احساس

اہلِ دانش فرماتے ہیں کہ رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں۔ احساس ہو تو پرائے بھی اپنے اور احساس نہ ہو تو اپنے بھی پرائے۔ یقین جانیے اس قول کی صداقت کا ا±س وقت یقین ہو چلا جب میرے بہت سے قارئین نے پچھلے دو ہفتوں سے میرے لکھے مضمون کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے ای میل کے ذریعے میری غیر حاضری کے متعلق اپنی فکر کا اظہار کیا اور مجھے یہ احساس دلایا کہ رشتے صرف خون کی بنیاد پر ہی استوار نہیں ہوتے بلکہ جب ایک دوسرے کے متعلق احساس جاگ جائے تو پھر رشتے خون سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔محترم اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ فاتحہ لوگوں کے مرنے پہ نہیں احساس کے مرنے پہ پڑھنی چاہیے کیونکہ لوگ مر جائیں توصبر آ جاتا ہے مگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے محسنِ انسانیت حضرت محمد نے جس فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی ا±سکا طرہ امتیاز بھی یہی تھا کہ اس معاشرے میں ہر فرد کا دوسرے فرد کے متعلق احساس زندہ تھا اور آج اگر ہم معاشرتی بگاڑ کا رونا رو¿ رہے ہیں تو ا±سکی بنیادی وجہ بھی اس احساس کی عدم بیداری ہے۔ ان دو ہفتوں میں کئی ایسے موضوعات سامنے آئے جو قلم آرائی کی دعوت سمیٹے بیٹھے تھے ان موضوعات میں سرِفہرست وہ ڈیزائنڈ ایونٹس ہیں جو پاک فوج کو متنازعہ بنانے کیلئے مرحلہ وار کھیلے جا رہے ہیں ان میں سندھ میں رینجرز اختیارات کا مسئلہ، ایم کیو ایم کی قیادت کے خلاف ایک ایسے مقدمے میں ایف آئی آر کا اندراج جسکا وقوعہ اور کسی حد تک ساری پلاننگ بیرونِ ملک ہوئی ہو اور ہندوستانی وزیرِاعظم کی بغیر پیشگی اطلاع آمد یہ وہ تمام ایشوز ہیں جو سیر حاصل گفتگو کے طلبگار تھے۔

یہ حقیقت کسی سی ڈھکی چھپی نہیں کہ پچھلے ایک سال سے ضربِ عضب کے نتیجے میں اس ملک کے باسیوں کو امن کی وہ سانسیں نصیب ہو رہی ہیں جن کیلئے وہ پچھلے پندرہ سالوں سے سسک رہے تھے لہذا جو اغیار پاکستان کو تباہ دیکھنا چاہتے ہیں ا±نکی کوشش ہے کہ وہ کسی بھی طرح کراچی میں امن قائم نہ ہونے دیں ا±نھیں پتہ ہے کہ پاکستان میں فوج وہ واحد ادارہ ہے جو پاکستان کی سلامتی کا ضامن ہے سو دن رات ا±نکی یہ کوشش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس ادارے کو متنازعہ بنا کر اِسکے جوانوں کا مورال ڈاو¿ن کریں سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ میں رینجرز اختیارات کے سلسلے میں تمام سیاسی جماعتیں اپنے طور جو کھیل کھیل رہی ہیں کیا ا±سکے نتیجے میں اس ملک کے آئینی اداروں میں ٹکراو کی کیفیت پیدا نہ ہو گی اور ایسی صورت میں بچاو کا کوئی راستہ باقی رہ جائے گا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی بھی ادارہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہ کرے اس مسئلے کی نزاکت اپنی جگہ لیکن جن صاحب عقل لوگوں نے عمران فاروق قتل کیس میں جو ایف آئی آر درج کرائی ہے ا±سکے قانونی پہلو ایک طرف ا±ن سے سادہ سا سوال کیا آپ کا عدالتی نظام دنیا میں وہ نیک نامی رکھتا ہے جو برطانیہ کے عدالتی نظام کو حاصل ہے خصوصاً ا±ن حالات کے تناظر میں جب سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی عقل کے اندھوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ دنیا میں کہیں بھی ڈبل ٹیکسیشن اور ڈبل ٹرائل نہیں چل سکتے ٹیکسیشن فرسٹ پورٹ ا±ف لینڈنگ اور ٹرائل ہمیشہ فرسٹ ایف آئی آر پر ہی ہوتا ہے ذرا گہرائی سے دیکھیں کہیں اس مقدمے کا مقصد یہ تو نہیں کہ جہاں پر ایک طرف دفاعی اداروں کو متنازعہ بنانے کی حجتیں نکالی جا رہی ہیں وہیں پر عدلیہ کو بھی متنازعہ بنا کر نادیدہ قوتوں کے ترتیب دیئے کھیل کی تکمیل کیلئے راہ ہموار کی جائے۔
رہی بات ہندوستانی وزیراعظم کے بغیر کسی پیشگی اطلاع پاکستان آمد تو صرف اتنا عرض ہے کہ یہ ملاقات ہندوستان اور پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر کا کمال ہے جنکی ورلڈ بنک کیساتھ یہ کوشش ہے کہ اقتصادی راہداری روٹ کے برابر بھارت اور پاکستان کے درمیان سافٹ بارڈر قائم کر کے کلکتہ سے کابل تک تجارت کیلئے ایک سڑک تعمیر کی جائے اس سلسلے میں ورلڈ بنک واہگہ بارڈر پر دونوں طرف ٹرمینل تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور اس سلسلے میں کافی کام بھی ہو چکا ہے انشاءاللہ اس موضوع پر پھر کسی مضمون میں تفصیلی گفتگو ہو گی سرِدست سوشل میڈیا پر کسی دوست نے ایک چارٹ مرتب کیا ہے ا±سکی تفصیل آپ بھی جانیے: ۔
چھوٹا خاندان میاں بیوی اور 2 بچے
روزانہ گھر خرچ ملاحظہ فرمائیں
گھی آدھا کلو 90 روپے ‘ چینی 1 پاﺅ 17 روپے‘ آٹا ڈیڑھ کلو 75روپے ‘ پتی/ چائے 30 روپے ‘ سبزی / دال
100روپے ‘ دودھ 2 کلو 150 روپے ‘ صابن ۔ سرف 25روپے ‘ مصالحہ جات وغیرہ 15روپے ‘
ٹوٹل: 502 روپے x 30 دن = 15,060 روپے
گیس بل ماہانہ: 500 روپے ‘ بل بجلی: 1500 روپے ۔ ان اخراجات میں اس خاندان کیلئے جوتی، کپڑا، میڈیکل، گھر کا کرایہ۔
فروٹ، برتن اور گھر کیلئے باقی اشیاہ شامل نہیں ہیں۔
دکھ، سکھ، شادی، غمی، ان سب کیلئے اس خاندان کے پاس وسائل کہاں سے آئیں جبکہ ماہانہ آمدن 12,000 روپے سے بھی کم ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں جس انسان کی سانس نکل جائے وہ زندہ نہیں رہتا اور جس انسان سے احساس نکل جائے وہ انسان ہی نہیں رہتا اس ساری تفصیل کو جاننے کے بعد اور صاحب اختیار لوگوں کی بے حسی جو ا±نکے فیصلوں سے نظر آتی ہے ا±نکے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن