اڑان پاکستان " منصوبے کا مقصدغربت کی شرح میں کمی لانا 

.غربت  پاکستان کا بنیادی مسئلہ اور ہر حکومت کے لیے ایک چیلنج رہا ہے غربت ماہرین معیشت کے مطابق ''کسی انسان کے پاس ان وسائل کی کمی جو اس کو مناسب طور پر زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہیں 'بنیادی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے ا?مدنی کی کمی' کم تر معیار زندگی'انسانی ترقی کے لیے درکار مواقع کی کمی''۔زیادہ غربت اکثر حالات میں بھوک حتی کہ موت کا سبب بن جاتی ہے 'بعض اوقات غربت سماجی بے چینی کا سبب بھی بن جاتی ہے 'یہ سماجی بے چینی اکثر خطرناک حد تک پہنچ جاتی ہے اور حکومتوں کی تبدیلی کا سبب بھی بن جاتی ہے۔سماجی مساوات کے شعبے میں 'اڑان پاکستان' کی دستاویز کے مطابق غربت کی شرح میں 13 فیصد تک کمی لانا ہے۔ہمیں آگے جانا ہے تو ٹھوس بنیادوں پر کم سے کم5 برس کا اڑان پاکستان " منصوبہ درکار ہے اور اس کے لیے سخت گیر اصلاحات اور معیشت پر سیاست نہ کرنے کے عمل کو یقینی بنانا ہوگا۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 40 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق سنہ 2026 تک یہ شرح 40 فیصد سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔.’اڑان پاکستان‘ منصوبے کا مقصدغربت کی شرح میں  کمی لانا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کے معاشی حالات آج بین الاقوامی اداروں کی توقعات سے بڑھ کر کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ڈیفالٹ کے خطرات سے دوچار معیشت آج مستحکم ترین معیشتوں میں شامل ہے۔ مہنگائی 81 ماہ کی کم ترین 4.1 فیصد کی سطح پر ہے۔ دسمبر 2023 میں مہنگائی کی شرح 29.7 فیصد کی سطح پر تھی۔ مالی سال 25 کے پہلے 6 ماہ میں معیشت استحکام سے مضبوطی کا سفر طے کر چکا ہے۔مالی سال 25 کے پہلے 5 ماہ میں بیرون ممالک سے ترسیلات 15 ارب ڈالر کی مثالی سطح پر ہیں۔مالی سال 25 کی تکمیل تک ترسیلات 35 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچنے کی امید ہے۔پاکستان سٹاک ایکسچینج 22 سالوں کی سب سے زیادہ مثبت سطح پر ہے، جو پوری دنیا میں بہترین کارکردگی ہے۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج دنیا بھر میں دوسری اور ایشیاء￿  میں پہلی بہترین کارکردگی کی حامل سٹاک ایکسچینج ہے۔ سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر سے بہتر بنانے کے سفر میں 9 فیصد کی تاریخی کمی  کی ہے۔ پالیسی ریٹ کو 22 فیصد سے 13 فیصد کی سطح پر لایا گیا۔ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں برآمدات 10.52 اور درآمدات میں 6.11 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔ رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں برآمدات 10.52 فیصدبڑھیں جبکہ دسمبر 2024 میں سالانہ بنیادوں پر0.67 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں درآمدات 6.11 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔سٹیٹ بینک ا?ف پاکستان کی جانب سے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں ملکی شرح سود میں ایک فیصد کی کمی کی گئی۔ شرح سود کو 20.5 سے 19.5 پر کرنے کے اعلان کے دوران گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ ملک میں ’مہنگائی میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔  جون 2024 میں مہنگائی کی شرح میں کمی آئی   اور مالی سال 2024-25 کے بجٹ سے جڑے اقدامات کے اثرات توقعات کے مطابق تھے۔ ہ بیرونی کھاتہ مسلسل بہتر ہوتا رہا اور اس کی عکاسی اس چیز سے ہوتی ہے کہ قرضوں کی ادائیگیوں اور دیگر ذمہ داریوں کے باوجود سٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے دباؤ کو قابو میں رکھنے اور معاشی سرگرمیوں کو تقویت دینے کے لیے پالیسی ریٹ میں مزید کمی کی گنجائش ہے۔ اڑان پاکستان منصوبے میں عوامی شراکت داری کے لیے  پبلک، پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے بھی اس پروگرام کا حصہ ہیں۔ ’اْڑان پاکستان‘ کے تحت آئندہ پانچ اور طویل مدت میں سنہ 2035 تک کے معاشی اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ مثلاً ملکی شرح نمو میں اگلے پانچ سال میں چھ فیصد اضافے کا ہدف مقرر کیا ہے۔  آئندہ 10 سال میں یعنی 2035 تک مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا سائز ایک ٹریلین ڈالر تک لے جانے ہدف مقرر کیا ہے۔ اڑان پاکستان کا پہلا مقصد ایکسپورٹ یعنی برآمدات پر مبنی معیشت کو تشکیل دینا، دوسرا ملک میں ڈیجیٹل انقلاب لانا، تیسرا ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے نمٹنا ہے۔ چوتھا سیکٹر جہاں توجہ دی جائے گی وہ انرجی اور انفراسٹرکچر کا ہے جبکہ پانچواں ایکویٹی پر مبنی معاشرے کی تعمیر ہے۔ اڑان پاکستان کے تحت سب سے پہلے برا?مدات کو اگلے پانچ سال میں 60 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچانا ہے۔ اڑان پاکستان کے تحت جی ڈی پی کی شرح نمو کو آئندہ پانچ برس میں چھ فیصد تک لے جانا ہے۔ اڑان پاکستان کے تحت آئندہ پانچ برس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فری لانسنگ انڈسٹری کو پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کے لیے سالانہ دو لاکھ ا?ئی ٹی گریجویٹس تیار کیے جائیں گے۔ اڑان پاکستان منصوبے میں آئندہ پانچ برس میں گرین ہاؤس گیسز میں 50 فیصد تک کمی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے  قابل کاشت زمین میں 20 فیصد سے زائد اضافہ اور پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں دس ملین ایکٹر فٹ تک کا اضافہ کرنا ہے۔  توانائی کے شعبے میں قابل تجدید توانائی کا حصہ دس فیصد تک بڑھانا ہے۔  اس وقت ملک میں بڑے بڑے سرمایہ دار اس بات کو ترجیح دے رہے ہیں کہ بہتر منافع کے حصول کے لیے وہ اپنی رقوم کسی بڑے منصوبے پر خرچ کرنے کے بجائے بینکوں میں رکھیں۔ تاکہ اس سے بہتر منافع کا حصول ممکن ہو سکے۔ تاجر برادری سود کی شرح کو سنگل ڈیجٹ پر دیکھنا چاہتی ہے جس سے یقینی طور پر قرضے لینے کی حوصلہ افزائی ہو گی اور کاروباری لاگت میں کمی کی وجہ سے توسیع کو فروغ ملے گا۔ شرح سود میں کمی لانے سے یہ پیسہ پھر سے مارکیٹ میں ا?ئے گا اور کاروبار میں لگنے سے اس سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے کو ملتی ہے۔ہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل کمی دیکھنے میں ا? رہی ہے اور اسی کمی کی بدولت مانیٹری پالیسی کمیٹی کو شرح سود کم کرنے کا موقع مل سکا۔خیال رہے کہ پاکستان میں اگست کے اختتام پر سامنے ا?نے والے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 34 ماہ کی کم ترین سطح پر ا?ئی ہے اور یہ سنگل ڈیجٹ پر پہنچی ہے۔ روپے کی قدر میں استحکام بھی مہنگائی کو کم کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے کیوں کہ در حقیقت پاکستان میں بھاری مقدار میں اجناس باقاعدگی سے درآمد کی جاتی ہیں اس لیے روپے کی قدر میں استحکام براہ راست مہنگائی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیر رواں مالی سال کے پہلے ماہ یعنی جولائی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کی بلند ا?مد اور برا?مدی ا?مدنی میں نمایاں بہتری نے درا?مدات میں اضافے کے اثر کو کسی حد تک زائل کیا اور جاری کھاتے کے خسارے کو 20 کروڑ ڈالر تک محدود رکھنے میں مدد دی۔عالمی بینک کی طرف سے پاکستان میں غربت 39.3 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جس میں نچلی درمیانی آمدنی والے غربت کی شرح 3.2 امریکی ڈالر یومیہ ہے اور 78.4 فیصد اوپری درمیانی آمدنی والے غربت کی شرح 5.5 امریکی ڈالر یومیہ، مالی سال کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 22  فیصد  غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے  
  غربت میں کمی کا رجحان جیسا کہ 1980 کی دہائی کے دوران دیکھا گیا تھا، 1990 کی دہائی میں ناقص وفاقی پالیسیوں اور بدعنوانی کی بدولت اس کے برعکس ہوا۔  اس رجحان کو "غربت کا بم" کہا جاتا ہے۔ 2001 میں، حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے عبوری غربت میں کمی کی حکمت عملی کے کاغذات کی تیاری میں مدد کی جو ملک میں غربت کو کم کرنے کے لیے رہنما اصول مانا جاتا ہے۔  پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزارت منصوبہ بندی اور ترقی کی طرف سے پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق، تقریباً 24.3 فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جو 55 ملین افراد پر مشتمل ہے۔ پاکستان کا انسانی ترقی 189 ممالک میں سے 154 نمبر پر ہے۔ یمن اور افغانستان کے بعد پاکستان کا انسانی ترقی کااشاریہ ایشیا میں سب سے کم ہیپچھلی دہائی کے دوران، غربت کے خاتمے کے کئی پروگراموں نے بہت سے غریبوں کو حصہ لینے اور اوپر اٹھنے میں مدد کی۔ تاہم عالمی مالیاتی بحران اور افغانستان پر قبضے جیسے دیگر عوامل نے پاکستانی ترقی کو متاثر کیا ہے۔ پاکستان میں تاریخی طور پر غربت دیہی علاقوں میں زیادہ اور شہروں میں کم رہی ہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے کل 40 ملین میں سے 30 ملین دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔  دیہی علاقوں میں غربت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ملک کے شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان آمدنی میں فرق زیادہ نمایاں ہو گیا۔ اس رجحان کو دیہی اور شہری علاقوں میں معاشی واقعات کے غیر متناسب اثرات سے منسوب کیا گیا ہے۔ پنجاب میں بھی صوبے کے مختلف خطوں کے درمیان غربت میں نمایاں درجہ بندی ہے۔1973کے آئین کا پہلا باب بنیادی انسانی حقوق پر توجہ دلاتا ہے، جہاں کچھ ذمے داریاں اگر عوام کی ہیں تو اس سے بڑھ کر کچھ بڑی ذمے داریاں ریاست کی بھی ہیں اور اسی بنیاد کو ریاست اور شہریوں کے درمیا ن عمرانی معاہدہ کہتے ہیں۔جب کوئی بھی ریاستی نظام معاشرے میں موجود تمام افراد کے مقابلے میں ایک طبقاتی تقسیم کا شکار ہو اور اس کی ترجیحات میں طاقت ور طبقات شامل ہوں تو غریب طبقات میں محرومی کے احساسات پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی   رپورٹ کے مطابق ملک میں 39.5فیصد لوگ خط غربت کی بنیاد پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں  یعنی ایک انسان کو زندہ رہنے کے لیے جو بنیادی ضروریات درکار ہیں وہ اسے حاصل نہیں رپورٹ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ملک میں تعلیم اور صحت سمیت لوگوں کو اپنے معیار زندگی کے تناظر میں محرومی کا سامنا ہے

ای پیپر دی نیشن