شام میں بشارالاسد کی ''شام ''

پروفیسر بشر دوست بام خیل

8 دسمبر 2024کو شام میں وہ کچھ ہوا جس کی اتنی جلد توقع نہ تھی ؟ایسا لگ رہا ہے کہ ہر جگہ دو مضبوط طاقتور اپنی سینگیں لڑائے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں اور یہ اس وقت بہت صاف نظر ایا جب یورپ امریکہ اور امت مسلمہ نے مضبوط ترین اسلحہ ساز فوجی لحاظ سے ناقابل شکست روس کو افغانستان سے واپس بھگایا اور ماسکو پہنچ کر وہ اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہوا اور پھر اس نے امریکہ کو بھی کابل سے لاتیں مارتے ہوئے بے عزت کر کے نکال دیا اور یہی رنج اسکے دل میں بیٹھا تھا اور دور مشرق وسطی میں اس نے اس اگ کو اور بھڑکا دیا لیکن دمشق کو گرانے شام کوفتح کرنے کاخواب امریکہ کا پورا نہیں ہوا کیونکہ وہاں روس و ایران تخت دمشق بچانے کے لئے تیار بیٹھے تھے .…اچانک روس نے یوکرائن پر حملہ کیا اور حماس نے اسرائیل میں کاروائی کرکے سوئے ہوئے ازرائیل کو جب جگایا تو اس نے مسلمانوں کے سروں کو اور ان کی عمارتوں کو اپنی بمباری سے ایسے اڑایا کہ ہر طرف خون ہی خون کے دریا نظر ائے اور دمشق سے نکل کر ایران وہاں پہنچ کر ازرائیل کے ساتھ نبرد ازما ہوا اور بلکل یہی کہانی یوکرین میں بھی دہرائی گئی کیونکہ جب یورپ و امریکہ یوکرین کی پشت پر کھڑے ہو گئے تو روس نے بھی دمشق سے اپنی ساری توجہ یوکرینی جنگ کی طرف مبذول کرائی اور شاطر امریکہ و ازرائیل کو جب ہر محاذ پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے ان دونوں حریفوں کو سبق سکھانے کے لئے شام میں ان کے مخالف باغیوں کو جب ہری جھنڈی دکھائی تو صرف دس دن میں دس سال کا فاصلہ طے کر کے مجاہدین دمشق پر قابض ہو گئے اور بشارالاسد اپنے خاندان سمیت ماسکو کو روانہ ہوگئے ..حیرت واستعجاب کا مرحلہ تب ایا جب ایک طرف مجاہدین مسجد امیہ میں نصف صدی سے زیادہ کے بعد اذان دے رہے تھے شکرانے کے سجدے ادا کر رہے تھے اور قیدی نکل کر ازادی کا دن منا رہے تھے تو عین اسی لمحے ازرائیلی وزیر اعظم بھی نکل آئے اور اپنی سرحدی چوکی پر کھڑے ہو کر ایران کی شکست و ریخت پر شیطانی مسکراہٹوں کے ساتھ لب کشائی کر رہا تھا اور امریکہ بھی خوشی کی ان ساعتوں میں زیر لب مسکرا بھی رہا تھا اور ائندہ کی حکمت عملی پر بھی عمل پیرا ہو رہا تھا .جنگ کا پھانسا بدلا جنگجو سنی نظریہ کے لوگ میدان میں ائے اور شیعہ فرقہ کے حمایتی خاموش ہو گئے اور اب اس خطہ میں اس ملک میں شاید کہ اسی طرح کی حمایت ان فلسطینی لبنانیوں کے لئے اسی طرح میسر ہو جو اس سے پہلے ہوا کرتا تھا یا جن کے دشمنوں کو انھوں نے یہاں مصروف رکھا تھا.شاید اس نازک موقع پر یہاں دمشق میں شیعہ حکمرانوں کی ضرورت تھی لیکن وہ اپنے بے پناہ مظالم ڈکٹیٹر شپ اور عوام دشمنی میں اتنے آگے جا چکے تھے کہ ان کو روکنا اس انقلاب کے بغیر ممکن نہ تھا.خطہ جلے گا لوگ متاثر ہوں گے غربت بڑے گی نقل مکانی بہت ہو گی اور حالات مختلف اوقات میں مختلف صورتیں اپنائیں گے لیکن شاید چین و سکون ترقی و خوشحالی کا دور ملک شام سے کوسوں دور ہو گا جس طرح پچھلے دس سالوں سے تھا اور شاید دنیا کی بڑی طاقتیں اگر کہیں اور مصروف عمل ہوگئیں تو ہو سکتا ہے کہ یہاں خوشحالی کی ہوائیں چلیں اور غریب عوام سکھ کا سانس لے سکیں.بشار الاسد کا تخت گرانے والے حیات تحریر الشام کے سربراہ کا اصل نام احمد حسین الشرا ہے جوسعودی عرب کے شہر ریاض میں پیدا ہوئے اور ان کا گروپ شام میں سب سے طاقتور گروپ ہے .اس سے پہلے القاعدہ کی طرف سے عراق میں لڑتے ہوئے اس مجاہد نے پانچ سال امریکی قید میں بھی گزارے ہیں اور ان کااعلان فتح دمشق کے بعد یہ ہے کہ یہاں اسلامی نظام کا نفاذہو گا اور یہاں سے روس و ایران دونوں شرمندہ ہو کر رخصت ہوگئے ہیں.یہ بات بہت خوش ائند ہے کہ دمشق فتح کرنے کے بعد مجاہدین کے سربراہ الجولانی نے سرکاری ٹی وی پر عام معافی کا اعلان کیا ہے اور اہم تنصیبات کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لی ہے اور تاریخی اعلان کیا ہے کہ کسی کے خلاف انتقامی کاروا نہیں نہیں ہوگی.دنیا کی نظریں اس وقت شام پر مرکوز ہیں جبکہ فلسطین اور یوکرین میں ابھی تک اگ کے شعلے اٹھ رہے ہیں اور دمشق کے بعد شاید یہ جنگ یہ بڑوں کی لڑائی یوکرین میں اور زیادہ زور پکڑے کیونکہ اس وقت زخمی روس دمشق سے نکل کر اپنی بندوقوں کا رخ یورپ و یوکرین کو نشانے لے رہا ہے اور ایران اپنی ساری توجہ لبنان و ازرائیل کی طرف مبذول کرا رہے ہیں.اس وقت نتن یاہو خوشی سے جھوم رہے ہیں امریکہ فتح کا نشان بنا رہا ہے اور مجاہدین اپنی بندوقوں کے ساتھ دمشق میں بشار الاسد اور حافظ الاسد کے دیوقامت مجسمے گرا رہے ہیں.تازہ ترین خبروں کے مطابق اسرائیل نے شام کے ساتھ معاہدہ یکطرفہ ختم کیا ہے اور ان کی فوجی بفرزون شام میں داخل ہو گئی ہے اور ائندہ دیکھتے ہیں کہ کیا ہو گا اور یہاں کتنا اور خون خرابہ ہو گا لیکن ان حالات میں ہمیں خیر کی دعا مانگنی چاہیے کیونکہ ہمارا مقابل بہت شاطر و غیار دشمن سے ہے!!

ای پیپر دی نیشن