ٹرمپ کا فلسطینیوں کو غزہ سے بیدخل کرنے کا منصوبہ نہ صرف غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے، بلکہ یہ ایک ایسی چنگاری ہے جو پورے مشرق وسطیٰ میں مزید آگ بھڑکا سکتی ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ متحد ہو کر اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کرے۔ بصورت دیگر، یہ تنازعہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے، جس کا خمیازہ نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔
غزہ میں جاری تباہی کو دیکھ کر عالمی برادری کی جانب سے تعمیر نو کی بات کی جا رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف عمارتوں کو کھڑا کرنا ہی مسئلے کا حل ہے؟ جب تک فلسطینی عوام کو ان کی اصل زمینوں پر واپس نہیں بسایا جاتا، تب تک کوئی بھی منصوبہ دیرپا نہیں ہوگا۔فلسطینی مہاجرین کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے آبائی گھروں میں واپس جا سکیں۔خطے میں دیر پاامن کا قیام صرف آزاد فلسطین ہے۔غزہ کی پٹی دنیا کے گنجان ترین علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں لاکھوں افراد محدود وسائل میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر ان فلسطینیوں کو اسرائیل میں واپس بسایا جائے تو غزہ پر آبادی کا دباؤ کم ہو جائے گا اور وہاں کے حالات میں بہتری آئے گی۔اسرائیل دنیا بھر سے یہودیوں کو آبادکاری کے منصوبوں کے تحت اپنی سرزمین پر بسنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن وہی حق فلسطینیوں کو دینے سے انکاری ہے۔ یہ دوہرا معیار ختم ہونا چاہیے تاکہ انصاف اور برابری کو یقینی بنایا جا سکے۔