شب برات …بخشش و مغفرت کی رات

یوں تو شعبان المعظم کا پورا مہینہ ہی عبادت وریاضت کا مہینہ ہے لیکن اس کی پندرھویں شب کو ایک خاص خصوصیت حاصل ہے ۔۔اس رات کو عرف عام میں ’’شب برات‘‘ کہا جاتا ہے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ برات کا معنی ہے :دور ہونا ، جدا ہونا ، نجات پانا وغیرہ۔ اور اس رات اللہ تعالیٰ کے نیک بندے آخرت کی رسوائی وذلت سے دور کر دئیے جاتے ہیں لیکن شب برات میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے رحمت ومغفرت کی اس قدر برسات کے باوجود کچھ بد نصیبوں کی توبہ کے بغیر مغفرت نہیںہوتی، چنانچہ ’’مسندالبزار‘‘ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے اور ’’سنن ابن ماجہ‘‘ میں حضرت ابوسعید خدریؐ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات تجلی فرماتا ہے اور تمام مخلوقات کو بخش دیتا ہے ، ماسوائے شرک ، کینہ رکھنے والے ،اسلام میں نئے فرقے بنانے والے اور چغل خور کے‘‘۔ پھر یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ نبی کریم ؐکے زمانے میں بھی شب برات آئی ، صحابہ کرامؓ کا زمانہ بھی گزر گیا ، تابعین ؒ وائمہ اربعہ ؒ کا زمانہ بھی گزر گیا لیکن کسی سے بھی شب برات کا حلوہ، آتش بازی، مُردوں کی فاتحہ خوانی وغیرہ ثابت نہیں ۔ لہٰذ امسلمانوں کو اس قسم کی تمام بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے سنت صحیحہ کو مشعل راہ بنانا چاہئے جو راہ نجات ہے ۔ اللہ تعالیٰ بدعات سے محفوظ فرمائیں ۔آمین
ہندوستان کے عظیم محقق عالم دین حضرت علامہ عبدالحئی لکھنوئی ؒ آثار مرفوعہ میں فرماتے ہیں :ان تمام احادیث قولیہ وفعلیہ سے معلوم ہوا کہ اس رات عبادت زیادہ کرنا مستحب ہے لیکن لوگوں کو نماز اور غیر نماز میں فرق رہے جو چاہیں عبادت کریں لیکن اس رات عبادت مخصوصیہ کیفیت مخصوصہ کے ساتھ اس کاکوئی ثبوت نہیں ۔ مطلق نماز نفلی شب برات اور اس کے علاوہ راتوں میں جائز ہے ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔ان دلائل سے واضح ہوا کہ شب برا ت کا ذکر نہ قرآن مجید میں ہے اور نہ احادیث صحیحہ میں ہے ۔زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس رات ذکر وعباد ت میں مشغول ہوتا ہے کہ اس کے عقائد کی تطہیر اور اخلاقی رفعت کا باعث بنے اور کسی خاص عبادت کا التزام نہیں کرتاتو کوئی حرج نہیں ۔یو ں تو اس رات کی فضیلت اور اس میں مخصوص عبادات واعمال کے سلسلے میں متعدد روایات کتب حدیث میں موجود ہیں ، جن میں سے بعض کسی درجے میں قابل استناد ہیں ،ہم اکابر علماء ومشائخ کے معمولات کی روشنی میں انتہائی حزم واحتیاط کے ساتھ اس رات میں جن کاموں کی گنجائش ہے انہیں اس وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ان کاموں میں سراسر بھلائی ہے ، اگر کوئی کچھ کرنا چاہے تو یہ کام کرسکتا ہے ، ان کاموں کی اس رات کے ساتھ کوئی تخصیص بھی نہیں ۔ بلکہ سال بھر کیے جاسکتے ہیں ۔
پندرہویں شعبان کا روزہ اور شب بیداری استحباب کے درجے میں ہے۔اس رات قبرستان جانا سنت نبویؐ ہے ۔تاہم قبرستان جانا صرف مردوں کیلئے اور انفرادی طور پر ہے ۔ بعض روایات کے مطابق چونکہ شب برات کو سال بھر کے اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں ، لہٰذا شب برات کو والدین ، بھائیوں ، بہنوں ، رشتہ داروں ، ہمسایوں اور دیگر لوگوں سے اپنی زیادتیوں کی معافی مانگ لینی چاہئے ، اور اگر کسی کا کوئی حق ذمے میں باقی ہوتو اس کی ادائیگی کردینی چاہئے یا پھر صاحب حق سے معافی مانگ لینی چاہئے ۔
بعض روایات کے مطابق چونکہ یہ رات حکم وقضا کی رات ہے ، اللہ تعالیٰ فرشتوں کو سال بھر کا پروگرام دے دیتے ہیں ،اس میں موت وحیات ، اعمال نیک وبد، ہر قسم کے رزق او رانعامات ، مصائب وآلام اور بیماریوں کا پروگرام بھی دیا جاتا ہے ، لہٰذا اس شب کو اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت کے خیر وبرکت کی دعائیں مانگنی چاہییں۔یہ عمل مختلف گناہوں کا بھی باعث ہے ، اول تو یہ کہ آتش بازی کھلا اسراف وفضول خرچی ہے ، اور ارشاد باری تعالیٰ ہے :ترجمہ: ’’بیشک بغیر کسی غرض کے پیسہ ضائع کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ آتش بازی سے عبادت گزاروں کی عبادت ،علماء وطلبہ کی تعلیم وتعلم ، بیماروں ،بوڑھوں اور تھکے ماندے لوگوں کے آرام ونیند میں خلل پڑتا ہے ،جوکہ ظلم وزیادتی ،عبادات کی سخت توہین اور علم کا نقصان ہے ۔ تیسرے یہ کہ آتش بازی سے بسا اوقات دکانوں ، گھروں اور درجنوں لوگوں کی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں لہٰذا آتش بازی سخت ’’فساد فی الارض‘‘ ہے ۔ نیز آتش بازی کے بہانے بچے شب بھر گھروں سیباہر رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے غلط ماحول اور غلط سوسائٹی سے متاثر ہونے اور جرائم اور کبیرہ گناہوں کا عادی بن جانے کا قوی اندیشہ ہے ۔لہٰذا ان وجوہات کے پیش نظر آتش بازی خطرناک اور حرام فعل ہے جس سے اپنی نئی نسل کو بچاناہم سب کا فریضہ ہے ۔اس کے علاوہ متعدد احادیث اس مضمون کی وارد ہیں کہ پندرہویں شعبان کی شب میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی جانب متوجہ ہوکر مسلمان مردوعورت کی مغفرت کرتا ہے ، کافروں کی دعائیں قبول کرنے میں تاخیر کرتا ہے ، اور کینہ رکھنے والوں کی ان کی کینہ پروری کے سبب مہلت دیتا ہے تاکہ کینہ پروری ترک کریں پھر دعا کریں (بیہقی )
اسی حوالہ سے امام شافعیؒ کا بیان ہے کہ پانچ راتین ایسی ہیں کہ جن میں دعا قبول ہوتی ہے (1)جمعہ کی رات ۔(2)عیدین کی رات(3)یکم رجب کی رات (4)لیلۃ القدر کی رات (5)پندرہویں شعبان کی رات ۔اس لیے اس شب میں دعائوں کا خصوصی اہتمام ہونا چاہئے ،دعائوں سے تو اللہ تعالیٰ خوش بھی ہوتے ہیں اور اس کی رحمت بھی متوجہ ہوتی ہے ،اس کے ساتھ استغفار کے عمل کو بھی حرزجان بنائیں ، جیسا کہ ارشادِ باری تعا لیٰ ہے :ترجمہ:’’تم اللہ سے معافی کیوں نہیں مانگتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘جیسا کہ ملکی حالات پریشان کن ہیں اس کا علاج اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا کہ تم بکثرت استغفار کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے ۔
لہٰذا اس بابرکت رات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اکابرین کے کچھ معمولات نقل کئے جاتے ہیں ،قارئین سے درخواست ہے کہ اس بابرکت رات میں پاکستان اور امت مسلمہ کے موجودہ حالات اور اس پریشان کن صورتحال پر درج ذیل دعائوں اور مختصر وظائف کی پابندی کریں ۔(1)ترجمہ:اے اللہ ہم تجھے ان دشمنوں کے مقابلے میں تصرف کرنے والا بناتے ہیں اور ان کے شروروفتن سے تیری پناہ چاہتے ہیں ۔(2) ترجمہ:اے اللہ ہماری پردہ داری فرمااور ہماری گھبراہٹ کو بے خوفی واطمینان سے بدل دے ۔(3)ترجمہ:یاحیی یا قیوم !ہم تیری رحمت سے مدد چاہتے ہیں ۔اور اس کے ساتھ ساتھ عارف ربانی حضرت شیخ مجدد الف ثانیؒ نے ناگہانی آفات وبلیات اور پریشان کن حالات سے رہائی اور چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے ایک زوداثر (جلدی کامیابی حاصل کرنے والا )مختصر اور مجرب درود بتلایا ہے ،وہ یہ ہے :پہلے باوضو قبلہ رو بیٹھ کر ایک سومرتبہ درود شریف پڑھے پھر صرف لاحول ولا قوۃ الا باللہ کو پانچ سو مرتبہ پڑھیں پھرایک سو مرتبہ درود شریف پڑھیں ۔

ای پیپر دی نیشن