ہم بھی کتنے عجیب و غریب لوگ ہیں کہ دین حق پر ایمان رکھتے ہوئے بھی انسان اور انسانیت سے دور ہیں، اللہ کو مانتے ہیں مگر اس کی نہیں مانتے، رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کے متلاشی ہیں لیکن جھوٹ فریب اور حق تلفی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، ہمیں معلوم ہے کہ اعمالوں کا دارومدار نیتوں پر ہے، پھر بھی دلوں میں ایک دوسرے کے لیے کھوٹ رکھتے ہیں ،روز محشر پر ایمان ہے لیکن تاویل یہ ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور اس کا رب رحمان و رحیم ہے وہ معاف کرنے والا ہے حالانکہ اس کی صفات میں،، جبار و قہار،، کا تذکرہ بھی واضح چور پر ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا چار دنوں کی اور پھر اندھیری رات لیکن ابدی زندگی اور سزا و جزا کے دن کے لیے کچھ اعمال کرنے کو تیار نہیں، نماز ،روزہ، زکوٰۃ اور خلق خدا کی بھلائی کا پیغام بھی روز سنتے ہیں پھر بھی استقبال رمضان میں اللہ کے مہینے میں اسکے بندوں پر زندگی تنگ کر دیتے ہیں، کوئی ذخیرہ اندوزی کا مجرم ہے اور کوئی ناجائز منافع خوری میں ملوث ہے، حکومت مستحقین کے لیے خصوصی رمضان پیکج دینے کی کوشش کرتی ہے اور آ دم زادے اس میں بھی ملاوٹ اور غیر معیاری اشیاء شامل کر کے اپنے،، موج میلہ ،،کے لیے اس چار روزہ زندگی کو عیش و عشرت میں گزارنے کا بندوبست کرتے ہیں جس کے لیے مشہور ہے ،،سامان 100 برس کا ہے، پل کی خبر نہیں۔ یعنی حقیقت میں چار روز کی ضمانت بھی کوئی نہیں دے سکتا،، صرف امید پر دنیا قائم ہے ورنہ آ دمی کو بھی میسر نہیں، انساں ہونا جبکہ فرشتے خواہشمند ہیں انسان ہونے کے لیے۔ وہ اشرف المخلوقات پر رشک کرتے ہیں اور عبادت گزار فرشتہ اسی حسد میں سجدے سے انکار کر کے شیطان بن گیا۔۔۔
کیا غضب ہے، نہیں انسان کی انسان کو قدر
ہر فرشتے کو یہ حسرت ہے کہ انساں ہوتا
قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ روزہ ڈھال ہے اس کے ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ برائیوں سے اس طرح انسان کو شیطان سے محفوظ رکھتا ہے جیسے لڑائی اور جنگ میں ڈھال سے دشمن کے وار کو ناکام بنایا جاتا ہے۔ روزہ عذاب الہی سے دور رکھتا ہے اور آ دم زادوں کو جہنم کی آگ سے بھی بچائے گا۔ نسخہ کیمیا ،،قران مجید،، بتاتا ہے کہ رمضان المبارک خالصتا اس رب کا مہینہ ہے جس کے سب محتاج ہیں۔ ہر کلمہ گو اس راز سے بخوبی واقف ہے کہ مالک کائنات نے،، زمانے کی قسم کھا کر یہ پیغام دیا ہے کہ انسان خسارے میں ہے لیکن وہ لوگ کامیاب ہوں گے جنہوں نے صبر کیا اور حق کا ساتھ دیا،، ایام رمضان میں پہلا عشرہ رحمت کا، دوسرا مغفرت کا اور تیسرا نجات کا، وہ مالک جس کے قبضے میں جان اور جہان ہے وہ اپنی تمام تر نعمتوں سے منہ موڑ کر بندگی چاہتا ہے اور اس یقین دہانی کے ساتھ ،،روزہ میرے لیے رکھو اس کا اجر بھی میں ہی دوں گا ،، تمہیں اس کا اندازہ ہی نہیں کیونکہ میں ہی تیرا خالق حقیقی ہوں ،میرا پیار 70 ماؤں سے زیادہ ہے پھر بھی اگر آ دم زادے اپنی سرکشی میں اس کی حکم عدولی کریں تو کتنی عجیب سی بات ہے؟ تزکیہ نفس کے لیے روزہ بہترین عمل ہے صبر اور برداشت تربیتِ بھوک و پیاس کرتی ہے لیکن دین حق اسلام کی شرط ہے کہ صرف تمہاری بھوک پیاس نہیں چاہیئے۔ تمہارے ہاتھ ، کلام اور ہر عمل سے دوسرے محفوظ رہیں۔ تم میں شیطان کے مقابلے کی ہمت نہیں، وہ قدم قدم پر تمہیں گمراہ کرتا ہے لہذا میں نے اسے بھی اس ماہ مقدس میں قید کر دیا کہ میرے اور بندے کے درمیان یہ رکاوٹ بھی دور ہو جائے،، اب دیکھوں گا کون کون میرے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہوا مجھ تک پہنچتا ہے؟ تو اپنے کیے پر پشیمانی پر اپنی غلطیوں کوتاہیوں کا اقرار کر کے سجدہ ریز ہو جا، پھر دیکھ تجھے میں کیا کچھ عطا کرتا ہوں، میں تیرا خالق و مالک ہوں میرا بندے سے کیا مقابلہ؟ مجھے سجدے نہیںچاہئیں۔ یہ کام فرشتے بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ میری خواہش صرف یہ ہے کہ تجھے اشرف المخلوقات بنایا ہے تو مجھے عقل و دانش سے پہچان ‘سال کے 11 مہینے تو نے نعمتیں پائیں ‘مجھ سے تعلق نبھانے کے لیے ایک ماہ سب کچھ چھوڑ دے تاکہ تجھے احساس ہو جائے کہ بھوک و پیاس کیا ہوتی ہے؟ ہم روزہ اللہ اور اس کی رحمت کے لیے رکھتے ہیں لیکن افطاری اور سحری کا اہتمام ایسے کرتے ہیں جیسے اس کے بعد پھر کبھی کچھ کھانے کو نہیں ملے گا, ایک مولانا صاحب فرما رہے تھے سحری کرنا ضروری ہے لیکن تین تین پراٹھے اگر اس نیت سے کھائے جائیں کہ پہلا ناشتے تک دوسرا دوپہر تک اور تیسرا مغرب تک ساتھ دے گا تو اس خوش فہمی سے کوئی فائدہ نہیں‘ اگر آ پ کا نظام ہضم بہترین ہے تو وہ دو تین گھنٹے میں سب ہضم کر جائے گا اور اگر اس میں گڑبڑ ہے تو پھر بد ہضمی آ پ کا مقدر بنے گی اس لیے اعتدال پسندی نہ صرف رمضان المبارک میں ضروری ہے بلکہ عید الفطر کے بعد بھی احتیاط رکھیں، ورنہ ڈاکٹر اور حکیم کی چاندی ہو جائے گی، میرے دوست جاوید رضوی نے اسی تناظر میں یہ پیروڈی بھیجی ہے۔ نہیں معلوم کلام کس کا ہے لیکن شاید کسی کو کچھ سمجھ آ جائے ،اس لیے پیش خدمت ہے۔۔۔۔
میں نے سمجھا تھا پکوڑوں سے درخشاں ہے حیات
پھل میسر ہیں تو مہنگائی کا جھگڑا کیا ہے
لال شربت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
ان سموسوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
ان گنت نسخوں سے پکوائے ہوئے جانوروں کے جسم
سیخوں پر چڑھے ہوئے کوئلوں پر جلائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ بازار میں مرغ
مصالحہ جات میں لتھڑے ہوئے تیل میں نہلائے ہوئے
نان نکلے ہوئے دہکتے ہوئے تندوروں سے
خوشبو آ تی ہوئی مہکے ہوئے خربوزوں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں کھانے کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں خوان سجانے کے سوا
مجھ سے پہلی سی افطاری میرے محبوب نہ مانگ
مانگ اس سے جس سے سب مانگتے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھ کہ زبان کا میٹھا بول دلوں کو خرید لیتا ہے ،کھٹے میٹھے بول مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں، اللہ کے مہینے میں اپنے انداز بدل اس کے بندے سے پیار کر، سخاوت اور صداقت کا راستہ اختیار کر ،اس لیے کہ یہ برکتوں اور رحمتوں کی لوٹ سیل کا مہینہ ہے اپنے عمل اور کردار سے تزکیہ نفس کے اس قیمتی ماہ صیام کو اپنا نصیب سمجھتے ہوئے اپنا احتساب کر، پھر دیکھ جھولیاں بھرتی ہیں کہ نہیں لیکن ہم تو اسے رحمان و رحیم اور مہربان جانتے ہوئے دنیا میں،، موج میلہ،، کرنے کے عادی ہیں۔ ہمیں تو اپنے نہ نقص نظر آ تے ہیں نہ ہی عمل اور دوسروں میں برائیاں ڈھونڈتے ہیں۔ یاد رکھیں بندگی میں کامیابی کا راز ہے، اپنے لیے آ سانیاں مانگنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی آ سانیوں کا سبب بنیں، قیمتی ،،لوٹ سیل کا مہینہ،، اگر بیت گیا اور ہم اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے تو کون جانے آ ئندہ سال رمضان المبارک کی یہ ساعتیں ہمارا نصیب بھی ہوں گی یا نہیں، غلطی کی گنجائش نہیں، لمحہ موجود کو مقدر سمجھتے ہوئے مانگ لیں جو مانگنا ہے اور حکم حاکم کائنات کے مطابق اپنے آ پ کو تیار کر لیں۔ اس فانی دنیا میں رکھا ہی کیا ہے ،مال و زر اکٹھا کرنے والے نہ رہے تو ہم اور آ پ کیسے رہ سکتے ہیں؟ پھر بھی ہمیں آ خرت کی فکر نہیں ہے اس پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے
٭…٭…٭