ڈاکٹر طاہر بھلر
قارئین آپ اس سے یقینا اتفاق کریں گے کہ ہر انسان کے دماغ کے کسی گوشے میں یہ یہ خواہش بسی ہوتی ہے کہ کہ اس کو اہمیت دی جائے ، اس کو شہرت حاصل ہو اور اس کے لئے وہ کوئی ضرور ایسا کام کرنا چاہتا ہے جو اسے بھی اور اس کی کارکردگی کو دوام بخشے اور جو عوامناس کے لئے بھی فائدہ مند ہو۔ اس لحاظ سے قارئین عمران خان اپنے اس مشن اور اپنی اس خواہش میں سرخرو ہو چلا ہے کے وہ جیل بھی برداشت کر رہا ہے اور عوام کی نظروں میں شہرت ، عزت اور وقار بھی حاصل کر چکا ہے ۔ ایک کرکٹر ہونے کی حیثیت سے وہ پہلے بھی مشہور تھا اور آج بھی ہے لیکن آج اس کی شہرت ایک حریت پسند لیڈر، قومی رہنما اور دن بدن قومی نجات دہندہ کے طور پر سامنے آتی جا رہی ہے۔بےشک اپنے اقتدار کے سالوں میں وہ مقبولیت کھوتا جا رہا تھا اور وہ بھی ایک شاطر کھلاڑی کی طرح اپنے مہرے اس طرح استعمال کرتا گیا کہ آج لوگ اس کی حکومت کی بری کارکردگی کو بھول کر اس کے ساتھ ہمدردی کا دم بھرنے لگ پڑے ہیں۔اور اس پر طرہ یہ کہ آسمان کو چھوتی مہنگائی ، تاریخ کے سب سے بڑے بجلی اور روزمرہ کی اشیا کے ریٹ لوگوں کو اس کی شخصیت کی جانب اور زیادہ مائل کر رہے ہیں۔ آج عمران حان اپنے بیانیہ کو عوام میں امریکا مخالف لیڈر کے طور پر بیچنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور اس طرح لیاقت علی ، ذولفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو کے نقش قدم پر چلتا ہوا لوگوں کی نظروں میں ایک پلے بوائے سے زیادہ ایک قومی لیڈر کی حیثیت اختیار کرنے کو ہے۔اگرچہ وہ ابھی قیدہ بند کی مختصر صعوبتیں بھی سہنے کا دعوی نہیں کر سکتا لیکن جیسے اس کے بارے میں یہ تاثر گھر کرتا جا رہا تھا کہ جیسے وہ جیل کی تنہائی سے خوفزدہ ہے اس لئے جیل نہ جانے سے بچ رہا ہے اور کچھ اور وسعت چاہیے تھی اس کے بیان کے لئے تو بھئی جس طرح نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا،اس کے لئے خود کو مشکلات میں ڈھالنے اور مقصد کی سچائی درکار ہوتی ہے۔میں شیکسپیئر کے ڈرامے ، ،،ٹویلو نائٹ،، میں لکھے ان جملوں سے شائد اختلاف کی جرات نہ کر وں، کہ کچھ پیداہی عظیم ہوتے ہیں، کچھ محنت کرکے عظمت حاصل کرتے ہیں، اور کچھ پر حالات عظمت اور شان مسلط کر دیتے ہیں۔ ماضی کی صدی میں مجھے چین کے ماﺅ ، ہوچی من ، نیلسن منڈیلا ، لینن چرچل وغیرہ سب اپنی محنت کے بل بوتے پر عظمت پاسکے ۔ ان میں سے اکثر سعودی ، برطانوی یا کسی شاہی خاندانوںسے شاذ ہی تھے۔ ہاں ماضی میں روسی زار ، برطانوی شاہی حاندان ان وقتوں میں ضرور لوگوں پر عامرانہ حکمرانی کرتے رہے جب علم اور ٹیکنیکل تعلیم کی شمع ابھی پوری طرح نہیںجلی اٹھی تھی۔ آپ غور کریںکہ ہمارے زیادو تر رسول و پیغمبر بھی لوئر مڈل کلاس سے تھے اور انہوں نے اپنے تئیں جدیدیت کی کوشش کی اور وہ پیدا بھی عظیم ہوئے اور انہوں نے اپنی جرات سے عظمت کے آخری مراحل تک طے کئے۔ اگر آج عمران خان کھلے عام ایمل کانسی، رمزی یوسف عافیہ صدیقی ، جیسے حریت پسندوں کا نام لئتے ہوے امریکا کی غلامی کو للکارتا ہے ، تو وہ اپنی جان قوم کی خوداری کی خاطر خطرے میں ڈال رہا ہے جیسے بٹھو بے نظیر نے امرکا کو سفید ہاتھی اور امریکا مردہ باد کہا تھا جبکہ باقی سیاسی فوجی زعما ایسا نہ کرنے کو اپنی سیاسی ہوشیاری اور امرکی چالبازی کو دھوکا دے کر مقاصد حاصل کرنے میں شائد ناکام ہوں گے ۔ امام خمینی نے بھی امریکی سفارتی عملے کوپکڑ کر اپنی بات منوائی تھی جوکسی عرب شاہنشاہ نے شاذ ہی اپنے ملک کی خوداختیاری کی بابت کچھ کیاجام جس نے پکڑنا ہے، اسے ہی وصل وبے خودی کے ساتھ آتش میں جانے کا خطرہ ہو گا ورنہ یوکرائن کا زیلنسکی ایک امریکی کارندہ جانا جا رہا ہے اور پوٹن خطرات کو مول لے کر امریکی سیاسی شطرنج کو شکست سے دو چار کرنے کو ہے۔ بلکل اس طرح جیسے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ عمران کے،، کیا ہم غلام ہیں ،،کے آگے پٹ گیا ہے کہ ابھی تک عمران خان جو ڈر گیا سو مر گیا کے مصداق ، نواز شریف کے مقابل میں اپنے آپ کو ایک دلیر ، قوم پرست اور قوم کی خوداری کا امین بن کر ابھر رہا ہے۔ وہ ملک سے بھاگا بھی نہیں اور پابند سلاسل ہو کر جیل کی صعوبتیوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے تمام مخالفین بشمول ایسٹبلشمنٹ کانٹے کی طرح چبھتا رہے گا۔