ایتھوپیا: فقیری سے امیری کا سفر

 گلوبل ویلج                

مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
تیرہ گھنٹے کی نان سٹاپ فلائٹ کے بعد میں اس وقت ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس آبابا کے جدید اور مصروف ایئرپورٹ پر کھڑا ہوں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جتنی ایئر ٹریفک یہاں دیکھی، اتنی شاید یورپ کے بڑے شہروں میں بھی نہیں دیکھی۔ درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں جدید طیارے، ہزاروں مسافر، اور ایک منظم نظام جسے دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں موجود ہیں جو کبھی دنیا کا غریب ترین ملک تصور کیا جاتا تھا۔
ایتھوپیا، جو کہ مشرقی افریقہ کا ایک اہم ملک ہے، آج ترقی کی راہ پر ایسا گامزن ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی پیچھے چھوڑتا نظر آ رہا ہے۔ عدیس آبابا نہ صرف ایتھوپیا کا دارالحکومت ہے بلکہ پورے افریقہ کے لیے ایک ہوائی ٹرانزٹ حب بن چکا ہے۔ یہاں سے شمالی اور جنوبی امریکہ، یورپ، ایشیا اور آسٹریلیا کے لیے براہ راست پروازیں دستیاب ہیں۔ ایئر لائن ایتھوپین ائیر لائنز نہ صرف افریقہ کی بلکہ دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں شمار ہوتی ہے اور یہ  Star Alliance جیسے عالمی اتحاد کا حصہ ہے جس میں ترک، جرمن، کینیڈین، اور تھائی ایئر لائنز شامل ہیں۔ایتھوپیا کی موجودہ آبادی تقریباً 129 ملین یعنی 13 کروڑ ہے، جو دنیا کے گنجان آباد ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ اور یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا دسواں بڑا ملک ہے۔عدیس آبابا کی آبادی 6 ملین کے قریب ہے اور یہ شہر نہ صرف سیاسی مرکز ہے بلکہ ایتھوپیا کی معیشت، تعلیم، ثقافت اور ہوابازی کا دل بھی ہے۔
تاریخی پس منظر:ایتھوپیا کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ بعض مؤرخین کا ماننا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کا ظہور اسی علاقے میں ہوا۔ اس نظریے کو افریقی دانشوروں، محققین، اور یہاں تک کہ اسلامی تاریخ کے بعض معتبر ذرائع بھی جزوی طور پر درست قرار دیتے ہیں۔ مشہور مسلمان دانشور بوعلی سینا نے بھی اپنی تحریروں میں اس خطے کی تاریخی اہمیت کا تذکرہ کیا ہے۔ایتھوپیا کو دنیا کی سب سے قدیم سرزمینوں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض مؤرخین اور محققین کا یہ ماننا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کا ظہور اسی سرزمین پر ہوا۔ اگرچہ اس بارے میں دنیا کے مختلف خطے دعویٰ کرتے ہیں، مگر افریقہ خصوصاً ایتھوپیا کو’’کریڈل آف ہیومینٹی‘‘ یعنی انسانیت کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے۔ جینیاتی اور آثارِ قدیمہ کی تحقیق سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کا آغاز افریقہ سے ہوا اور ایتھوپیا میں موجود بعض مقامات کو اس سلسلے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی و تاریخی روایات میں ایتھوپیا کا ذکر بڑے احترام سے آتا ہے۔ یہاں موجود بعض مقامات کو آج بھی مقدس سمجھا جاتا ہے اور یہ مانا جاتا ہے کہ یہ زمین حضرت آدم علیہ السلام کے قدموں کی پہلی گواہ ہے۔ مسلم دانشور بوعلی سینا نے بھی اپنی تحریروں میں ایتھوپیا کی تاریخی و روحانی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ایتھوپیا واحد افریقی ملک ہے جو یورپی نوآبادیات سے مکمل طور پر محفوظ رہا۔ اگرچہ اسے بھی کئی اندرونی مشکلات، قبائلی کشمکش اور مذہبی تنازعات کا سامنا رہا، لیکن اس نے اپنی خودمختاری ہمیشہ قائم رکھی۔
افلاس سے امید کی جانب:یہ وہی ملک ہے جہاں 1980 اور 90 کی دہائی میں خانہ جنگی اور قحط سے لاکھوں لوگ مارے گئے۔ دنیا نے ایتھوپیا کو بھوک اور افلاس کی علامت کے طور پر جانا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے اسکولوں میں بھی اس ملک کے لیے چندہ جمع کیا جاتا تھا، اور مشہور کامیڈین معین اختر اور عمر شریف اپنے اسٹیج ڈراموں میں اس کی غربت کا ذکر کیا کرتے تھے۔
اس وقت عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے اپنے بچوں کی پسلیاں نکلی ہوئی دکھا کر امداد لی جاتی تھی۔ ایتھوپیا کی وہ تصویریں دنیا کو چونکا دیتی تھیں، جہاں خوراک کی کمی سے بچوں کی آنکھوں میں صرف بھوک نظر آتی تھی۔ وہاں کوئی صنعت، کوئی تعلیم، کوئی روزگار نہیں تھا۔ حکمرانی فوجی آمروں کے ہاتھ میں تھی، جمہوریت ناپید تھی اور مذہبی منافرت اپنے عروج پر تھی۔
ترقی کی راہ:مگر آج، صرف تیس پینتیس سال بعد، ایتھوپیا دنیا کو حیرت زدہ کر رہا ہے۔ عدیس آبابا کا ایئرپورٹ اس وقت افریقہ کا مصروف ترین ہوائی اڈہ بن چکا ہے۔ جدید طیاروں کی لائن، بہترین سروسز، اور بین الاقوامی معیار کی سہولیات یہاں موجود ہیں۔ یہ سب کچھ کسی معجزے سے کم نہیں۔اگر آپ عدیس آبابا اوربڑے شہروں میں نکلیں تو بلندوبالا عمارتیں ،ٹریفک کا خوبصورت نظام ،بہترین سڑکیں پل اور تمام انفراسٹرکچر دیکھ کر بندہ حیرت زندہ رہ جاتا ہے کہ کیا یہ وہی ایتھوپیا ہے جسے آج سے بیس سال پہلے میں نے کسی اور نظر سے دیکھا تھااور ایتھوپیا نے ترقی کا یہ سفر صرف انفراسٹرکچر سے شروع نہیں کیا۔ انہوں نے تعلیم کو اولین ترجیح دی، کرپشن کا خاتمہ کیا، مذہبی اور قبائلی تفریق کو کم کرنے کے لیے پالیسیز بنائیں، اور سب سے بڑھ کر ایک واضح قومی وژن اپنایا۔ قوم نے اجتماعی طور پر فیصلہ کیا کہ امداد پر نہیں بلکہ خود انحصاری پر چلنا ہے۔حکومت نے زراعت، ٹورزم، ٹیکسٹائل، توانائی، اور ہوابازی جیسے شعبوں پر خصوصی توجہ دی۔ آج ایتھوپیا افریقہ کا دوسرا سب سے بڑا بجلی پیدا کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ ’’گرینڈ ایتھوپین رینیسانس ڈیم‘‘ (GERD) جیسے بڑے منصوبے اس کی معاشی آزادی کی طرف قدم ہیں۔
ثقافت، مذہب اور ہم آہنگی:ایتھوپیا میں تقریباً 60 فیصد عیسائی اور 40 فیصد مسلمان آباد ہیں۔ کبھی یہی مذہبی تفریق خون ریزی کی وجہ بنتی تھی، مگر آج یہی تنوع اس ملک کی طاقت بن چکا ہے۔ عدیس آبابا میں عالیشان گرجا گھروں کے ساتھ خوبصورت مساجد بھی موجود ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ایتھوپیا کی ثقافت نہایت مالا مال ہے۔ یہاں کی زبان ’’امہاری‘‘ ہے، لیکن درجنوں مقامی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ موسیقی، رقص، اور فنونِ لطیفہ میں ایتھوپیا نے دنیا بھر میں اپنا نام بنایا ہے۔
سیاحت کا نیا مرکز:ایتھوپیا میں آج جدید عمارتیں، شاپنگ مالز، اعلیٰ درجے کے ہوٹلز، اور قدرتی حسن کی فراوانی ہے۔ وہاں کے پہاڑی سلسلے، نیشنل پارکس، تاریخی مقامات جیسے ’’لالی بیلا چرچز‘‘ اور ’’آکسوم سلطنت‘‘ کے آثار دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔
اب سیاحت صرف دبئی، ترکی یا آذربائیجان تک محدود نہیں رہی۔ ایتھوپیا ایک نیا چمکتا ہوا ستارہ ہے، جو نہ صرف افریقہ بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔
پاکستان کے لیے سبق:آج جب میں ایتھوپیا کی ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، تو دل میں ایک سوال اٹھتا ہے: کیا پاکستان بھی ایسا کر سکتا ہے؟ بالکل! اگر ایک قوم جس نے حالیہ دہائیوں میں قحط، جنگ، مذہبی منافرت، اور فوجی آمریت دیکھی، وہ خود کو بدل سکتی ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ پاکستان جس کی عمر 76 سال ہو چکی ہے، کیا اب بھی اسے امداد پر گزارا کرنا چاہیے یا خودمختاری کی راہ پر چلنا چاہیے؟ہمیں بھی اسی جذبے، محنت اور قربانی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ قیادت کو بدلنے کی نہیں، سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر قوم عزم کر لے تو ایتھوپیا کی طرح پاکستان بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو سکتا ہے۔
میں ’’نوائے وقت‘‘ کے معزز قارئین کو ایتھوپیا کے سیاسی اور اکنامکل ڈھانچے کے متعلق اپنے کسی بعد والے کالم میں انشاء اللہ تفصیل سے بیان کروں گا۔

ای پیپر دی نیشن