دہشتگردی کب تک

افواج پاکستان لگ بھگ کئی برسوں سے دہشت گردی کے عفریت کے خلاف نبردآزما ہیں۔ افواج نے جس انداز سے دہشت گردوں اور ان کے وسیع نیٹ ورک کو غیرفعال بنایاہے اس کی مثال کم کم ملتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوموںکیلئے بیس بیس دن کی جنگ لڑنا بھی محال ہوجاتاہے۔ جبکہ افواج پاکستان کے حوصلوںمیں اپنے جوانوں اور افسروں کی جانوںکی قربانیاں دینے کے باوجود لغزش نہیں آتی جو اس امر کی علامت ہے کہ افواج پاکستان نہ صرف جرأت وشجاعت کے جذبے سے سرشار ہیں اور پیشہ وارانہ اعتبار سے مہارت رکھتی ہیں بلکہ جنگی حکمت عملی کے میدان میںبھی ان کا مقابلہ دنیا کی کسی بھی فوج کے ساتھ کیاجاسکتاہے۔
دہشت گردوں نے معصوم بچوں اور بے قصور شہریوںکو نشانہ بنانے سمیت پاکستان کے سٹریٹجک اثاثہ جات کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا لیکن پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں نے جس طرح ہمشہ ڈٹ کر ان حملوںکا مقابلہ کرکے دہشت گردوںکو پسپا کیا وہ قابل ستائش ہے۔ جب بھی کبھی دہشت گردوں نے حملہ کیا تو سیکورٹی اداروں نے دہشت گردوں کو جس طرح صرف ایک ہی جگہ پر محدودکرکے ان کو ٹھکانے لگادیا یہ ان کی پیشہ وارانہ مہارت کا منہ بولتاثبوت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بین الاقوامی طاقتیں بھی اب یہ تسلیم کرنا شروع ہوگئی ہیںکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو دیگر ممالک کی نسبت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ دوسری جانب پڑوسی ملک بھارت نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں الجھا ہوا دیکھ کر اسے ایک بہترین موقعے کے طور پر یوں لیاکہ اس نے آئے روز لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر اشتعال انگیز فائرنگ کرکے معصوم شہریوں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانا شروع کردیا۔ یقیناً افواج پاکستان کی جانب سے دشمن کی ہر چھوٹی بڑی جارحیت کا جواب دیاجاتاہے جس کے بعد دوستی اور مذاکرات کا ڈرامہ شروع کردیتاہے۔ لیکن اگلے ہی روز پھرکسی نئی خلاف ورزی کامرتکب پایاجاتاہے ۔ دشمن کی انہی چالبازیوں اور سازشوںکو بھانپتے ہوئے واشگاف چیف آف آرمی سٹاف نے ہمیشہ کہاکہ افواج پاکستان تمام اندرونی اور بیرونی چیلنجز اورخطرات سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ چاہے وہ روایتی جنگ ہویاغیر روایتیCold Startیا Hot Startہم تیارہیں۔
بلاشبہ چیف آرمی سٹاف کای اعلان ان جواں جذبوں اور حوصلوںکی نشاندہی کرتاہے جو پاک فوج کے جوانوںاور اور افسروںکے اندر موجود ہیں۔ گویا چیف آف آرمی سٹاف کا اپنی فوج پر اعتماد اس کے پیشہ وارانہ اعتبار سے بہترین ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ہائی مورال کی عکاسی بھی کرتاہے۔
پاکستانی قوم اور افواج پاکستان الحمداللہ اپنے دشمنوںکو بخوبی پہچانتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اب پوری قوم یک جان ہوکر خطرات کے خلاف متحدہوچکی ہے اور یہ تہیہ کرچکی ہے کہ وہ دفاع وطن کویقینی بنانے کیلئے ہر لمحہ اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ان کے ہوتے ہوئے اب دشمن کی چال اور سازش کارگرثابت نہیں ہوسکتی۔
پاکستان کی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ چند لوگوںکے حوالے کرکے قوم چین کی نیند سوجائے۔ طالبان ایسی ہتھیار بند تنظیم نہیں جو اچانک وجود میں آگئی ہے۔ ماہ وسال اگرچہ یہ تعین کرتے ہیں کہ دسمبر2007میں بیت اللہ محسود کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان کا باقاعدہ اعلان ہوا۔25اگست2006ء میں اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ اگست2009سے حکیم اللہ محسود اسکی سرابراہی کررہے تھے۔ مگرصدیاںیہ کہہ رہی ہیںکہ یہ ایک انداز فکرہے جو ہمیشہ اس خطے میںموجود رہاہے اور مختلف تحریکوںکی شکل میں ابھرکر سامنے آتا رہاہے۔ شہنشاہ جلال الدین اکبر ہوں، اورنگزیب ہوں،انگریز کا دور استبداد رہاہو اسلامی مملکت کے قیام اور اسلامی نظام کے احیاء کیلئے مختلف تنظیمیںکبھی فکری،کبھی مسلح جدوجہدکرتی رہی ہیں اکثریت نے انہیں حکمرانی کیلئے منتخب نہیںکیا۔ لیکن مسلمانوںکی ایک بڑی تعداد اس فکر کی ہم نوا رہی ے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ پاکستانی قومی مفادات اور اپنی منزل کا تعین نہ ہونے کے باعث ایک سمت میں سفر نہیںکررہے ہیں۔ اقبال اور قائداعظم کی سیاسی وملی فکرکو آگے نہیں بڑھایاگیا۔ 
اس فکری خلا میںغیرملکی فلسفے بھی ذہنوںکو مسخرکرتے رہے۔ خاص طور پر مذہبی بنیادوںپر قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والوںکی سوچ پذیرائی حاصل کرتی رہی۔ جس کا ایک رخ یہ بھی تھاکہ اگر آپ کی بات تسلیم نہیںکی جارہی ہے تواسے بزور طاقت منوایا جائے۔ 1947ست 1979 تک ملک میں ایسے سیاسی، اقتصادی وسماجی بحران آئے ہیںکہ ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر کمزور ہوتا چلا گیا۔ کہیںلسانی، کہیں نسلی، کہیں فرقہ وارانہ انتہا پسندی معتدل فکر پرغالب آگئی۔ افغان صورتحال کے بعد قبائلی رجحانات نے قوت پائی۔ یہ ذہنی ساخت Mindset تو بارہویں تیرھویں صدی کی تھی لیکن اسے اکیسویںصدی کے جدید ترین اور انتہائی مہلک ہتھیار میسرآگئے۔ اس کے ساتھ تیز ترین ٹیکنالوجی‘ یہ اشتراک کتنا ہلاکت خیزہیکہ اس کا تجربہ ہم روزانہ ہی کررہے ہیں۔
یہ عناصرجو بھی ہیں ان کا نام کچھ بھی ہو ہم انہیں محض انتہا پسند قاتل،بربریت کے عادی کہہ کرمسترد نہیںکرسکتے۔یہ سوچ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پختہ ہوئی ہے کیونکہ اس کیلئے گنجائش موجود رہی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ہماری ماضی کی حکومتیںملک کو ایک جہت نہیں دے سکیں۔ شکایتیں اور گلے بڑھتے رہے ہیں ان کے نتیجے میں لسانی اورنسلی علیحدگی پسند تنظیمیں وجود میں آتی رہیں۔

ای پیپر دی نیشن