8اکتوبر2005 کا المنا ک اور دررنا ک ز لزلہ


8اکتو بر2005 وقت صبح آٹھ بج کر اٹھاون منٹ پر سو لہ بر س قبل زمین نے ہلکی سی جنبش کیا لی،چند سا عتو ں اور چند لمحو ں میں بستیا ں قصہ پار ینہ بن گئیں۔ ہنستی مسکراتی زند گیا ں بے جان ہو گئیں۔پا کستان اور آزاد کشمیر میںآ نے والے زلزلے کی تلخ یا دیں اور اس کا تصو ر آ ج بھی مسکر اہٹیں چھین لیتا ہے۔ انسا نی المیہ کو سولہ سا ل گزر گئے اس عر صے میں پا کستان اور آزاد کشمیر میں حکومتیں اپنی مد ت پور ی کر کے جا تی رہیں مگر متا ثر ین زلزلہ کے زخم آ ج بھی تا زہ ہیں۔ حکو متو ں کے زیر اثر ر یلیف پہنچا نے کے ذمہ دار ادارے جس ر فتار اور جس اندا ز سے متا ثر ین کی د لجو ائی کر تے رہے اس صور تحا ل سے امدادی ہدا ف کی تکمیل آج طو یل عر صے کی ضرورت ہے۔ امداد پہنچانے کے حامل ادارو ں کی مثا لی کار کر د گی کیلئے عدا لت عظمی کی حالیہ آ بزرویشن ہی کافی ہے۔ سپر یم کور ٹ نے ایک زیر سما عت مقد مہ میں متا ثر ین زلزلہ کیلئے امدادای سرگرمیاں اور تعلیمی ادارو ں کی عمار تو ں کی تعمیر نو پر مشتمل ایک ادارے کی ر پور ٹ غیر تسلی بخش قرار دے کر مستر د کر دی تھی، 8اکتوبر2005 ء کے بعد گود میں پلنے والی نسل جوان ہو کر سڑ کو ں پر آ چکی ہے۔ہر سا ل شہدا ئے آزاد کشمیر کے وار ثین اپنے مطا لبات کے لیے شا ہراہو ں پر آ تے ہیں تو د ل ر نجید ہ ہو جا تا ہے۔مظا ہر ین میں معذروں کی موجو د گی خو د اہل اقتدار سے سو ال کر تی ہے کہ جمہوری ، فلا حی اور اسلامی ر یا ست کی اپنے شہر یو ں سے اس محبت اور اس عقید ت کو کیا نا م د یا جا ئے؟
 8 اکتوبر 2005ء کی صبح المناک زلزلے نے بربادی اور کرب کی وہ داستانیں رقم کیں جن کا اظہار الفاظ میں مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ زلزلہ نے اسلام آباد' صوبہ خیبر پختوا نخوا اور آزاد کشمیر میں تباہی کے نشان چھوڑے۔ البتہ بربادی کا ہدف آزاد کشمیر کے شہر بنے۔ میرپور' راولاکوٹ اور مظفر آباد سمیت کئی شہر متاثر ہوئے تاہم سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان باغ شہر کو برداشت کرناپڑا' بلکہ باغ پورا اجڑ گیا تھا۔اس وقت کے وزیراعظم سردار سکندر حیات نے دورہ باغ کے موقع پر بربادی خوف اور کرب کے ڈھیرے دیکھ کر جو جملہ بولا ان چند لفظوں کی گونج پوری دنیا میں سنی اور محسوس کی گی’’میں قبرستان کا وزیراعظم ہوں‘‘ 8 اکتوبر کے زلزلے نے 80 ہزار کے قریب انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیلا معذور ہونے والوں کی بڑی تعداد کے چہرے آج بھی ماضی کے کرب، اضطراب اور بے کلی کا پتہ دے رہے ہیں۔ حکومت' انتظامیہ اور سیاست دانوں نے بحالی اور خبرگیری کے تمام وعدے پورے کئے جب اس قسم کے سوالات پوچھے جائیں تو متاثرین زلزلہ کی ’’خاموشی‘‘ تمام حقائق اگل رہی ہے۔ ستمبر 2019ء کے آخری عشرے کے زلزلہ کا ہدف اس بار میرپور کا قریبی علاقہ جاتلاں بنا۔ زلزلے سے سڑکوں میں ڈراریں پڑ گئیں عمارتیں زمین بوس ہو گئیں اور 50 زندگیاں ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئیں۔یادش بخیرآٹھ اکتوبر کو ملکی تاریخ کا افسوناک ترین دن کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا اس روز انسانوں کی تمام تر کوششیں مٹی کا ڈھیر ثابت ہوئی تھیں یوں برسوں کی محنت لمحوں میں بکھر گئی۔مٹی اور کنکریٹ کے ڈھیر بھی نوحہ کناں تھے،ٹنوں ملبے کے تلے دبے ہوئے ہزاروں بچوں، عورتوں اور مردوں کو بچانے کی کوششیں وقت کے خلاف ایسی دوڑ تھی جس میں ہارنا ہی تھا والدین اپنے بچوں کو اور عزیز اپنے پیاروں کو بے بسی سے موت کی وادی کی طرف بڑھتے دیکھتے رہے تھے۔غیر سرکاری تنظیموں کا یہ کہنا تھا کہ اگر ہلاکتوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سونامی کے بعد اس برس کی دوسری بڑی آفت تھی۔ ہماری طرح لاکھوں ایسے ہیں جن کے ذہنوں ،دلوں اور آنکھوں میں 2005 ء ہمیشہ کے لیے ٹھہر چکا ہے۔اکتوبر 2005ء میں پاکستان میں آنے والے ہولناک زلزلے نے شدید تباہی مچاہی اور ہزاروں جانیں ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ کروڑوں روپے کی قیمتی املاک کو نقصان پہنچا اورہزاروں گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ اس زلزلے کی شدت ریکڑ سکیل پر 7.6تھی۔ 24 ستمبر 2019کو آنے والے زلزلے کی گو شدت کم تھی تاہم یہ بھی50 انسانی جانوں کو نگل گیا۔

ای پیپر دی نیشن