امیر محمد خان
یوں تو ہر ملک جہاں کسی قسم کا مسئلہ ہو، خاص طور پر کسی بے ایمان پڑوسی کی طرف سے ایک جھوٹی افتادکا ظہور ہو، تو وہاں کی وزارت اطلاعات اہم رول ادا کرتی ہے تاکہ پورے ملک کا میڈیا، بشمول وزارت اطلاعات کا سربراہ، پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرے اور دنیا کے سامنے اپنے ملک کا مقدمہ پیش کرے، اور کسی بھی جھوٹے الزام کی شدت کو کم کرے۔
پاکستان کے حالیہ بحران اور پڑوس کی بے پر کی اْڑانے والے میڈیا کے پروپیگنڈے سے کامیاب دو دو ہاتھ کرکے، پاکستان کے وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے، سابق صدر پاکستان محمد رفیق تارڑ مرحوم کے پوتے اور اپنے والد محمد فاروق تارڑ اور تارڑ خاندان کا سپوت ہونے کا حق ادا کردیا ہے اور کر رہے ہیں۔ ان کے ہمراہ مسلح افواج، حکومت کے زعماء بھی ان کے مدد گار ہیں، چاہے وزیر داخلہ ہوں، وزیر خارجہ، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار ہوں یا وزیر اعظم میاں شہباز شریف۔
مگر پہلی دفعہ پاکستان کی وزارت اطلاعات کی مثبت سرگرمیاں وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ کی دن رات کی محنت کے باعث نظر آئیں۔ وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ اس بحران کے دوران حکومت کی مواصلاتی حکمت عملی میں سب سے آگے رہے ہیں۔ وزیر تارڑ نے عوامی طور پر کہا ہے کہ پاکستان کے پاس ’’قابل اعتماد انٹیلی جنس‘‘ ہے، پاکستان کسی کی دھمکی کا مقابلہ کرنے کو ہر دم تیار رہتا ہے۔
پاکستان کے نشریاتی ادارے پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنے تمام تر پروگراموں کا محور صرف اور صرف اپنی حکومت کے بیانیہ کی تشہیر کو بنا لیا ہے۔ ہمارے تمام میڈیا کے تعاون سے پوری قوم اکٹھی ہوگئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما جب اسمبلی، سینیٹ میں تقریر کرتے ہیں تو پہلے اپنی جماعت یا رہنماؤں کا ذکر کرتے ہیں۔ جیسے پی پی پی کے رہنما اپنی ’’مذہبی‘‘ ذمہ داری تصور کرتے ہوئے اپنی تقریر کی ابتداء شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید بے نظیر کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان سے محبت کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے زعماء پہلے یہ بتاتے ہیں کہ ’’ہمارے آبا و اجداد‘‘ نے پاکستان آنے کا حکم دیا ہے، پھر وہ حکومتی اور عسکری بیانیہ کی حمایت کرتے ہیں۔
اسی دوران ایک تانگہ پارٹی کے رہنما ایسے وقت میں بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہیں جسے پڑوس کا میڈیا پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اگر پڑوس کے میڈیا کو دیکھا جائے تو وہاں کے بیانیے کچھ سنے سنائے لگتے ہیں۔ یہ بیانیے تحریک انصاف اور اس کا سوشل میڈیا کرتا رہا ہے۔ تحریک انصاف نے کوشش کی کہ پاکستان کو آئی ایم ایف قرض نہ دے، پڑوس کا میڈیا بھی یہی مطالبہ کر رہا ہے، نیز جس میں عسکری قیادت کا مذاق شامل ہے۔
اب تو حد کردی ہے کہ جماعت نے اس اہم وقت میں مشترکہ اجلاس کا بھی بائیکاٹ کردیا۔ (بھلا کون ملکی سالمیت پر بات کرنے والے اجلاس سے بائیکاٹ کرتا ہے؟) اس معاملے کو بھی پڑوس کے میڈیا نے خوب اچھالا۔ پڑوس کے میڈیا کو اگر دیکھا جائے تو کوئی ذی شعور اسے کسی بڑے ملک کا تعلیم یافتہ میڈیا نہیں کہہ سکتا۔ اب تو پڑوس کے اندر بھی، وہاں کے بیشتر بڑے نام، جن کا تعلق میڈیا اور سیاست سے ہے، وہ بھی اپنے میڈیا پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ کونسا میڈیا ہے جس کا انحصار صرف اور صرف جھوٹے پروپیگنڈے پر ہے، ہر چیز کو پاکستان کے حوالے سے نہ صرف منفی انداز میں چیخ چیخ کر بلکہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کے خلاف ان کے ناموں کو بگاڑ کر گلی کے بچوں کی طرح الزام تراشی کررہے ہیں۔
ایک بڑے ملک کے سینکڑوں جھوٹے میڈیا چینلز کا مقابلہ پاکستان کے وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے جس انداز میں جاری رکھا ہوا ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ ان کی سربراہی میں وزارت بحران سے نمٹنے کے لیے سفارتی کوششوں میں سرگرم عمل رہی ہے۔ مگر اس صورتحال میں ان کی وزارت سے وابستہ بیرونِ ملک تعینات اکثر کارندے اس ملک کے میڈیا سے بہت دور ہیں۔ ان کا غیر ملکی میڈیا سے کوئی رابطہ نظر نہیں آتا کہ پاکستان کا مؤقف کوئی جگہ پا سکے، جبکہ عطااللہ تارڑ نے سعودی میڈیا فورم 2025ء سمیت بین الاقوامی میڈیا اور فورمز کے ساتھ پاکستان کا نقطہ نظر پیش کرنے اور کشیدگی میں کمی کے لیے تعاون حاصل کرنے کے لیے کام کیا ہے۔
ایم او آئی بی نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کو اجاگر کرتے ہوئے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بیانیہ کو تشکیل دینے کے لیے کام کیا ہے۔ ہر حکومت میں اور ہر وزارت میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو وزارت سے منسلک کارآمد لوگوں کو منظر عام پر آنے نہیں دیتے، اندرونی سیاست اور اقرباء پروری کو فروغ دیتے ہیں۔ اس وجہ سے اس پر نظر رکھنا، اپنی تمام تر مصروفیات کے ساتھ بغور دیکھنا بھی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ کی ذمہ داری ہے، تاکہ وزارت اطلاعات بھرپور انداز میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
وزیر اطلاعات نے پاکستان کی عوامی رابطہ کاری اور سفارتی کوششوں کے انتظام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزارت کے فعال نقطہ نظر کا مقصد پاکستان کے مفادات کا تحفظ اور علاقائی استحکام میں کردار ادا کرنا ہے۔ وزیر تارڑ ملکی اور بین الاقوامی ناظرین و سامعین تک پاکستان کے مؤقف کو پہنچانے میں سب سے آگے رہے ہیں۔ ان کے دوٹوک بیانات اور محنت نے عوامی تاثر کو تشکیل دینے اور قوم کو ممکنہ کشیدگی کے لیے تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تشویش کے تناظر میں، تارڑ نے پاکستان کا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے عالمی میڈیا اور سفارتی چینلز کے ساتھ کام کیا ہے۔ انہوں نے دشمنوں کے الزامات کو رد کیا۔ تارڑ نے ڈیجیٹل دور میں معلومات کی تصدیق اور تردید کے طریقہ کار کی کمی کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے ڈیجیٹل صحافیوں کی غلط بیانیوں کا مقابلہ کرنے کی تربیت دینے کی وکالت کی ہے جو پاکستان کے امیج اور معیشت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
آج ہم کہنے کے قابل ہیں:
ایہہ پْتر ہٹاں تے نئیں وِکدے، کی لَبھنی ایں وچ بازار کْڑے،
ایہہ دَین وے میرے داتا دی، نا ایویں ٹکراں مار کْڑے،
ایہہ پتر ہٹاں تے نہیں وِکدے،
ایہہ پْتر وِکائو چیز نئیں، مْل دے کے جھولی پائیے نی،
ایہہ ایڈا سستا مال نئیں، کِدوں جا کے منگ لیائیے نی،
ایہہ سودا نقد وی نہیں مِلدا، تْو لبدی پھریں اْدھار کْڑے،
ایہہ پْتر ہٹاں تے نہیں وِکدے۔