تحریک پاکستان  اور نوائے وقت

قیام پاکستان سے پہلے بر صغیر میں کئی اہم اخبارات شائع ہوتے تھے ، جن میں مولانا ابو الکلام آزاد کا روزنامہ ’’ الہلال ‘‘ مولانا ظفر علی خان کا ’’ زمیندار‘‘ مولانا محمد علی جوہر کا ’’ ہمدرد ‘‘۔ اس کے علاوہ ’’ مدینہ ‘‘ اور ’’ مسلم اوپینین ‘‘ جیسے اخبارات بھی مسلمانوں کی آواز بنے ہوئے تھے ، مسلمانوں کے اخبارات کے علاوہ بر صغیر میں کئی بڑے انگریزی اور ہندی اخبارات بھی شائع ہوتے تھے جن میں ’’ٹائمز آف انڈیا ‘‘ ، ’’ دی ہندو ‘‘ ، ’’ سٹیٹس مین ‘‘اور ’’ بمبئی کرانیکل ‘‘ نمایاں تھے۔ یہ اخبارات سیاسی ، سماجی اور ادبی موضو عات پر اہم کردار ادا کرتے تھے ، لیکن مولانا ابوالکلا م آزادکا نقطہء نظر متحدہ ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا ، وہ کانگریس کے ساتھ مل کر ایک سیکولر اور متحدہ قومیت کے حامی تھے ، اس لئے وہ تقسیم کے مخالف تھے ، مولانا ابوالکلام آزاد تحریک پاکستان کی حمایت نہیں کرتے تھے ، اس لئے وہ تقسیم کے نظریے سے اختلاف رکھتے تھے ، دیگر ہندو اخبارات بھی مسلمانوں کے خلاف متحرک تھے۔
تحریک پاکستان کے خلاف اٹھنے والی شورش کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے قائد اعظم نے ایک آزاد اور مؤثر صحافت کی ضرورت کو محسوس کیا تھا ، تاکہ مسلمانوں کی آواز موثر انداز میں اٹھائی جاسکے لہذا حمید نظامی جیسے ایک مضبوط ، صحافتی لحاظ سے طاقت ور اور پر جوش مایہ ناز صحافی جو کہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی صدر اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے، انہوں نے قائد اعظم کا بھر پور ساتھ دیا اور اسی پس منظر میں حمید نظامی نے نوائے وقت کاا جراء 23 ، مارچ 1940ء کو کیا تھا ،، قائد اعظم اور مسلم لیگ کے رہنمائوں کی حوصلہ افزائی اور مشاورت حمید نظامی کے لئے بہت اہم تھی۔ 
حمید نظامی کی صحافتی زندگی کا سب سے اہم پہلو تحریک پاکستان کے دوران ان کی سرگرم صحافت تھی ، انہوں نے نوائے وقت کو ایک مؤثر پلیٹ فارم بنایا جہاں سے مسلمانوں کے حقوق اور پاکستان کے حق میں آواز بلند کی ، یہی نہیں حمید نظامی نے آزادی کے بعد بھی صحافت کے ذریعے اہم قومی مسائل پر روشنی ڈالی ، وہ بہت نظریاتی شخصیت تھے۔ ان کی صحافت ہمیشہ اصولوں پر مبنی رہی ، وہ بے باک انداز میں سچ لکھتے تھے اور کسی دبائو کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ، حمید نظامی نے ہمیشہ عوام کے مسائل ، سیاسی اور سماجی معاملات پر کھل کر لکھا اور قوم کی رہنمائی کی ، نوائے وقت پاکستان کے معروف اخبارات میں سے ایک ہے ، جو آزادی صحافت اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے جانا جاتاہے ،جس کی صحافتی ساکھ مضبوط ہے اور اس اخبار کو نظریاتی صحافت کا علم بردار سمجھا جاتا ہے ، نوائے وقت آج بھی عوام میں مقبول ہے اور اہم قومی اور سیاسی معاملات پر اپنی واضح پوزیشن کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔
 نوائے وقت کا یہ اعزاز اور کردار ہے کہ ہمیشہ اس اخبار نے نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریے کو فروغ دیا ،قیام پاکستان سے پہلے اس اخبار نے تحریک پاکستان کی بہت حمایت کی اور پھر قیام پاکستان کے بعد ہمیشہ ملکی سالمیت ، دفاعی معاملات اور کشمیر پر بہت واضح موقف رکھا ہے۔
  حمید نظامی کے بعد ان کے بھائی مجید نظامی نے ’’ نوائے وقت ‘‘ کی کمان سنبھالی اور اسے مزید مضبوط کیا ، مجید نظامی کے دور میں بھی ’’نوائے وقت ‘‘ نظریاتی صحافت کا علم بردار رہا ، انہوں نے بے باک صحافتی انداز بر قرار رکھا اور قومی مسائل پر کھل کر لکھا ، مجید نظامی کے دور میں ’’ نوائے وقت ‘‘نے کئی اہم موضو عات پر بڑا جرات مندانہ موقف اختیار کیا ،اور سیاسی تحریکوں میں اہم کردار بھی ادا کیا ، سردست دخترِ مجید نظامی محترمہ رمیزہ نظامی نے اپنے والد محترم کی صحافتی وراثت کو بڑے احسن طریقے سے آگے بڑھایا ہے ، گو کہ گذشتہ تین چار سالوں سے پرنٹ میڈیا معاشی بحران سے گزر رہا ہے ، اس کے باوجود نوائے وقت کی ایڈیٹر رمیزہ نظامی نے بڑے حوصلے اور تدبر سے اخبار کی اشاعت کو جاری رکھا ہوا ہے جب کہ ملک کے متعدد اخبارات بند ہو گئے ہیں۔ جو باقی ہیں وہ انتہائی نا مساعد حالات میں صحافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ویسے تو ہر دور میں اخبارات کو نئے چینلجز کا سامنا ہوتا ہے۔ خاص طور پر ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں ’’ نوائے وقت ‘‘ بھی ان تبدیلیوں سے گزر رہا ہے ، اور اس کا اثر اخبار کی پوزیشن پر نظر آ سکتا ہے ، لیکن ادارہ نوائے وقت کی تاریخی حیثیت اور نظریاتی بنیاد اب بھی اہمیت رکھتی ہے، رواں سال جو نوائے وقت کی 85 ویں سالگرہ کا سال ہے، اس میں نوائے وقت کی اہمیت کا ادراک قومی سطح پر کیا گیا ہے۔ 1973 ء کے آئین کی گولڈن جوبلی کے موقع پر روزنامہ نوائے وقت کے شمارے کو پارلیمنٹ کی پریس گیلری کی دیوار پر آویزاں کیا گیا، 1973 ء کے آئین کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پارلیمنٹ میں تقاریب منعقد ہوئیں اور یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پریس گیلری میں آئین پاکستان کی منظوری کی خبر کو لیڈ سٹوری کے طور پر شائع کرنیوالے اخبارات کو پورٹریٹ میں پریس گیلری کی دیوار پر آویزاں کیا جائے گا ، لہذا روزنامہ نوائے وقت کو یہ اعزاز حاصل ہوا اور اس کے تاریخ ساز شمارے کو پارلیمنٹ ہائوس کی پریس گیلری کی زینت بنادیا گیا ، نوائے وقت نے دستور ساز اسمبلی سے آئین پاکستان کی منظوری کی خبر کو لیڈ سٹوری کے طور پر شائع کیا تھا اوراپنے اداریہ میں بھی آئین پاکستان کی منظوری کو قابل ستائش قرار دیا تھا۔
نوائے وقت اپنا کردار ہمیشہ نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کے فروغ میں پیش کرتا رہا ہے ، جس کی وجہ سے پرنٹ میڈیا میں نوائے وقت کو آج بھی ایک خاص مقام حاصل ہے ، خاص طور پر نوائے وقت کو مستند اور گہرائی سے کی گئی رپورٹنگ، اپنی نظریاتی وابستگی اور تاریخی پس منظر کے باعث ایک مخصوص مقام حاصل ہے ، ڈیجیٹل دور میں بھی نوائے وقت جیسا تاریخی اخبار اپنی روایات اور تحقیق کی وجہ سے اپنا اثر بر قرار رکھے ہوئے ہے ،لہذا حالات کی تبدیلی کے ساتھ نوائے وقت کو بھی وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھال کر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر زیادہ توجہ دینی ہے تاکہ نوجوان نسل تک اس کی رسائی کو بڑھایا جائے۔ اس کے علاوہ مستند صحافت اور تحقیق پر مبنی مواد کو بر قرار رکھنا بھی بہت ضروری ہے ، تاکہ اس کی تاریخی حیثیت اور اعتبار قائم رہ سکے۔
نوائے وقت جیسے نظریاتی اخبار جس نے ہمیشہ نظریہ پاکستان کو فروغ دے کر نسلوں میں شعور پیدا کیا اور پاکستان کی سالمیت اور دفاع کو مضبوط بنانے میں ہر سطح پر اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ نوائے وقت ہی ایک مستند قومی اخبار  ہے جو قائد و اقبال کے وضع کردہ قیام پاکستان کے مقاصد اور استحکامِ پاکستان کی ضرورت سے نئی نسل کو باخبر رکھے ہوئے ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن