ارتقائی مراحل 

محمد علی جناح کی قدرومنزلت بانی پاکستان کے طور پر پوری قوم کا اثاثہ ، فخر ، مان اور عقیدت واحترام کے مضبوط تعلق سے جڑی ہوئی ہے‘ جس کا اظہار کئی مواقع پر ہماری زندگیوں کا لازم و ملزوم حصہ ہے۔قائد اعظم کا خیال آتے ہی سر کا فخر سے بلند ہونا ، دل میں محبت کا جاگنا اور پھر اسکا اظہار فطری طور پر ناگزیر سا ہو جاتا ہے ، یہ جذبہ اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ اس کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ، سانس کی طرح عادت بن گئی ہے۔ 
 جب جب ہم تحریک آزادی پاکستان کی تاریخ پڑھتے ، سنتے ہیں ،رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، آنکھیں نم ، روح بے چین اور بیقراری بڑھ جاتی ہے۔ہمارے آبا ء نے خون سے تاریخ لکھی اور وہ مقصد چند دہائیوں میںپالیا جس کے لئے صدیاں لگتی ہیں۔یہ سب اسی صورت ممکن ہوا جب ہمارے بزرگوں کو قائد اعظم محمد علی جناح جیسی قیادت نصیب ہوئی۔ پاکستان میں آجکل مسلمان ماہ رمضان کی برکتیں سمیٹ رہے ہیں۔مساجد میں رونقیں ، سحری کے اوقات میں چہل پہل، مساجد میں سپیکروں سے اعلانات ،افطاریوں کا اہتمام ، گھروں میں کھانوں کی تیاریاں اور انکی خوشبو، پھر ایک ہی وقت میںگونجتی اذانوں کی صدائیں، پرامن ماحول ، جذبہ ایثار ، بچوںکی چہک مہک، عبادات کے مناظر یقینا مذہبی آزادی کی نعمت خداوندی ہیںجس کا سہرا قائداعظم محمد علی جناح کے سر ہے ،اپنے قائد کے مشکور ہیں اور اللہ تعالی سے انکے لئے قرب محمد ﷺ کی دعائیں کررہے ہیں جن کی قیادت میں ہمیں ایک آزاد مملکت خداداد ملی۔قائد اعظم کی قائدانہ شخصیت کا احاطہ الفاظ میں کرنا ممکن نہیں ، خراج تحسین سے خراج عقیدت تک بانی پاکستان کے لئے محب وطنوں کے دل سے جو بھی دعا نکلے ، وہ عرش معلی میں درجہ مقبولت پائے :آمین
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصول انتھک جدوجہد سے ممکن ہوا، دردناک ، کربناک ، خوفناک حقائق ، دل کو چھلنی کردیتے ہیں۔ 2011 میں راقم کی نانی اماں رمضان بی بی ’’کیا یہ میرا پاکستان ہے ‘‘ کے عنوان سے ڈاکیومنٹری میں انٹرویوکیلئے براجمان تھیں ،’’وے پتر تانوں کی پتہ اودوں کی کی ہویا‘‘۔پردرد آواز میں ہجرت کی تکلیفیں چھپی تھیں۔
14 اگست 1947 کو برصغیر کی مسلم ،ہندو دو خطوں میں تقسیم سے پہلے اور بعد میں ہم نے بڑی قیمت چکائی ، برچھیوں ، تلواروں ، چھروں سے جن کی گردنیں بچ جاتیں انہیں راستوں کی صعوبتیں ، موسم کی سختی ، بیماریاں ، بھوک و پیاس اور خوف ماردیتا۔ مائیں بچے بزرگ کیا ہم نے ہر نسل کے لوگ کھوئے، انہوں نے مادری زبان پنجابی میں ظلم وبربریت کا جو نقشہ کھینچا، مزید سوال کرنا تکلیف میں اضافہ محسوس ہوا۔ ہمارے آبائو اجداد کے سب کچھ چھوڑنے کے پیچھے آزادی کی خوشی اور وہ شعور چھپا تھا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تو 23 مارچ 1940 کو قرار داد لاہور پہلی بنیاد بنی۔ اس قرارد اد کے اغراض و مقاصد میں آزادی کا مقصد پنہاں تھا مگر برصغیر کے مسلمانوں تک یہ عظیم مقصد کیسے پہنچایا جائے، تاریخ نے اسے سیاسی شعور لکھا ، مقصد الگ وطن اور بنیاد کلمہ طیبہ بنی ۔ منٹو پارک جہاں آج مینار پاکستان ہے ، کے مقام پر فقید المثال جلسہ عام میں جب ’’قرارداد پاکستان‘‘ کے نام سے مشہور قرارداد لاہورپیش ہوئی تو قائد اعظم نے اسی وقت یہ شعور گھر گھر پہنچانے کے لئے جن شخصیات کا انتخاب کیا ان میں ایک جناب حمید نظامی تھے ، تحریک آزادی کے سرگرم کارکن اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی صدر کی شخصیت میں کچھ کرگزرنے کا جذبہ قائد اعظم کو لبھا گیا۔قائد اعظم نے جلسہ کے موقع پر ہی حمید نظامی کو ’’وقت کی آواز‘‘ بننے کا فرمان جاری کیا۔نام ’’نوائے وقت‘‘ رکھا ، دنیا کے نقشے پر جب پاکستان کا نام درج ہوا تو بانی نوائے وقت حمید نظامی نے ادارہ کو نئی ریاست کی سرحدوں کے تحفظ اور دوقومی نظریہ کی پاسداری کے لئے وقف کردیا۔پھر معمار نوائے قت جناب حمید نظامی نے اس مقصد کو استحکام پاکستان کی منزل کے راستے کا انتخاب کیا اور ادارہ کو اس بام عروج پر پہنچایا کہ امام صحافت کا لقب پایا، حکمرانوں کے لئے ایک مدبر ، دانشور کے ساتھ دبنگ شخصیت کے طور پر شہرت پائی ، ادارہ کی قیادت جناب مجید نظامی کی اکلوتی صاحبزادی رمیزہ مجید نظامی کے ہاتھ آئی تو انہوں نے بطور منیجنگ ڈائریکٹر و ایڈیٹر استحکام پاکستان کے سفر کو نئی جہتیں دیں، پرفتن دور میں آج نوائے وقت کو ریاست پاکستان کے خلاف ہر پراپیگنڈہ و سازشوں کو مصدقہ ، مدلل اور بااعتماد خبروں اور تجزیوں کو نابود کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ محترمہ رمیزہ مجید نظامی کی قیادت میں ادارہ کی منفرد شناخت اس کی قابل فخر ادارتی پالیسی کا عکاس ہے۔قائد اعظم کا نوائے وقت کے اجرا کا فرمان بہت بڑا اعزاز ہے جسے یکم مارچ 2023 کو پیشانی میں اسوقت تحریر کیا گیا جب 23 مارچ کی مناسبت سے اس کا رنگ سبز ہوا۔ قائداعظم کے فرمان کا نوائے وقت کی پیشانی میں اظہار اگرچہ 84 برس بعد ہوا مگر قائد اعظم کے فرمودات اور علامہ اقبال کی مدبرانہ خیالات و شاعری کی دونوں رہنمائوں کی تصاویر کے ساتھ اشاعت دہائیوں سے ادارہ کی باقاعدہ پالیسی ہے۔نظریاتی سرحدوں کے محافظ نوائے وقت کی پیشانی میں قائداعظم کا فرمان تحریر کرنے کی تجویز ملکی سرحدوں کے محافظ ایک فوجی نے دی ، لیفٹیننٹ کرنل (ر)سید احمد ندیم قادری تمغہ امتیاز، چیف آپریٹنگ آفیسر نوائے وقت گروپ نے فروری 2025 میں 23 مارچ کی مناسبت سے میٹنگ میں اس تجویز کا اظہار کیا۔ نوائے وقت گروپ کی منیجنگ ڈائریکٹر و ایڈیٹر محترمہ رمیزہ مجید نظامی نے تجویز کی فوری طورپر منظوری دی۔تاریخی اعتبار سے یہ لمحات ادارہ اور تمام سٹاف کیلئے قابل فخرہیں۔ مختلف دانشوروں ، ادیبوں اور تجزیہ کاروں کے قائداعظم کے اس فرمان کے نوائے وقت کی پیشانی پر تحریر ہیں ، پرمبارکباد کے پیغامات وصول ہورہے ہیں، بیشتر اس سے متعلق لکھ کر تاریخی کام کا حصہ بن رہے ہیں۔کچھ حلقوں نے اس فرمان کو تاخیر سے لکھنے پر اعتراض کیا ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ یہ کام بہت پہلے یا پہلے روز ہونا چاہیے تھا، میری ذاتی رائے میں دراصل ان کے اعتراض میں قائد اعظم سے محبت چھپی ہے ۔قارئین جانتے ہیں کہ ادارتی صفحہ پر چھپنے والی تحریروں ، انٹرویوز میں گاہے بگاہے اس کا اظہار ہوتا رہا ہے لیکن معمار نوائے وقت جناب مجید نظامی کی اکلوتی بیٹی محترمہ رمیزہ مجید نظامی کو کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری کی یہ تجویز اچھی لگی تو انہوں نے اس کی منظوری دے کر مزید تاخیر کو ختم کردیا۔قائد کے اس فرمان کا نوائے وقت کی پیشانی میں اظہار محب وطنوں کے لئے خوشی کا سامان ہے۔
 قائداعظم زندہ باد پاکستان پائندہ باد 

ای پیپر دی نیشن