ایک زمانہ تھا جب صحافی اور لکھاری قلم کے مزدور کہلاتے تھے۔ پھر حالات بدلے، انداز بدلے اور مفادات کی کہانی نے زور پکڑا تو شعبہ صحافت سے ایڈیٹر غائب ہو گیا۔ حقیقی صحافی مزدوری کرتا رہ گیا تا ہم کچھ ادارے آ ٹے میں نمک برابر یعنی گنتی کے ایسے بھی تھے جنہوں نے نہ صرف پیشہ ور ایڈیٹروں کی ضرورت محسوس کی بلکہ انہوں نے انکی رائے کو بھی ہمیشہ مقدم رکھا، اس زمانے میں صحافیوں کی تنظیمیں انتہائی فعال ہوا کرتی تھی، ان کی مرکزی قیادت منہاج برنا، نثار عثمانی، آئی۔ ایچ راشد، شیخ عبدالقدوس اور دیگر پر مشتمل تھی۔ پھر دائیں اور بائیں بازو کی سوچ ابھری اور ان کے مد مقابل فیڈرل یونین آ ف جرنلسٹس(دستور) آگئی جس میں سعود ساحر، نواز رضا، سعید آ سی، ادریس بختیار، نصراللہ غلزئی اور دیگر فعال ہوئے بلکہ موجودہ حالات میں یہ گروپ زیادہ مضبوط ہے برنا گروپ کے مقابلے میں، حالانکہ برنا گروپ عوامی اور آ مرانہ دور میں بھی اہم کردار ادا کیا کرتا تھا۔ اسی گروپ کے ناصر زیدی، خاور نعیم ہاشمی، اقبال جعفری اور مسعود اللہ خاں کو صدر ضیاء الحق کے دور میں کوڑے بھی پڑے تھے، یہ بڑا گروپ تھا اور اس کی آزادی اظہار، انسانی حقوق ، جمہوریت اور میدان صحافت کے لیے بڑی قابل قدر خدمات تھیں۔ لیکن صدر ضیاء الحق کے دور میں ان کے دست راست رشید صدیقی اور نسیم عثمانی کا طوطی بولتا رہا یہ قیادت 12 سالہ دور میں’’ موج مستی‘‘ کرتی رہی کیونکہ نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات کا مالک صدر ضیاء الحق خود کو سمجھا کرتے تھے اور نامور اخبار نویس ضیاء الاسلام انصاری، زیڈ۔اے سلہری، رشید صدیقی، مولوی اشفاق، مصطفی صادق، ان کے ہمنوا تھے، اسی لیے ضیا الاسلام انصاری کی سفارش پر مصطفی صادق کو وفاقی وزیر بھی بنایا گیا لیکن ضیاء الالسلام انصاری نے،، نیشنل پریس ٹرسٹ،، کی چیئرمینی قبول کر لی تھی۔ اس دور میں برنا گروپ زیر عتاب رہا، ایسے میں لاہور پریس کلب بھی سفری تھا۔ کبھی کہیں کبھی کہیں لیکن اس میں عزیز مظہر، حسین نقی، جواد نظیر اور سعید آ سی نے انتہائی دلیری اور بہادری سے آمریت کے خلاف اپنا کردار ادا کیا۔ حالانکہ اصل ،،پریس کلب دیال سنگھ منشن مال روڈ رشید صدیقی گروپ کے قبضے میں تھا جہاں معروف براڈکاسٹر اور نیوز ریڈر سہیل ظفر صدر اور تسلیم تصور سیکرٹری بھی رہے، اس دور کے آ خری تاجدار ظفیر ندوی اور آفتاب ربانی مزدور لیڈر تھے،جن سے 1989ء میں الیکشن جیت کر زبردستی قبضہ واپس راقم نے لیا تھا۔ یہ تاریخی حقائق بتانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر دور میں برنا گروپ ہو کہ دستور، صحافیوں کی توانا آ واز تھی۔ دونوں اختلاف رکھنے کی بجائے اجتماعی مفادات میں اپنے اپنے انداز میں کام کرتے رہے۔ پھر حالات بدلے، قائدین ایک ایک کر کے نظام قدرت و حکم خداوندی میں جہان فانی کو چھوڑ گئے عبدالحمید چھاپڑا ،پرویز شوکت، ہما علی جیسی شخصیات نئے قیادت بن گئی اور رفتہ رفتہ بڑا گروپ تنزلی کا شکار ہوا اس انتشار میں گروپ تین مختلف حصوں میں موجود ہے اور سب کے سب برنا گروپ ہونے کے دعویدار ہیں جبکہ دستور گروپ اپنی جگہ کچھوے کی چال میں زندہ و سلامت ہے۔ تاہم پرویز مشرف کے دور میں الیکٹرانک میڈیا کی پنیری لگائی گئی جو خوب پھولی پھلی اور بات اس سے آ گے چلی گئی تو ،،سوشل میڈیا بریگیڈ،، نے جنم لے لیا۔ اب ہر دوسرا شخص نہ صرف صحافی ہے بلکہ اپنے تئیں سینئر معروف صحافی ہے کیونکہ پچھلا روایات اور مشن والا صحافتی دور لد گیا ،ہر نجی اور سرکاری،، یونیورسٹی ماس کمیونیکیشن،، کے فارغ التحصیل طلباء و طالبات کی کھیپ میدان میں اتار رہی ہے اور یہی نہیں الیکٹرانک میڈیا پر مختلف کاروباری شخصیات کا قبضہ مستقل بنیادوں پر مکمل ہو چکا ہے۔ پرانے تجربہ کاروں کیلئے دروازے بند اور خوش شکلی، خوش لباسی میرٹ بن چکا ہے، اسی لیے مملکت کا چوتھا ستون ہر انداز میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ تنظیمی لیڈر بھی اپنی اپنی دکان پر مطمئن اور خوش ہیں، نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات کو دفنایا جا چکا ہے۔ سید یوسف رضا گیلالی نے وزارت عظمی سنبھالتے ہی لیبر اور طلباء تنظیموں کی بحالی کا اعلان کیا تھا جس پر آ ج تک عمل در آ مد نہیں کیا جا سکا لہذا عمرانی دور میں صحافت اور صحافیوں کو،، نتھ،، ڈالنے کیلئے ،،پیکا ایکٹ،، بنایا گیا۔ اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اسے آ زادی رائے کیخلاف کالا قانون قرار دیا تھا لیکن حالات کا جبر اور المیہ یہ ہے کہ آج انہی دونوں بڑی پارٹیوں نے ترامیم کیساتھ ا سے اور طاقتور کر کے،، پیکا پہلوان،، بنا دیا ہے تمام صحافتی اور اخباری مالکان کی تنظیمیں،، خیبر تا کراچی،، سراپا احتجاج ہیں لیکن قانون بن چکا ہے، اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حکومت مختلف یقین دہانیوں کے باوجود صحافیوں اور انکی تنظیموں سے مشاورت کرنے کو تیار نہیں، ایک آدھ صحافی کو سرکاری کمیٹیوں میں شامل کر کے کام چلانے کی فکر میں ہے۔ اس لیے ضروری یہ ہے کہ ٹکڑیوں میں بٹی تنظیموں اور ان کے رہنماؤں کو فوری طور پر ماضی کی پوزیشن میں آنے کیلئے متحد ہونا پڑیگا ورنہ حکمرانوں کیلئے یہ تقسیم انتہائی خوش آئند ہے، میں نے انتہائی محتاط انداز میں اپنی برادری کی رسوائی کی کہانی سنائی ہے کیونکہ افسوس اور اس بے حسی کی حالت میں آ ئینہ دکھا دیا تو بہت سے دوست برا مان جائیں گے۔
’’ پیکاایکٹ،، اس وقت پہلوان بن چکا ہے۔ غیر ذمہ دارانہ رویے رکھنے والے سوشل میڈیا کے لوگوں نے حکومت کی توجہ کا رخ ،، شرلی پٹاخے ،،چھوڑ کر پیکا ایکٹ کی جانب موڑ دیا ہے، اس لیے کہ سوشل میڈیا ایکٹویسٹوں کو صرف ڈالروں کا کاروبار کرنا ہے جو تہلکہ مچائے بغیر ممکن نہیں، میرا ایمان ہے کہ انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوگا کہ انہوں نے کیا ،،چول،، ماری ہے۔ انکی اس غیر ذمہ داری سے ریاست اور اداروں کو کتنا نقصان پہنچا، شخصیات کی بات اس لیے نہیں کر رہا کہ یہ تو آ تی جاتی رہتی ہیں لیکن جب قانون بن جائے تو پھر اسکے خاتمے کیلئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس وقت ریاست کا چوتھا ستون اپنی بقا کیلئے نوحہ کناں ہے اور کوئی اسے گھاس نہیں ڈال رہا۔ بظاہر،، پیکا ایکٹ ،،کا نشانہ،، سوشل میڈیا نووارد زبردستی کے صحافتی کارڈ ہولڈر ہیں جو موبائل اور ایک ،،ٹرائی پاٹ،، کیساتھ جارحانہ سینئر صحافی بن چکے ہیں ، یقینا وہ خبر یا سچی خبر کی متلاشی ہرگز نہیں ہیں لیکن اگر اسے تفصیل سے پڑھیں اور اس کی مختلف شقوں پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایف۔ آ ئی۔ اے اور سائبر کرائم کا شعبہ کسی بات کا مطلب اپنی کارکردگی کیلئے من مرضی کا نکال سکتا ہے اور اندیشہ یہی ہے کہ ان بے رحم اداروں کے ہتھے چڑھنے والا کوئی بھی صحافی خبر ہونے تک خاک ہو سکتا ہے، بس اسی اندیشے میں صحافی برادری سراپا احتجاج ہے۔ اگر حکومتی ذمہ داران نمائندہ قیادت یا صحافیوں کو مشاورتی عمل میں شامل کر لیتے تو بات کا پتنگڑ کبھی نہ بنتا، اس لیے کہ حقیقی قلم کا مزدور نہ سیاسی ہوتا ہے اور نہ ہی مفادات کا غلام، ایسے لوگ آ ج بھی،، فیک نیوز اور من گھڑت خبروں کیخلاف ہیں، انہیں نام نہاد سینئر سوشل میڈیا کے ڈالرز صحافیوں کی پکڑ دھکڑ سے کوئی پریشانی نہیں، لہذا تنظیموں کو اپنے کمبل میں موجود چوروں کی بھی فکر کرنی ہوگی۔ باقی رہی حکومت اور اتحادیوں کی بات تو ماضی اس کا گواہ ہے کہ جس جس حکومت نے جلد بازی میں دوسروں کو پھنسانے کیلئے آ ئین و قانون سازی کی وہ خود اسی جال میں پھنسے، پی۔ ٹی۔ آ ئی اپنے بنائے پیکا قانون کی مخالفت میں صحافی برادری سے یکجہتی کا اظہار کر رہی ہے حالانکہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے انکے اپنے چیئرمین کی موجودگی میں، پیکا ایکٹ،، ترمیم صرف 15 منٹ میں پاس کر دی، اس سے بڑی تضاد بیانی اور کیا ہوگی ،مجھے یقین ہے کہ آ ج نہیں تو کل موجودہ حکمران اتحادی بھی پیکا ایکٹ میں اپنی ہی لائی گئی ترامیم کو ہدف تنقید بنائیں گے لہذا صحافتی تنظیموں کو مشترکہ حکمت عملی بنا کر اس ایکٹ میں نظر ثانی کرانی چاہیے اور ایسا اسی صورت ممکن ہوگا جب ہم ماضی کی غلطیوں کے ازالے کیلئے تقسیم در تقسیم کے عمل کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوں گے، باقی سوشل میڈیا کے غازیوں اور ڈالر پسندوں کو انکے حال پر چھوڑ دیں کیونکہ ان کی بڑی تعداد نہ صحافتی اقدار سے واقف ہے اور نہ ہی ان کی زبان کسی قانون کی پاسداری کرتی ہے۔