سیاست بچانے کے لیے جنگ جنگ کھیلی جاتی ہے!

ڈاکٹرعارفہ صبح خان                                                             

 تجا ہلِ عا رفانہ        

دو ہفتے کے دوران جنگ کی فضا تیار کر کے نریندر مودی نے ثابت کر دیا کہ جاہل اور انپڑھ لوگ دنیا کے سب سے چا لا ک شاطر اور مکار لوگ ہوتے ہیں ۔قبل ازیں یہ سمجھا جاتا تھا کہ پڑھے لکھے لوگ تیز یا سیانے ہوتے ہیں۔ لیکن سینکڑوں واقعات اور لاکھوں جاہلوں نے یہ ثابت کر دیا کہ جاہلوں سے بڑھ کر کوئی اتنا مکار اور گھاگ نہیں ہو سکتا۔ پڑھے لکھے لوگوں کی زندگیاں تو پڑھنے لکھنے اور تمیز و تہذیب سے زندگی گزارنے اور درگزریا سمجھوتہ کرنے میں گزر جاتی ہے ۔پڑھے لکھے لوگ دھیمے مزاج کے نرم طبیعت ،صلح جو معاف کر دینے والے ہوتے ہیں۔ مگر جو لوگ بظاہر احمق بدُھو اور مسکین یا معصوم بننے کی ایکٹنگ کر رہے ہوتے ہیں وہ اس قدر گُھنّے اور شیطان ہوتے ہیں کہ ان سے ہر وقت فساد اور جنگ و جدل یا مضموم حرکات کا خطرہ رہتا ہے۔ ایسے لوگ انتہا درجے کے کم ظرف، حاسد، متعصب اور شیطان صفت ہوتے ہیں۔ نریندر مودی گجرات کا رہنے والا چار جماعت فیل چائے والا ہے جو زندگی بھر تنگ ُموری کا پجامہ پہنتا رہا ہے۔ آپ اس آدمی کی شکل دیکھیں بالکل بِجّو لگتا ہے ۔جب سے یہ آدمی انڈیا کا وزیراعظم بنا ہے پاکستان اور انڈیا کے حالات خراب ہوئے ہیں ۔مسلسل جنگ کا ماحول ہے اور دونوں طرف شدید تناؤ اور کشیدگی کی فضا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر ہر چند ہفتے بعد فائرنگ اوراشتعال انگیزی جاری رہتی ہے ۔کشمیر پر بھارتی غیر قانونی قبضے کو آج پورے 2100 دن ہو گئے ہیں۔ کشمیر پر تنازعات کا جال بچھا رکھا ہے۔ پہلے پلوامہ اور اب پہلگام واقعات پر پاکستان کو مورد الزام قرار دے کر جنگ و جدل برپا کر رکھی ہے۔ کوئی پٹاخہ پھوڑتا ہے، کوئی پُھلجڑی چلائی جاتی ہے، کوئی موم بتی جلتی ہے تو نریندر مووی اسے پاکستانی حملہ قرار دے دیتا ہے۔ سب سے زیادہ ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ انڈیا جب یہ کہتا ہے کہ پاکستان بھارت میں مداخلت کر رہا ہے یا پاکستان نے بھارت میں در اندازی کی ہے یا پاکستان نے دہشت گردی کی ہے تو عقل سے پیدل اور جاہل ترین آدمی مودی سے کوئی یہ پوچھے کہ چاچا جی تمہاری معیشت آسمانوں کی بلندی کو چھورہی ہے۔ ایشین ممالک میں انڈیا کو یہ مقام اور برتری حاصل ہے کہ وہاں سب سے کم اور معمولی ٹیکس لگتا ہے۔ جتنا پاکستانی بلاوجہ اور بلاجوازٹیکس دیتے ہیں۔ انڈیا میں آدھے سے بھی کم ٹیکس دیا جاتا ہے۔ بے شمار اشیاء پر ٹیکس کی چھوٹ ہے۔ پاکستان میں 60 فیصد بے روزگاری ہے اور انڈیا میںبمشکل چھ فیصد بے روزگاری ہے۔ انڈین حکومت بے روزگاری کو بھی ایڈجسٹ کرتی ہے۔ انڈیا میں ایک کلرک کی آمدنی پاکستان کے سترویں گریڈ کے آفیسر سے زیادہ ہے ۔انڈیا میں سکول ٹیچر کی تنخواہ ایک لیکچر سے زیادہ ہے۔ انڈین عوام کو ٹیکس کے بدلے مراعات ملتی ہیں۔ انڈیا سائنس، آرٹ، آئی ٹی اور ٹیکنالوجی میں اس وقت ایشیا میں چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ وہاں ہر جگہ کارپیٹڈ سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ ان کے ہاں ٹرانسپورٹ کاجدید بہترین نظام ہے۔ ریلوں کو جدید ترین سہولتوں سے آراستہ کیا گیا ہے لگ بھگ دس کروڑ سے زائد افراد روزانہ ریل پر سفر کرتے ہیں۔ زراعت اور صنعت و حرفت میں ان کی ترقی بے مثال ہے ۔انڈیا میں ڈرائیور، نائی، قصائی اور عام آدمی تعلیم یافتہ ہیں۔ کھیلوں میں انڈیا خود کو فاتح ثابت کر چکا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں انڈیا سے اچھا میوزک کسی ملک میں نہیں ہے ۔اُنکی فلم انڈسٹری ٹاپ پر ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں انڈین فلم اور میوزک چلتا ہے۔ صرف فلم انڈسٹری سے اربوں کھربوں ڈالر کمایا جاتا ہے۔ انڈیا کے شوز سے کھربوں ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے ۔کروڑوں انڈین دنیا کے 200 سے زائد ممالک میں اعلیٰ ترین پوسٹوں پر تعینات ہیں اور اوورسیز سے اتنا زرِ مبادلہ آتا ہے کہ وہ پاکستان کو پال سکتے ہیں۔ ایٹم بم وہ ستر کی دہائی میں بنا چکے تھے۔ ان کے پاس اسلحے کی بھرمار ہے۔ انڈیا سیاسی، معاشی، ثقافتی ،سیاحتی، سفارتی غرض ہر لحاظ سے مضبوط ہے۔ اس کے امریکہ ،فرانس ،آسٹریلیا ،روس ،چین ،جاپان کے علاوہ متحدہ عرب امارات، ایران، ترکی، ملیشیا، اردن، عراق، سعودی عرب ،افغانستان اور تقریبا ہر اسلامی ممالک سے گہرے تعلقات ہیں۔ انڈیا اس وقت ترقی اور خوشحالی کے پنگوڑے میں ُجھولا جھول رہا ہے، تو سوچنے کی بات ہے کہ وہ جنگ کر کے اپنی رات دن کی محنت کو برباد اور آگ میں کیوں جھونکے گا۔ مودی نے یہ تیسری مرتبہ جنگ کا شوُشہ چھوڑا ہے جس کا مقصد عوام اور دنیا کی توجہ دوسری طرف کرنا ہے۔ سیاسی طور پر اپنی مبینہ دھاندلی چھپانے کے لیے جنگ کو حربے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ نریندر مودی پاگل نہیں ہے کہ اپنی خوشحالی ،ترقی ،کامیابی اور محنت و طاقت کو جنگ میں برباد کرے گا ۔یہ بھی درست حقائق ہیں کہ بہار انتخابات جیتنے کے لیے مودی نے پہلگرام کا ڈرامہ رچایا ہے۔ جب بھی پاکستان یا بھارت میں انتخابات کا عمل شروع ہوتا ہے تو پاک بھارت جنگ کی مصنوعی فساد تیار کرا دی جاتی ہے تاکہ عوام میں خوف و ہراس پیدا کیا جائے اور اُن کی توجہ اصل حقائق سے ہٹا دی جائے۔ جب بھی دونوں ممالک میں سیاسی معاملات پر حکمرانوں کی گرفت ڈھیلی ہوتی ہے یا ان کی نالائقیوں اور ناہلیوں کا پول کھلنے والا ہوتا ہے تو فورا جنگ کا ماحول پیش کر دیا جاتا ہے۔ جب بھی حکمرانوں کی کرپشن بے نقاب ہونے والی ہوتی ہے یا حکومت ہاتھ سے نکلنے والی ہو یا اپوزیشن سے خطرہ ہو تب بھی جنگ کی فضا تیار کر دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انڈیا نے پانی کب نہیں چھوڑا ۔ہر سال پاکستان میں سیلاب آنے کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ بھارت اچانک پانی چھوڑ دیتا ہے ۔77 سالوں سے یہی سلسلہ چل رہا ہے کہ کبھی پانی روک دیتا ہے اور کبھی پانی چھوڑ دیتا ہے۔ پاکستان نے 77 سالوں میں پانی روکنے اور چھوڑنے کے حوالے سے کیا اقدامات کیے ؟خشک سالی ہو تو عوام مرتے ہیں فصلیں تباہ ہوتی ہیں جس سے مہنگائی ہوتی ہے ۔عوام بھوکی مرتی ہے اور پانی چھوڑ دیا جائے تو ہر سال سینکڑوں پاکستانی سیلاب میں مر جاتے ہیں یا وبائی امراض سے معذور اور اپاہج ہو جاتے ہیں۔ فا قے کاٹتے ہیں اور ان کے گھر بار ،ساز وسامان ،مال مویشی تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ سوال بدستور یہی ہے کہ حکومتوںنے آج تک کیا اقدامات یا سدباب کیا ہے؟ کشمیر میں مظالم دہشت گردی فائرنگ 77 سال سے جاری ہے۔ آج تک کشمیر کے لیے ریلیاں نکالنے اور بیانات دینے یا ترانے پیش کرنے کے علاوہ کیا پیشرفت کی گئی ہے۔ پاکستان تو خود مسلسل دہشت گردی سے نبرد آزما ہے۔ ہر سال سینکڑوں افراد دہشت گردی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی تو خود مہنگائی ،بیروزگاری ،ناروا ٹیکسوں ،وبائی بیماریوں ،ما حو لیاتی آلودگی ،حادثات اور دہشت گردی ،روڈ ایکسیڈنٹ اور خودکشیوں سے سینکڑوں کی تعداد میں مر جاتے ہیں ۔جو زندہ ہیں وہ حالات کی ستم ظریفیوں کا شکار ہیں ۔بلوں کے لیے قطاروں میں لگتے ہیں بڑی مشکل سے چار پیسے کماتے ہیں جن میں سے آدھے سے زیادہ ٹیکسوں میں ادا کرتے ہیں۔ آج آدھے سے زیادہ پاکستانی تین وقت کی بجائے دو وقت کی روٹی کھا کر زندہ ہیں۔ ریاست بچے نہ بچے سیاست بچنی چاہیے اور جونہی اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل ہوتی ہے کرسی میں لغز ش ہوتی ہے، معاملات بگڑتے ہیں تو انڈیا پاکستان کے درمیان جنگ کا میچ شروع ہو جاتا ہے۔نہ انڈیا پاگل ہے کہ اپنی معیشت اور ترقی ،خوشحالی، خوشی کو جنگ میں جھونکے گا نہ پاکستان اس میں پہل کرے گا۔ جنگ میں صرف موت ہاتھ آتی ہے ،معذوریاں ملتی ہیں، تباہیاں مقدر بنتی ہیں ۔جنگ کے بعد کئی د ہایوںتک ملک اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہتے۔ بس عوام کو خوف اور ٹینشن میں مبتلا کرنا ہوتا ہے ۔جب جنگ ہوتی ہے تو وہاں دونوں ملک کبڈی کبڈی نہیں کرتے بلکہ رات کی تاریکی میں فورا ًحملہ کر دیتے ہیں۔ جنگ کرنی ہو تو دعوت نہیں دی جاتی، نہ انتظار کیا جاتا ہے کہ کون حملہ کرے گا۔ لہذا ریلیکس ہو جائیںکہ یہ محض خیالی جنگ ہے۔

ای پیپر دی نیشن