ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ باری تعالیٰ میں سوال کیا:’’ اے پروردگار! اگر مجھے آپ سے کوئی ایک چیز مانگنے کی اجازت ہو تو میں کونسی چیز مانگوں؟ درگاہِ باری تعالیٰ سے ارشاد ہوا کہ ’’صحت‘‘ مانگیں۔ زندگی کی اصل خوشی ا ور اصل مزہ اچھی صحت میں ہی ہے۔ اسی طرح چینی فلاسفر کنفیوشس سے کسی نے پوچھا تھا کہ زندگی میں سب سے اہم چیز کونسی ہے تو جواب تھا ’’صحت‘‘۔ مجھے تقریبا ًآدھی دنیا گھومنے کا موقعہ ملا جہاں صحت کی اہمیت پر مختلف انداز میں زور دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے سرائیکی خطہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی روزمرہ کی بات چیت میں دعا کے طورپر یہ فقرہ شامل ہوتا ہے: ’’ سائیں صحت دی بادشاہی تھیوے‘‘ جوانی میں تو مجھے اس فقرے کی اہمیت کا اتنا انداز نہیں تھا لیکن جیسے جیسے پیرانہ سالی میں قدم رکھا تو صحت کی اہمیت روز بروز واضح ہوتی گئی۔ صحت کی اہمیت وہ لوگ بتا سکتے ہیں جو زندہ لاشیں بن کر رہ گئے ہیں۔ اس لئے اکثر لوگ دعاما نگتے ہیں کہ ’’ اے پروردگار مجھے چلتا پھرتا ہی سنبھال لینا۔ ‘‘
یہ فروری 2000ء کا واقعہ ہے کہ ایک دن صبح سویرے سیر کے دوران مجھے چھاتی میں درد ہوا۔ ہسپتال گیا تو ڈاکٹروں نے لٹا لیا اور پھر تشخیص اور ٹیسٹ کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ پانچ دفعہ انجیو گرافی بائی پاس اپریشن سے پہلے کرانی پڑی اور دو دفعہ اپریشن کے بعد۔ دو دفعہ دل کی نالیوں میں ’’ سٹنٹ‘‘ ڈلوائے لیکن جب پھر بھی آرام نہ آیا تو بالآخر 11 فروری 2001 ء کو دل کے’’ بائی پاس ‘‘کے لئے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ اپریشن تو ہوا لیکن دل کا در دختم نہ ہوا۔ شروع میں تو خیال تھا کہ اپریشن کے زخم ہیں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ایک نالی جو شاید 50 یا 60 فیصد بند تھی ڈاکٹر صاحب نے چھوڑ دی ہے اور ڈاکٹر وہ معزز پیشہ ہے کہ اس سے لڑا بھی نہیں جا سکتا۔ اپریشن کے بعد بھی اگر تکلیف برقرار رہے تو ہونے والی’’ مایوسی‘‘ کا سوچا جا سکتا ہے خصوصاً جب موت سامنے نظر آرہی ہو۔ میدان جنگ میں یا کسی مقدس مشن کی تکمیل میں جان دینا تو اپنے لیے اور خاندان کے لیے باعث اعزاز ہے لیکن ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا زندگی کا سب سے بڑا عذاب ہے ۔
’’بائی پاس‘‘ آپریشن کرانے سے پہلے مجھے اُمید تھی کہ اگر خدانخواستہ کسی موقعہ پر تکلیف نا قابل برداشت ہوگئی تو لاہور یا پنڈی جا کر آپریشن کرالونگا اور یوں صحتیاب ہو جاؤنگا۔ اب جب آپریشن کے بعد بھی تکلیف اُسی طرح برقرار رہی تو میرے لئے اور میرے گھر والوں کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ’’ امید ‘‘زندگی کا آخری سہارا ہوتی ہے۔ جب تک اُمید قائم رہتی ہے انسان کامیابی کیلئے اور اپنے مقصد کے حصول کیلئے کوششیں جاری رکھتا ہے لیکن جب اُمید ہی ختم ہو جائے تو پھر معجزے تو رونما ہو سکتے ہیں لیکن انسانی کوشش کیلئے کچھ باقی نہیںرہتا۔
بہر حال اپنی صحت کے متعلق اب مجھے نہ توکوئی غلط فہمی تھی اور نہ ہی کسی معجزے کی اُمید۔ اب میر از یادہ تر وقت ڈاکٹروں کے کلینکس پر گزرنے لگا۔ ہرڈاکٹر کی اپنی اپنی اپنی رائے تھی۔ کسی نے کہا بند نالیوں میں دوبارہ’’سٹنٹ ‘‘ڈلوائیں۔ کسی نے کہا ’’ بیلونگ‘‘ کرائیں اور کچھ کا خیال تھا کہ کچھ عرصہ ٹھہرکر دوبارہ آپریشن کرائیں۔ علاج تو میں نے جاری رکھا لیکن واحد حل میرے سامنے اپنے انداز میں حالات سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ تھا۔ اس موضوع پر مجھے جتنی بھی کتا بیں مل سکیں میں نے اُن کا بغور مطالعہ کیا جس سے چار راہنما اصول سامنے آئے۔
اول: لائف سٹائل بالکل سادہ کیا جائے۔ دوم: سادہ غذا اور وہ بھی طب نبوی کے مطابق بھوک رکھ کر کھائی جائے۔ سوم:با قاعدہ سیر اور چہارم: ہنسی مذاق کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا۔
پہلے دونوں اصول اپنانے میں تھوڑا وقت لگا۔ سیر کا میں پہلے ہی شوقین تھا البتہ ہنسی مذاق کیلئے کسی اچھی کمپنی کی ضرورت تھی۔ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ صبح کی سیر میں ہم چند ایک ہی عمر کے بوڑھے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ ہم سب صبح کی نماز کے بعد باہر نکلتے اور پھر اکٹھے ہو جاتے اور خوب گپ بازی اور لطیفے بازی ہوتی۔ ہم سب کُھل کر ہنستے۔ ہمارے قہقہوں سے راستے میں پڑنے والے گھروں سے بچے باہر نکل آتے۔ بچوں نے ہمارے گروپ کا نام’’ پاگل بڈھے‘‘ رکھ دیا۔ گلی میں کھیلتے یا سکول جاتے بچوں کی نظر جب ہم لوگوں پر پڑتی تو وہ زور سے آواز لگاتے’’ پاگل بڈھے‘‘ آگئے۔ آواز لگا کر پھر وہ اِدھر اُدھر چھپ جاتے اور ہم انکے اس شاندار لقب پر خوب ہنستے۔ بعض اوقات سیاست موضوع بنتی یا روزمرہ کے ذاتی حالات بھی لیکن ہماری کوشش ہوتی کہ کوئی سنجیدہ موضوع زیر بحث نہ لایا جائے۔ ہم روز مرہ کے حالات بھی ایک دوسرے کو ’’گپ‘‘ کے انداز میں بتاتے کیونکہ ہم سب کامقصدکُھل کر ہنسنا تھا۔
کچھ عرصے بعد میں نے محسوس کیا کہ میری حالت بہتر ہو رہی ہے۔’’ انجائنا‘‘ کا درد تقریباً ختم ہو گیا۔ سوچ اور طبیعت میں بھی بہتری آئی۔ بھوک بھی زیادہ لگنے لگی اور کام میں بھی دلچسپی بڑھ گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے طنز و مزاح پر بھی کتا بیں پڑھنا شروع کر دیں۔ اگلی دفعہ جب میں اپنے ’’چیک اپ‘‘ کے لئے گیا۔’’ ای سی جی ‘‘ اور کچھ ٹیسٹ کرائے تو ڈاکٹر نے مجھے خوش ہوکر بتایا کہ میرے دل کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علاج جاری رکھیں۔ دل میں تو میں جانتا تھا کہ یہ واضح فرق صرف کھل کر ہنسنے سے ہوا ہے۔ اسی دوران مجھے ایک اس قسم کا مضمون ریڈرز ڈائجسٹ میں پڑھنے کو ملاتو مجھے پتہ چلا کہ کھل کر ہنسنے سے خون کا بہاؤ تیس فیصد بہتر ہو جاتا ہے۔ ہنسنے میں تقریباً 30 عضلات کی ورزش ہو جاتی ہے جو صحت کے لئے نہ صرف فائدہ مند ہے بلکہ بہت ضروری ہے۔ اُس دِن سے لیکر آج تک میں نے زندگی کا یہ معمول بنالیا ۔ کہ کھل کر ہنسا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ انسان ہر قسم کی محفل سے لطف اندوز ہر جو میں نے اپنی عادت بنالی ہے۔ اس دن سے آج تک ایک گھنٹے کی سیر اور کھلی گپ بازی کا معمول بنا لیا ہے طبی طور پر میں اس وقت موجودہ دور کی تمام اہم بیاریوں کا مجموعہ ہوں لیکن سیر اور اسی کی وجہ سے سب کی سب کنٹرول میں ہیں۔ اگر کبھی شوگر یا بلڈ پریشر یا کسی اور بیماری کی تکلیف بڑھتی ہے تو سیر اور اسی کے ذریعے وہ بھی خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل ہے کہ دن میںبارہ گھنٹے کام کرتا ہوں اور زندگی مکمل طور پر پر سکون ہے اور ہر لمحہ انجوائے کرتا ہوں۔
تھوڑا سا غور کرنے سے میں نے محسوس کیا کہ ہمارے اردگرد قہقہے بکھرے پڑے ہیں جو ہمارے لئے خوشیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہمیں ڈاکٹروں کی دست برد اور مہنگے علاج سے بچا سکتے ہیں کیونکہ سنجیدگی صحت کیلئے زہر قاتل ہے اور قہقہے صحت کی ضمانت۔ اگر ذرا بھی غور کیا جائے تو لوگوں کی بوالہواسیاں۔ بے وجہ پریشانیاں۔ چھوٹی موٹی بے وقوفیاں سب ہمارے لئے باعث دلچسپی بن سکتی ہیں۔ خواہ مخواہ کی سنجیدگی اختیار کرنے سے ہم اپنے لئے زندگی عذاب بنا لیتے ہیں۔
کچھ لوگ زندگی انجوائے کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ اپنے ایک دوست سے جو ہماری ہی طرح ایک ریٹائرڈ اور تجربہ کار آفیسر ہے۔ وہ سارا دن بیکار بیٹھا رہتا ہے اور شوگر میں بُری طرح مبتلا ہو گیا۔میں نے انہیں کوئی کام کرنے کا مشورہ دیا تا کہ مصروف رہے ۔تو انہوں نے بہت ہنس کہ جواب دیا:’’ بادشاہو میرے پاس وقت ہی کونسا ہے کہ میں کام کروں۔‘‘میں نے حیران ہو کر اُن سے اُن کا روز مرہ کا پروگرام پوچھاتو کہنے لگے: ’’میں صبح نماز کیلئے اُٹھتا ہوں لیکن نماز پڑھ کر پھر سو جاتا ہوں 10 یا 11 بجے اُٹھ کر ناشتہ کرتا ہوں۔ اخبار پڑھتا ہوں۔ باہر بیٹھ کر ماحول سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ ظہر کی نماز کے بعد پھر سو جاتا ہوں۔ شام کو دوستوں سے گپ لگاتا ہوں۔ ٹی وی دیکھتا ہوں اور پھر 11 بجے شب سو جاتا ہوں۔میں نے مصروفیت کا سُن کر مان لیا کہ’’ واقعی آپ بہت مصروف آدمی ہیں۔‘‘ان کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ ایک دن اُن کے گھر کے سامنے دیوار بن رہی تھی۔ انہوں نے باہر برآمدے میں کرسی ڈلوائی اور سارا دن صرف دیوار بنتی دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ جب اُن کے پاس دیکھنے یا انجوائے کرنے کے لئے اور کچھ نہیں ہوتا تو باہر لان میں بیٹھ کر چڑیوں اور پرندوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ میں جب بھی اُن سے ملتا ہوں تو انہیں ہنستا ہواہی پاتا ہوں۔ اُن پر نہ تو مہنگائی کا اثر ہوتا ہے نہ سیاسی ابتری کا اور نہ کسی اور سنجیدہ سانحے کا۔ ایک دن میں نے پوچھا: ’’بیٹا کونسی کلاس میں پڑھتا ہے؟ جواب دیا: ’’پتہ نہیں کبھی کبھی کالج تو جاتا ہے۔ یہ اُس کا مسئلہ ہے۔ میرا نہیں۔ ‘‘گو میں ذاتی طور پر ایسی بیمار زندگی کو پسندنہیں کر تالیکن ان کی ہر وقت خوش باش طبیعت سے متاثر ہوئے بغیربھی نہیں رہ سکتا۔ میںاب ہمیشہ انہیں یقین دلاتا ہوں کہ وہ واقعی بہت مصروف زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بھی تو زندگی گزارنے کا ایک انداز ہے۔افسوس کہ کچھ عرصہ پہلے وہ اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔آمین! ’’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘۔ تو یوں ہم ایک بہترین دوست ، بہترین ساتھی اور بہترین انسان سے محروم ہو گئے۔ اسی کا نام زندگی ہے۔