اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے، نوائے وقت رپورٹ) پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈیٹر جنرل نے انکشاف کیا کہ اس وقت 7 سے 8 سرکاری ادارے آڈٹ کرانے سے انکاری ہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر خان کی زیرصدارت ہوا۔ دوران اجلاس پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی میں 5 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا۔ رکن کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ یہ اتھارٹی خود کو وفاقی حکومت کے زیر انتظام نہیں سمجھتی۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایک ماہ میں پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے مالیاتی قواعد بنانے کی ہدایت کی۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ہدایت کی کہ آڈٹ نہ کروانے والے تمام اداروں کے سربراہوں کو طلب کیا جائے۔ دوران اجلاس سیکرٹری توانائی نے کہا کہ 2020ء میں کابینہ کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ مظفر گڑھ کے پانچ پاور ہاؤس فروخت کیے جائیں گے۔ اس وقت ملک میں بجلی کی اوور کپیسٹی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ملک میں بجلی نہیں ہے اور آپ کہ رہے ہیں اوورکپیسٹی ہے۔ سیکرٹری توانائی نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ لائن لاسز والے علاقوں میں ہو رہی ہے۔ پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پاور پلانٹس کی نجکاری نہیں ہو سکتی، کمیٹی نے کہا کہ فروخت کیے جانے والے تمام پرانے پاور پلانٹس کی تفصیلات دی جائیں اور اب تک فروخت ہونے والے پاور پلانٹس کا سپیشل آڈٹ کیا جائے۔ چیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر غلام علی پی اے سی اجلاس میں پیش ہوئے، آڈٹ حکام نے کہا کہ پی اے آر سی نے اشتہار 164 آسامیوں کا دیا، 332 بھرتیاں کی گئیں۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ بھرتی کیے گئے افراد کے ڈومیسائل فراہم نہیں کیے گئے۔ بھرتیوں میں کوٹے کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ آسامیاں بڑھانے کی وجہ ضروری تکنیکی و سائنسی سٹاف کی ضرورت تھی۔ سید نوید قمر نے کہا کہ ضرورت تھی تو قانون کے مطابق بھرتیاں کرتے۔ جنید اکبر خان نے کہا کہ بھرتی کیے گئے افراد میں چیئرمین پی اے آر سی اور دیگر کے رشتہ دار بھی شامل ہیں۔ پی اے سی نے پی اے آر سی بھرتیوں کا کیس ایف آئی اے کو بھجوا دیا۔