مذکرات ایک احسن اقدام 

 گلوبل ویلج   

مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
دنیا کی تمام معرکہ آرائیوں اور تمام تنازعات اور جتنی بھی چھوٹی بڑی جنگیں ہوئیں ہیں، ان کے فیصلے آخرکار مذاکرات کی میز پر طے ہوئے ہیں۔ آپ پانی پت کی جنگ سے لے کر پلاسی کی جنگ اور پلاسی کی جنگ سے لے کر پہلی اور دوسری جنگ عظیم اور اس کے بعد لڑی جانے والی تمام جنگوں کو زیر نظر رکھیں تو آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ تمام فیصلے مذاکرات کی میز پر ہوتے ہیں۔پوٹن اور یوکرین کے صدر بھی اب اس بات پرتھوڑا تھوڑا آمادہ نظر آتے ہیں کہ ہمارا تصفیہ بھی ٹرمپ کے آنے کے بعد ٹیبل ٹاک پر ہی ہوگا۔پھر پاکستان کو تو کسی سے اجازت نہیں لینی پڑنی تمام سیاسی جماعتوں اور بشمول اسٹیبلشمنٹ ہم سب پاکستانی ہیں پاکستان کو پاکستانی سے بات کرنے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔پھر ہمیں کیوں نہیں اپنے معاملات کو ٹیبل پر حل کرنے چاہئیں۔ غلطیاں ہو جاتیں ہیں، قتل ہو جاتے ہیں،قبیلوں میں برادریوں میں لیکن اگر ہر آدمی انتقام پر اتر آئے اور اسی پر اتراتا رہے بضد رہے تو دنیا کا سسٹم چل نہیں سکتا۔۔یہاں پر آپ نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے کہ سب بڑا عمل معاف کر دینا ہے۔ اگر آپ معاف نہیں کر سکتے تو جزیہ لے لو۔اسی طرح 9مئی اور 26نومبر کے جو متاثرین ہیں ان کے لواحقین اگر وہ ایگری ہو تے ہیں تو انہیں جزیہ دے کر منا لیا جائے۔اس کے لیے دونوں پارٹیاں ان کا ترلا منت کریں۔ضروری نہیں کہ جس کو آپ ملزم قرار دیتے ہیں وہ مجرم بھی ہو۔ ملزم کو بھی جرم ثابت ہونے تک مجرم کہا جا سکتا ہے نہ اسے زیر سزا رکھا جا سکتا ہے۔ سیاستدانوں سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، اسٹیبلشمنٹ سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ججوں سمیت کسی سے بھی غلطی ہونے کا احتمال بہرحال رہتا ہے۔ہم نے دیکھا کہ بطور ادارہ غلطیوں کو تسلیم کر کے ندامت کا اظہار کیا گیا۔انفرادی طور پر بھی غلطیوں کو تسلیم کر کے معافی مانگنے پہ شواہد موجود ہیں۔
آج سارے اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگا رہے ہیں ،چلو مان لیا کہ غلطی ہو گئی۔فرض کر لیں ایسا ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنی فوج کو ملک سے نکال دیں گے، آگے آپ کو فوج کی ضرورت نہیں پڑے گی۔پاکستان دنیا کے چند ممالک میں ہے جس کی سروائیول فوج کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ دنیا کا سب سے پ±رامن ملک جو ہے اس کا نام سوئٹزرلینڈ ہے۔کہتے ہیں کہ اس کی فوج نہیں ہے۔ایسا کہنے والوں کو خود کو درست کر لینا چاہیے۔ اس کی بھی ساٹھ ہزار فوج ہے۔ اس کی ٹوٹل آبادی 70لاکھ اور ساٹھ ہزار اس کی فوج ہے۔ سوئٹزرلینڈ پر امن اور تنازعات سے مبّرا ملک کو بھی فوج رکھنی پڑتی ہے، ایک بات میں آپ کو اور بتاتا چلوں کہ سوئٹرزلینڈ سمیت یورپ کے تقریبا ہر ملک میں لازمی ملٹری سروس قرار دی گئی ہے۔ یعنی آپ نے اپنی پرایکٹیکل لائف شروع کرنے سے پہلے کم از کم دو سال سروس کو دینے ہوتے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک کو رکھنی پڑتی ہے۔ اس لیے کشادہ دلی سے غلطیاں معاف کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔اداروں کو کسی سے جتنے بھی تحفظات ہوں پاکستان کی خاطر انہیں بھی درگزر سے کام لینا ہوگا۔اور ایسا ہوتا ہوا اب نظر بھی آیا ہے۔نو مئی میں ملوث جن لوگوں کو سزائیں دی گئی تھیں ان میں سے سر دست 19 کی سزائیں معاف کر کے انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔اگر ہم آپس کی لڑائی میں لگے رہے تو ہماری طاقت، ہمارا پیسہ اور ہمارا ہنر سب ضائع ہو جائے گا اور ملک اور وطن کے کسی کام نہیں آ سکے گا۔
امریکہ میں جو بائیڈن انتظامیہ ہو یا وہاں پہ آئندہ ٹرمپ اقتدار میں آ جائیں۔پاکستان کے لیے امریکہ کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔پاکستان کا ماضی کے مقابلے میں آج امریکہ پر انحصار زیادہ ہو چکا ہے۔کل تک ہمارا سارا وزن چین کے پلڑے میں تھا۔چین پاکستان کے لیے خطے کے کسی بھی ملک سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔حتی کہ کشمیر ایشو پر پاکستان اور چین ایک پیج پر تھے۔دونوں کو انڈیا آنکھیں دکھاتا تھا اور دونوں انڈیا کو اس کے کسی بھی اقدام پر جارحانہ بیان پر مسکت جواب دیتے تھے۔سی پیک نے تو پاکستان اور چین کو مزید قریب کر دیا تھا۔پاکستان اور چین کے تعلقات گرم جوشی کی اسی سطح پر ہیں جس پر پہلے تھے مگر آج چین کی توجہ بھارت کی طرف بھی مبذول ہو چکی ہے۔
چین انڈیا میں انویسٹمنٹ کر رہا ہے اور اس کے پندرہ سو مختلف پراجیکٹ انڈیا میں چل رہے ہیں وہ بھی سو سو ارب ڈالر کے ہیں۔چین جو پراڈکٹ بنا رہا ہے اس نے کہیں بیچنی بھی تو ہے۔ اس دنیا میں چلتا پھرتا ہر پانچواں آدمی انڈین ہے۔ انڈیا سے بڑی مارکیٹ اسے کہیں نہیں ملے گی۔ روس یوکرین کے ساتھ سینگ پھنسائے ہوئے ہے۔اسے اپنی پڑی ہے وہ ہماری کیا نبڑے گا۔سعودی عرب نے انڈیا میں چارسو بلین ڈالر کی انسویسٹمنٹ کی ہے۔ جو ہمارے لیے ایک خواب ہے۔ چائنا اگر ایک کریم یا شیمپو بنا کر بھیجتا ہے تو پاکستان میں اس کی پراڈکٹ دس ہزار بکے کی مگر انڈیا میں اس کی پراڈکٹ دو چار لاکھ بکے گا۔ اس کو پھر پاکستان عزیز ہو گا یا انڈیا۔اس لیے پاکستان کو سمجھنا چاہیے۔ایسے میں ہمارا ایک مرتبہ پھر سارے کا سارا انحصار امریکہ پر ہو رہا ہے۔
ایک طرف ہم اندرونی طور پر دہشت گردی کا شکار ہیں بیرونی محاذ پر ایک طرف پاکستان کا ازلی اور ابدی دشمن بھارت ہے دوسری طرف افغانستان بھی اب پاکستان کو آنکھیں دکھانے لگا ہے۔سارے نہیں مگراقتدار میں بیٹھے ہوئے افغان محسن کش ہیں۔ ہم نے ان کے بچے بچائے ان کی عورتوں کو اور ان کو کیمپوں میں نہیں رہنے دیا ہم نے ان کو لاہور، راولپنڈی، کراچی میں آباد کیا ہے۔اور آج یہ پاکستان کے ہر شہر، ہر قصبے ، ہر گاﺅں، ہر گلی اور ہرکوچے میں پھیل گئے ہیں۔انہوں نے اپنی پراپرٹیاں خرید کر پاکستان کی اکانومی خراب کر دی ہے۔ ہم نے ان کو جگہ دی ہے۔ مثال کے طور پر ان کے کارگوسسٹم نے پاکستان کے گڈزٹرانسپورٹ کا جنازہ نکال دیا ہے۔اس کے باوجود بھی پاکستانی قوم ان سے اس لیے پیار کرتے ہیں کہ یہ ہمارامسلمان ملک تکلیف میں ہے۔ یہی افغان مہاجرین کچھ ایران گئے ،کچھ پاکستان آئے تھے۔ایران میں بھی کم از کم دو ملین افغان ہیں۔ انہوں نے ان کو آج تک ایک باڑ کے اندر رکھا ہوا ہے۔وہ اس چاردیواری سے باہر نہیں نکل سکتے۔انہوں نے ایک بھی افغانی کو باہر نکل کر کام کرنے کی اجازت نہیں دی۔ہمارے لاہور ،کراچی، پنڈی، پشاور سمیت اور ساری جگہوں پر ہر جگہ پر انہوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔دنیا بھر میں مہاجرین آتے ہیں۔ پاکستانی مہاجرین بھی باہر جا کر رہتے ہیں۔ ہر ملک کے مہاجرین جنگوں یا بدامنی کے دنوں میں اپنے قریبی ممالک میں جاتے ہیں۔وہ جاتے ہیں جہاز میں ،بس میں چلے گئے ، بارڈر پر جا کر سیاسی پناہ مانگتے ہیں۔ لیکن جب افغان پاکستان آئے تو وہ سب کچھ اپنے ساتھ لائے اپنی بھینسیں، اپنے ٹرالے،ٹرک ،کلاشنکوف اور منشیات اٹھا کر لائے۔ یہ مہاجرین کیا تھے یہ ایک منصوبہ تھا قبضہ کرنے گا۔اور افغانستان دنیا میں واحد ملک ہے جس نے آج تک ڈیورنڈ لائن کو قبول نہیں کیاجس نے 51ءتک پاکستان کو بھی قبول نہیں کیا تھا۔(پاکستان کو مسلمان ہونے کی یہ سزا ہے کہ وہ اپنے ہاں تمام دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کو اکٹھا کر لے اگر صرف لسانی بنیادوں پر دیکھا جائے تو پھر کل کو پنجاب بھی کہے گا کہ مشرقی پنجاب کے تمام پنجابیوں کو پاکستان میں شامل کیا جائے اور یہی ڈیمانڈ بلوچستان کے بلوچی بولنے والے کریں گے کہ ایران کے بلوچی زبان بولنے والے صوبے کو پاکستان میں شامل کر دیا جائے) آج اس کے اندر سے پاکستان پر حملے ہوتے ہیں۔پاکستان کو دیگر بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔جس میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام بھی شامل ہے۔ان سارے چیلنجز سے صرف اور صرف ایک قوم بن کر ہی نمٹا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے امید کی ایک کرن ضرور طلوع ہوئی ہے۔تحریک انصاف اور حکومت کے مابین مذاکرات ہو رہے ہیں۔ملک کو ترقی اور خوشحالی کی منزل تک پہنچانے کے لیے سیاسی معاشی استحکام کی اولین ضرورت ہے۔مذاکرات کی سمت درست ہے۔اس کے لئے ہر سٹیک ہولڈر اپنا کردار ادا کرے تو یقینی طور پر مذاکرات کامیاب ہوں گے اور پاکستان عدم استحکام سے نکل کر مضبوطی کی طرف بڑھے گا۔

ای پیپر دی نیشن