ریاست کا کردار ایک ماں کا کردار تصور کیا جاتا ہے جو اپنے بچوں کو مساوی حیثیت سے دیکھنا اور ڈیل کرنا پسند کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ بچپن میں کھانے پینے کی اشیاء یا پھر جوانی میں وراثت جائیداد ہو ماں باپ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ تقسیم کاری میں مساوات بڑھتی جائے بصورت دیگر بچوں کا ناراض ہونا یا گھر کے سکون میں رخنا ڈالنا ایک فطرتی عمل ہوتا ہے۔ انسانی وصف کی یہ خاص بات ہے کہ نہ ہی وہ عدم مساوات اور نہ ہی وہ حق تلفی برداشت کرتا ہے۔ان دنوں پاکستان میں بھی کچھ یاران وطن بڑی شد و مد سے اپنے حقوق کے لیے ریلیاں اور مظاہرے منعقد کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔
انڈس ریور اتھارٹی (ارسا) کا موجودہ وفاقی حکومت گرین پاکستانی انیشیٹو پلان کے تحت چولستان فلڈ فیڈر کینال، گریٹر تھل کنال، کچھی کینال، رینی کینال، تھرکینال اور چشمہ رائٹ بینک کینال کی تعمیر کی اجازت دینا فیڈریشن کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔جس کی بنا پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی پر مبنی اتحادی حکومت کے لیڈران اور عہدے داران ایک دوسرے پر بیانیوں کے نشتر زنی کر رہے ہیں لیکن یہ سمجھناہوگا کہ آخر اتنی نہروں کی ضرورت کیوں کر پیش آرہی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے اگر پوری دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کا واحد چیلنج درپیش ہے تو پاکستان کو اس کے ساتھ ساتھ کی چیلنج درپیش ہیں جن میں سے دوسرے نمبر پر پاکستانی پانیوں کے منںع اپنے ازلی دشمن بھارت کے چیلنج کا بھی سامنا ہے جس نے سندھ طاس معاہدہ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پاکستان کے حصہ میں آنے والے دریائے جہلم چناب اور سندھ پر ڈیموں کی نہ صرف تعمیر کر رکھی ہے بلکہ مزید کا منصوبہ رکھتا ہے جبکہ تیسرا بڑا چیلنج ہر سال قدرتی سیلابی پانی کا ضائع ہونا اور اس کی وجہ سے مستقل بنیادوں پر دریاؤں کے دہانوں پر بسنے والے شہروں قصبوں اور دیہات کے انفرا سٹرکچر کی بربادی ہے مزید آگے بڑھے تو خشک سالی ایک الگ مسئلہ ہے ان تمام پہلوؤں کے تناظر میں ہر محب وطن کی خواہش ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ایسا میکنزم ہونا چاہیے جو مشترکہ طور پر مذکورہ تمام چینلنجوں کا حل نکال سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گرین انیشیٹو پروگرام ایک گیم چینجر پروگرام تصور کیا جا رہا ہے مگر افسوس سندھ حکومت اس منصوبہ کو بجائے اپنے فائدہ کے الٹ نقصان تصور کر رہی ہے۔
ان کو خدشہ ہے کہ اس سے خدانخواستہ سندھ بنجر جائے گا مگر یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ سرسبز پاکستان کے اس منصوبے سے پانیوں کی منتقلی اور تقسیم میں اتنا نقصان اور تکلیف عام سندھی بھائی کو نہیں جتنا کہ پہلے سے موجود دریا سندھ اور نہروں سے متصل زمینوں کے مالکان اوروڈیرہ شاہی کو ہے۔حیرت اس امر کی ہے کہ اس وقت ملکی و قومی مفاد کے اس عظیم منصوبہ کے خلاف مرکزی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے لے کر قوم پرست جماعتیں ایک پیج پر نظر آرہی ہیں۔ یہاں تک کہ سندھ کے وزیراعلی سید مراد علی شاہ کی وفاقی حکومت گرانے کی دھمکی سنگین صورتحال کا عندیہ دے رہی ہے جبکہ اس سلسلہ میں بلاول بھٹو کے اپنے ہی پارٹی لیڈر اور سابقہ وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف پر چڑھائی جوواپڈا کے وفاقی وزیربھی رہ چکے ہیں اس کے علاوہ صدر مملکت اصف علی زرداری کا رویہ اہمیت کا حامل ہے مگر اس سلسلہ میں رانا ثنا اللہ کا مفاہمت بھرابیان نہروں کا مسلہ فیڈریشن سے بڑا نہیں ہے حکومتی لچک کو ظاہر کر رہا ہے۔اسکے علاوہ نون لیگ کے دیگر رہنماؤں کی جانب سے منفعت بخش اس منصوبہ کے خدشات کے حوالے سے بیانات جن میں ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبہ کو بھی کالا باغ ڈیم کی طرح سیاسی رنگ دے کر ناکام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے دیکھا جائے اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے۔
جب کالا باغ ڈیم کی داغ بیل ڈالی گئی تو دوسری طرف بھارت نے را کے ذریعے پاکستان میں موجود تمام بائیں بازو کی قوم پرست اور لسانی جماعتوں کے سامنے نوٹوں کے بریف کیسوں کے ڈھیر لگا دیے اور پھر اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
دوسرا جواز نہروں کے اس نظام کو 1991 کے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تصور کیا جا رہا ہے جس کے تحت وفاق کی جانب سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ کم از کم سالانہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا تک 10 ملین ایکٹر فٹ پانی لازمی پہنچایا جائے گا ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں پانی کی مقدار کی کمی کی وجہ سے سمندر اب تک سندھ کی ایک لاکھ 24 ہزار ایکٹر سے زائد زمین نگل چکا ہے اس ضمن میں یقینی طور پر ان تمام مذکورہ حقائق کو نہ ہی جھٹلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اختلاف کیا جا سکتا ہے۔
فیڈریشن کا انحصار اکائیوں پر اور اکائی کا انحصار فیڈریشن کے میگا پروجیکٹ پر ہوتا ہے یہ بات بھی طے ہے کہ نئے منصوبہ جات اور اقدامات باہمی رضامندی اور کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ہی طے پاتے ہیں اس سلسلہ میں مشترکہ مفادات کونسل کا کلیدی کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے جسے زمینی حقائق اور غیر جانبداری کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا ہوگا
یاد رکھنا چاہیے کہ سب سے زیادہ گروہوں میں منقسم ملک افغانستان دنیا کی سب سے بڑی نہر بنا رہا ہے جو پہاڑوں اور صحراؤں سے گزرے گی مگر وہاں کوئی اس منصوبے پر سیاست نہیں چمکا رہا جبکہ دنیا کی سپر پاور چین صحرا میں سیکڑوں میل تک نئے نخلستان اگا رہا ہے۔ صحرا میں نہری نظام بھی بنا رہا ہے لیکن وہاں بھی کوئی رخنہ نہیں ڈال رہا اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ سیاست کریں یا پھر کام۔