ووٹ کی شرعی حیثیت

شرعی نقطہ نظر سے ووٹ کی چار حیثیتیں ہیں: پہلی حیثیت : شہادت (گواہی) کہ ووٹ دینے والا ووٹراس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جس کے حق میں میں نے گواہی دی ہے یعنی جس کو ووٹ دیا ہے وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح سے انجام دے گا۔ اگر گواہی جس کے حق میں دی جاری ہے وہ اس کی صلاحیت نہیں رکھتا اور پھر بھی اس نے اس کے حق میں گواہی دی تو یہ گواہی جھوٹی ہوگی۔ اس کی سخت و عید حدیثوں میں آئی ہے۔ دوسری حیثیت :ووٹ دینے والا اپنے امیدوار کی سفارش کرتا ہے کہ میں اس کی سفارش کرتا ہوں کہ یہ امیدوار قابل ہے اور اس کو کامیاب بنایا جائے۔ قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جو شخص سفارش کرے اچھی بات میں ، اس میں اس کو بھی حصہ ملے گا اور جو بری بات میں سفارش کرتا ہے اس پر اس میں سے بارو بوجھ ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔(سورہ النسائ)  تیسری حیثیت:مشورہ سے حکومت کا قیام اور امور مملکت کو انجام دینا اسلام کا طرز امتیاز ہے، اس سلسلے میں اسلام کا نقطہ نظر یہ کہ ارباب حل و عقد اپنا نمائندہ و نائب منتخب کریں، اللہ تعالیٰ نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہم امور میں صحابہ کرام ؓ سے مشورہ لینے کا حکم دیا چنانچہ خلافت راشدہ میں اکابر صحابہ کرام ؓکی ایک مجلس شوریٰ تھی،جسمیں اہم امور بحث و مباحثہ کے بعد طے پاتے پھر اس کا نفاذ عمل میں آتا۔اس اعتبار سے حق رائے دہی سے استفادہ کرتے ہوئے ووٹرس کو چاہیے کے ایسے امیدوار کو ووٹ دے جو باصلاحیت اور قوم و ملت اور غوری ٹاؤن کا ہمدرد اور ان کیلئے مفید ہو۔ چوتھی حیثیت: یعنی ووٹر اپنے امیدوار کو ا پنے معاملات میں وکیل بناتا ہے،جیسے کوئی شخص کسی وکیل کو اپنے کسی کیس میں وکیل بناتا ہے، جب اپنے کسی ذاتی معاملے میں وکیل بناتا ہے تو جس طرح ایک اچھے قابل ، دیانتدار وکیل کو تلاش کر کے اپنے مخصوص معاملے کو طے کرتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ فکر انتخابات کے موقع کرنی چاہئے، لہٰذا عام وکالت کی وجہ سے نفع و نقصان صرف اسی شخص کی حد تک محدود رہتا ہے لیکن انتخابات میں ووٹر کی وکالت کا نفع و نقصان پورے ٹاؤن کو پہنچنے کا اندیشہ ہو گا ۔ اگر کسی نا اہل کو وکیل بنایا گیا تو اس کی وجہ سے پورے ٹاؤن کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اسی کے حصہ میں آئے گا۔ لہٰذا انتخابات میں اہلیانِ غوری ٹاؤن والو کو زیادہ ذمہ داری کے ساتھ ووٹ دینا ہوگا۔ہم بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ  میرے ایک ووٹ سے کیا ہوگا اور اگر میں نے ووٹ نہ دیا تو کیا بگڑ جا ئے گا ،یہ خیال بھی درست نہیں. اللہ تعا لیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ 
"شہادت (گواہی )کو نہ چھپاؤ اور جو شخص اسکو چھپا تا ہے اس کا دل گناہ گار ہے" 
اس سے معلوم کہ وو ٹ ڈالنا دینی فریضہ ہے اور اس سے لاپر وائی کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اچھے لو گو ں کے مقابلے میں غلط، شرپسند، ظلم وتشدد ،مجر مانہ سا زشو ں کے مرتکب لو گ منتخب ہو کر اس ٹاؤن کے نظام اور نظریات کو بگاڑ کر رکھ دیں گے لہٰذا غوری ٹاؤن کی فلاح و بہبود اور بہترین مستقبل کے لئے ہمیں ہر لحاظ سے ووٹ کا صحیح استعمال کرنا ہو گا، شریعت میں گوا ہی بیچنا حرام ہے ۔بعض علاقوں میں ووٹ بیچا جا تاہے یہ انتہائی غلط اور غیر اسلامی عمل ہے۔ اس حرکت سے بچنے اور بچا نے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے ۔
(رانا عبدالقیوم ایڈووکیٹ صدر، فیز فور اے ،غوری ٹاؤن ،اسلام آباد)

ای پیپر دی نیشن