بلوچ غدار نہیں ہیں!

ہم نے وطن کی آزادی کے کیا کیا خواب دیکھے تھے۔ ہمارے اس چاند سے پیارے وطن کو ہمارے جمہوریت پسند اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں نے کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ دعوے جمہوریت کے۔ بے پناہ قربانیوں کے۔ ہمارے پریس میڈیا کے مطابق وطن کی خدمت کے لئے عملی طور پر جنہیں عوام نے ووٹ کے ذریعے منتخب کیا وہ جیلوں میں پڑے ہیں لیکن جنہیں عوام نے رد کیا وہ زبردستی کے حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ بقول ان عظیم قائدین کے ملک کو ان لوگوں نے ترقی کی معراج پر پہنچا دیا ہے۔ معلوم نہیں یہ ترقی کی معراج سے اترنا بھی ممکن ہو گا یا نہیں۔ خدانخواستہ کہیں معراج پر ہی لٹک نہ جائیں۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی کلچر میں کچھ ایسی روایات جنم پا گئی ہیں جنہیں دیکھ کر محب ِ وطن پاکستانیوں کو دکھ ہوتا ہے۔ اول یہ کہ دل بھر کر کرپشن کریں۔ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر جائیدادیں بنائیں اور پھر اقتدار میں آکر یہ سارے کیسز کورٹ سے ختم کرالیں اور پھر ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دیں۔ عوام تو ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ۔ اللہ تعالیٰ کے انصاف پر تقویٰ ہے۔ کبھی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے گی اور غریب اور بے بس عوام کا بھلا ہو جائے گا۔
 دوسری روایت اس سے بھی بڑی تکلیف دہ ہے۔ یہ رسم چل نکلی ہے کہ سیاستدان اپنی پارٹی کے علاوہ دوسرے سیاستدانوں کو غدار قرار دیتے ہیں ۔ صرف غصہ یہاں پر ہی ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ جتنے بھی باہر بزور طاقت اقتدار میں ہیں ان کی حتیٰ الوسع کوشش ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوںکو کسی نہ کسی طرح غدار ثابت کریں۔ ایسے ایسے لغو الزامات گھڑے جاتے ہیں جنہیں سن کر خون کھول اٹھتا ہے۔ 
 بہرحا ل یہ سیاستدانوں کے اپنے کردار کا معاملہ ہے۔ کبھی تو ان کا ضمیر جاگے گا لیکن میرادکھ اس وقت یہ ہے کہ یہ نئی روایت عوام میں بھی پھیل چکی ہے اور ان کا اس وقت رخ ’’بلوچوں‘‘ کی طرف ہے۔ سابقہ مردم شماری کے مطابق پاکستان میں بلوچوں کی کل آبادی تقریباً 70لاکھ ہے جو غالباً پاکستان کا 7فیصد بنتی ہے۔ کچھ دیگر ذرائع کے مطابق 5فیصد ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وطن عزیز کی کل آبادی کا واحد بڑا گروپ بلوچ ہیں۔ بلوچ گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے تمام صوبوں میں آباد ہیں۔ پاکستان سے باہر بھی افغانستان ، ایران ، عمان، سینٹر ایشیاء ، افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور انڈیا میں بھی خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ان بلوچوں کی سب سے بری دو عادات قبائلی دشمنی اور جاہلیت ہیں۔بلوچوں میں شاد و نادر ہی تعلیم یافتہ لوگ نظر آتے ہیں۔ یہ دونوں عادات ان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
 بلوچوں کی تعلیمی دلچسپی کے متعلق عام کہاوت ہے کہ بلوچ کو پڑھانا اونٹ کو رکشہ میں بیٹھانے کے مترداف ہے۔ کسی نے بڑے پتے کی بات کی تھی کہ قیامت کی تیں بڑی نشانیاں ہیں۔ اول بلوچ بستہ اُ ٹھا کر سکول جارہے ہونگے دوم پٹھان گرلز کالج کے گیٹ پر کھڑے نظر آئیں گے اور میمن کلاشنکوف اُٹھا کر پھریں گے۔ باقی آپ خود فیصلہ کر لیں۔ جہاں تک غربت کا سوال ہے ۔ ڈوڈا خان مری نے گزر اوقات کے لئے بکریاں پال رکھی ہیں۔ اس کی دو بیٹیاں ہیں ۔ ان کے پاس کوئی اپنا گھر نہیں ہے۔ بہت سی دیگر فیملیز کی طرح وہ ایک غار میں رہتے ہیں۔ ڈوڈا خان بذات خود تو مزدوری کے لئے ادھر اُدھر پھرتا رہتا ہے لہٰذا بکریاں چرانے کی ذمہ داراس کی بیٹیوں پر آتی ہے لیکن بد قسمتی سے ان دونوں کے پاس اچھے لباس نہیں ہیں۔ اچھا لباس صرف ایک ہی ہے جسے ایک پہن کر باہر جاتی ہے اور جب وہ واپس آتی ہے تو دوسری پہن کر باہر جاتی ہے۔(یہ واقعہ مجھے مری قبیلہ کے ایک ذمہ دار گورنمنٹ آفیسر نے بتایا تھا)معلوم نہیں کہ یہ واقعہ کہاں تک درست ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں بہت زیادہ غربت ہے اور یہ سچ ہے کہ بھوک سب سے بڑا مہلک ہتھیار ہے جو کسی بھی خودارشخص کو جھکا سکتی ہے۔
بلوچستان کی غربت اس وجہ سے ہے کیونکہ بلوچستان میں نہ تو کوئی انڈسٹری ہے اور نہ کوئی جابز ہیں۔ نہ وہاں زراعت ہے اور نہ زراعت کے لئے وہاں پانی ہے اور سونے پر سہاگا یہ کہ نہ تویہ لوگ پڑھے لکھے ہیں بکریاں چرانے کے علاوہ کوئی ہنر نہیں سیکھتے تو ان حالات میں یہ لوگ جائیں تو کہاں جائیں۔ ہمارے ان بلوچ برادری کے مقابلے میں افغانستان ، ایران ، عمان کے بلوچ بہتر اور پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ اب بلوچستان میں اس قدر شعور ضرور آچکا ہے کہ حکومت پاکستان سے باقی صوبوں کی طرح اپنے لئے وہ سہولتیں مانگیں اور لیں جو باقیوں کو مل رہی ہیں۔ ان کی نظر میں ان کے حقوق پر دیگر لوگ غیر قانونی طور پر قابض ہیں۔
بے روزگاری اور بھوک سے تنگ آکر جب وہ حکومت سے اپنے لئے رابطہ کرتے ہیں لیکن یہ بھی تو ظلم ہے بجائے ان کے مسائل حل کرنے کے ان پر غداری اور وطن دشمنی کے الزامات لگا دئیے جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقوق اور بہتر زندگی کی سہولتیں مانگنے کے لئے کہاں جائیں؟دکھ اس بات کا ہے جن لو گوں نے مشرقی پاکستان توڑا ،۔پاکستان فوج کو بھارت میں قید کروایا ۔ملک لوٹ کر باہر جائیدادیں بنائیں ۔اربوں روپے کے قرضے لے کر ہڑپ کر گئے وہ تو سب محب ِ وطن ہیں۔ کسی پر بھی آج تک نہ الزام لگا ہے اور نہ کسی سے ایک روپیہ تک واپس لیا گیاہے بلکہ ان سب کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے لیکن بلوچ جب روٹی مانگتا ہے تو وہ غدار بن جاتا ہے۔ یاد رہے بلوچ اور اونٹ بدلہ لینا کبھی نہیں بھولتے۔ بلوچوں کا جو بھی رد عمل ہے یہ وطن دشمنی میں ہر گز نہیں بلکہ اپنا حق مانگنے کے لئے ہے۔خان آف قلات نے ٹھیک کہا تھا کہ ہر بلوچ بیشک پاؤں سے ننگا ہو، کپڑے پھٹے ہوئے ہوں، جاہل اور گنوار ہو لیکن ہر ایسے پاؤں کے نیچے کم از کم دو کلو سونا ضرور موجود ہے۔
 بلوچوں کا سب سے بڑا اعتراض ہے کہ ان کی بات کیوں نہیں سنی جاتی؟ گوادر میں مزدوری تک غیر بلوچوں کو ملتی ہے ۔ بلوچستان کی معدنیات دیگر لوگ نکال کر کھا جاتے ہیں۔ یہ رویہ اب ہر گز برداشت نہیں ہوتا۔ہماری حکومت اور ہمارے سیاستدانوں کی سب سے بری عادت یہ ہے کہ جب مسئلے حل نہیں کر سکتے تو غدار اور وطن دشمنی کے الزامات لگا دئیے جاتے ہیں۔ ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ باقی قوموں کی طرح ہمیں بھی وطن کے معزز شہریوں کی طرح عزت دی جائے۔ ہماری بات اور ہمارے مسائل سنیں اور ان کا کوئی حل نکالیں۔ہم یہ عزت اور حقوق بھیک مانگ کر نہیں لینا چاہتے بلکہ بھائیوں کی طرح مانگتے ہیں۔ ہماری سادگی کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر یہاں کچھ غیر پاکستانی دہشتگردی کی کاروائیاں کر رہے ہیں ۔الزام ان کا بھی ہم بلوچوں پر۔خدا کے لئے آنکھیں کھولیں ۔ دل بڑا کریں۔ ہمارے خلاف دل جلانے والے اور تکلیف دہ جھوٹی الزام تراشی بند کریں۔ ہمیں ہمارے جائز حقوق دیں۔ پھر دیکھنا امن قائم ہوتا ہے یا نہیں۔پاکستان زندہ باد!

ای پیپر دی نیشن