ہماری شہہ رگ اور آزادی

 یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں کی حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں، مسئلہ کشمیرکو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی رہی ہیں۔ جس طرح پاکستان سے دشمنی اور اسلام اور مسلمان کے نفرت کو مودی سرکار اور BJP نے اپنی سیاست چمکانے اور الیکشن جیتنے کیلئے استعمال کیا اسی طرح پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو پاکستان کی ہر حکومت نے بھی کشمیر کو کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی حد تک ذاتی سیاسی مفادات کیلئے استعمال کیا ہے۔ کہیں الیکشن جیتنے کی کوشش میں، تو کہیں پاکستانی’’ نیشنلزم‘‘ کو مضبوط کرنے کی کوشش میں ۔ کہیں کشمیر کا نام لے کر اسلام اور جہاد کا تصور مضبوط کرنے کیلئے تو کہیں حکومتی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے ایک اخلاقی جواز ڈھونڈنے کیلئے۔اسی طرح مختلف سیاسی جماعتیں بھی کشمیر کے نام کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتی آ رہی ہیں، جیسے آجکل کی متحدہ اپوزیشن اور اسکے دو بڑے فریق، پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز کی حالیہ جلسوں میں کشمیر کو لیکر عوام کو جذباتی کرنے کی کوشش دیکھیں تو دل میں بے اختیار یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک سے زیادہ مرتبہ اور کئی کئی برس تک اقتدار میں رہی ہیں۔ انہیں کئی کئی برس ملے۔ اس وقت انہوں نے کشمیر کیلئے کیا کر لیا تھا جو اب کر لیں گے یا ایک بار پھر اقتدار میں آکر کرنا چاہتے ہیں؟ یہ کشمیر کیلئے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں یا اقتدار میں آنے کیلئے انکو کشمیر یاد آ گیا ہے؟
دوسری جانب بھارت میں بھی کشمیر کا نام سیاست کیلئے استعمال ہوتا آیا ہے۔ لیکن مودی سرکار نے جب آرٹیکل 370 ختم کیا تو پاکستان پر واضح ہو جانا چاہئے تھا کہ مودی اور اسکے حواریوں کیلئے اب کشمیر کا مسئلہ صرف الیکشن جیتنے کیلئے سیاسی چال نہیں رہا اور اب انکا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کو بھی لگی بندھی تقاریر اور بیانات سے بڑھ کر کچھ کرنا پڑیگا کیونکہ بھارت میں RSS کے ایجنڈے سے وجود میں آنے والی BJP کی مودی سرکار نے کشمیر اور بھارت کے اندر کھل کر کھیلنا شروع کر دیا ہے ۔انکے خیال میں اس وقت پاکستان معاشی لحاظ سے کمزور ہے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت بہت سے اسلامی ممالک کے بھارت میں معاشی اور سیاسی مفادات پیدا ہو گئے ہیں اس لیے بظاہر پاکستان بھارت کیخلاف کچھ زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ اس سب کو دیکھتے ہوئے ،بھارت اپنی طرف سے اس وقت کشمیر میں اپنا آخری دائو کھیل رہا ہے اور مودی سرکار کی پلاننگ ہے کہ بس اس دائو کی کامیابی ( خدانخواستہ) کے بعد بھارت کا کشمیر پر قبضہ مکمل اور ہمیشہ کیلئے ہو جائیگا۔ یہ الگ بات ہے کہ مودی کایہ کھیل خود بھارت کیلئے بہت خطرناک ہے۔ بظاہر تو کشمیر کی حد تو بھارت کو ایک فوری کامیابی ملتی نظر آئی ہے لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ، جو شاید مودی سرکار کو اس وقت نظر نہیں آ رہا ، یہ ہے کہ جس دو قومی نظریے کی مخالفت نہرو اور گاندھی کرتے تھے اور جسے بحر ہند میں غرق کر دینے کا مضحکہ خیز دعویٰ اندرا گاندھی نے کیا تھا، آج کی بھارتی حکومت اسی دو قومی نظریے کو تمام تر شدت کے ساتھ اپنا چکی ہے۔ انہوں نے خود ثابت کر دیا ہے کہ دو قومی نظریہ ایک حقیقت تھی جسے قائد اعظم کی دور اندیشی نے بہت پہلے بھانپ لیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مودی کا دو قومی نظریہ مذہبی انتہا پسندی پر قائم ہے اور انکے بھارت میں ہندو کے علاوہ کسی کو جینے کا حق حاصل نہیں۔ بٹوارا کیوں ہو گیا؟ سرحد کیوں بن گئی؟ ان سوالوں کے جواب آج بھارت میں بسنے والے ، نہ صرف ہر مسلمان بلکہ ہر غیر ہندو اقلیت کو واضح نظر آ رہے ہیں۔ بھارت کی حکومت چاہے اپنی ریاست کو جو بھی اور جتنا بھی نقصان پہنچا رہی ہو، سوال یہ ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ ہم سنجیدہ فیصلہ کریں کہ کیا ہم صرف کشمیر کی آزادی کو سپورٹ کر رہے ہیں یا پھر یہ پاکستان کے بقا کی جنگ ہے؟ ہم تو کہتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی ’’ شہہ رگ‘‘ ہے۔ اگر کسی کی صرف کلائی میں ہتھ کڑی ہو تو تو وہ آزاد نہیں ہوتا، شہہ رگ کا کسی پھندے میں ہونا تو ا س سے بہت بڑی بات ہے۔ اگر ہم واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے تو پھر اس کا تو صاف مطلب ہے کہ ہم آزا د نہیں ہیں۔ جب شہہ رگ دشمن کے قبضے میں ہو تو آزادی کیسی؟ ایسی صورت میں تو ہمیں یہ فیصلہ کرنا چاہئیے کہ جب تو ہم اپنی شہہ رگ دشمن کے پنجے سے آزاد نہ کروا لیں گے اس وقت تک ہم جشن آزادی نہیں منائیں گے۔ کشمیر آزاد کروانا ہے تو اتنی ہی سنجیدہ سوچ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ 
میرا یہ بالکل مطلب نہیں ہے کہ ہم فوری طور پر بھارت پر حملہ کر دیں ۔ لیکن بھارت اور عالمی طاقتوں کو یہ واضح پیغام دینا ضروری ہے کہ اب ہم نے کشمیر کے لیے تقاریر، اور اعلانات سے بڑھ کر کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ورنہ صرف تقاریر اور قراردادوں سے آج تک دنیا کے کسی مظلوم کو کوئی انصاف نہیںملا۔ ظالم کا ہاتھ صرف تب رکتا ہے جب اسے یہ یقین ہو کہ جس پر میں ظلم کرنے جا رہا ہوں اسکا ہاتھ بھی میرے گریبان تک آ سکتا ہے۔ میں اگر اسے دو مکے ماروں گا تو وہ جواب میں دو نہیں تو ایک مکا تو مار ہی دیگا۔ اسی طرح بھارت کو بات چیت اور کشمیر کے عوام کو حقوق دینے کیلئے مجبور کرنے کیلئے ہمیں اپنی ’’ کشمیر پالیسی‘‘ فوری طور پر اور نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ اب پاکستان بھارت یا کشمیر کے اندر کشمیریوں کی مسلح جد و جہد کی مدد نہیں کر سکتا۔ ان حالات میں کشمیرکو ’’ پاک بھارت تنازعہ‘‘ یا اسلامی دنیا کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی بجائے ’’ انسانی حقوق ‘‘ کا مسئلہ بنا کر دنیا میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ کشمیر کے عوام دنیا بھر میں اپنا مسئلہ خود اجاگر کرنے کا موقع اور آواز دی جائے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار بھارت اس وقت کشمیر میں انسانی حقوق کی جتنی اور جس قدر پامالی کر رہا ہے، اسکے مظالم اور سیاہ چہرے کو ہم دنیا کے سامنے لانے میں ناکام رہے ہیں۔ ہمیں ہر میدان کی طرح اس میدان میں بھی بھارت سے ’’ ففتھ جنریشن وار‘‘ لڑنی ہے لیکن اس قسم کی جنگ مکمل منصوبہ بندی اور ’’ پروفیشنل سپاہیوں‘‘ کی مدد سے لڑی اور جیتی جاتی ہے۔ ہمارے گھسے پٹے سیاستدان نہ تو یہ جنگ لڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں نہ جیتنے کی۔ پاکستان کو اس سب کیلئے غیر سیاسی اور پیشہ ور ماہرین کی خدمات حاصل کرنی پڑیں گی۔ اسی طرح حکومت اور اپوزیشن دونوں کو کم ا ز کم کشمیر کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئیے ،ساتھ ہی عوام میں بھی اب اتنا شعور آجانا چاہئیے کہ اس طرح کے قومی سلامتی کے مسائل کو ذاتی سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنے والوں کو مسترد کر دیں۔

ای پیپر دی نیشن