آبی بحران : پاکستان کے بنجر ہونے کا خطرہ




ملک میں گرمی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئر کے پگھلنے کی پیشگوئی کی جا رہی ہے، اور اس کے نتیجے میں نئی جھیلیں بننے کا بھی امکان ظاہر کیا گیا ہے ، یہ عمل بیک وقت فائدہ مند اور نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے ، ممکنہ فوائد میں گلیشیئر کے پگھلنے سے پانی کی دستیابی میں اور دریائوں میں پانی کی مقدار میں اضافہ ہوگا ،جو خاص طور پر خشک سالی کے دوران پانی کی قلت کو کم کر سکتا ہے ، نیز پانی کی بہتات زرعی پیداوار کو سہارا دے سکتی ہے ، جو کہ پاکستان جیسے زرعی ملک کیلئے اہم ہے ، نئی جھیلیں ذخیرہ آب کا کام دے سکتی ہیں جو پانی کی قلت کے مسئلے کو کم کرنے میں مددگار ہوگا۔
ممکنہ خطرات میں گلیشیائی جھیل کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب سے اچانک پانی کے اخراج سے قریبی آبادیوں کیلئے سیلاب کا خطرہ بن جائے گا ، اگر گلیشئر تیزی سے پگھلتے رہے تو یہ طویل مدتی پانی کے بحران کا باعث بھی بن سکتے ہیں ، اور اگر گلیشیئر کے پانی کا بہائو غیر متوقع انداز میں کم یا زیادہ ہو تو ہائیڈروپاور پروجیکٹس متاثر ہو سکتے ہیں۔
ملک میں بارشوں کی کمی کے امکان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے محکمہ موسمیات نے ملک کے تین صوبوں میں خشک سالی کے خدشے کا اظہار کیا اور تنبیہ جاری کی کہ سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے زیریں میدانی علاقوں میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے ، کیونکہ ملک کے جنوبی حصوں میں خشک موسم کا دورانیہ 200 دنوں سے بھی زیادہ رہا اور مارچ میں ملک کے جنوبی حصے میں درجہ حرارت معمول سے دو تین سینٹی گریڈ زیادہ رہا ، محکمہ موسمیات کی جانب سے تنبیہ کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ( ارسا) نے فیصلہ کیا ہے کہ اپریل کے مہینے میں صرف پینے کیلئے پانی کی تقسیم کی جائے گی۔
اپریل میں پینے کیلئے پانی کی تقسیم کے بعد کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ارسا فیصلہ کریگی کہ خریف کی فصل کیلئے پانی کی دستیابی کو کیسے ممکن بنایا جائے، کیونکہ ارسا کے مطابق اپریل کے مہینے میں فراہم کیا جانے والا پینے کا یہ پانی چالیس فیصد کم ہوگا ، جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ملک کے جنوبی حصے کو خشک سالی کا سامنا ہے، ایک طرف تو پانی کی کمی کا واویلا کیا جاتا ہے تو دوسری طرف اس کے ناقص انتظام کی وجہ کو محسوس ہی نہیں کیا جاتا ، جو کہ 200 سال پرانا دریائی اور نہری نظام ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے ہم آہنگ نہیں ، بارشوں کی کمی کی صورت میں اس نظام کی بہتری شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔
دریائوں میں پانی کی کمی تو ظاہری ہے لیکن زیر زمین پانی کی سطح میں بھی خطرناک حد تک کمی ہوتی جا رہی جس کی شرح انتہائی تشویشناک صورتحال کی نشاندہی کر رہی ہے ،پاکستان کونسل فار ریسرچ آن واٹر ریسورسز ( PCRWR)کے مطابق پچھلے آٹھ سال میں زیر زمین پانی کی سطح میں 5.66 فیصد کمی واقع ہوئی ہے ، خاص طور پر پنجاب میں 22.84 فیصد علاقے مکمل طور پر زیر زمین پانی سے محروم ہو چکے ہیں جب کہ 36.17 فیصد علاقے اس حد کے قریب پہنچ رہے ہیں ، اسکے علاوہ خیبر پختونخواہ میں 32.96 فیصد علاقے پہلے ہی زیر زمین پانی سے محروم ہیں اور 41.49 فیصد علاقے محرومی کی حد کو چھو رہے ہیں ، سندھ اور بلوچستان میں زیر زمین پانی کا مسئلہ قدرے کم سنکین ہے ، جہاں صرف 0.03 فیصد علاقے مکمل طور پر زیر زمین پانی سے محروم ہیں اور 0.39 فیصد علاقے اسکے قریب ہیں۔
مجموعی طور پر پاکستان میں زیر زمین پانی کی سطح میں سالانہ 0.12 سے 0.33 میٹر تک کمی دیکھی گئی ہے ، جو پانی کے وسائل کو دیرپا محفوظ رکھنے اور غذائی ضروریات کو یقینی بنانے کیلئے سنگین خطرہ ہے ، یہ اعدادو شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کو زیر زمین پانی کے استعمال کے حوالے سے فوری اور موثر اقدامات کی اشد ضرورت ہے ، تاکہ مستقبل میں پانی کی قلت اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے بچا جا سکے۔
غیر متوازی پانی کے استعمال اور زراعت میں زیادہ پانی کی طلب زیر زمین پانی کی سطح کو تیزی سے کم کرنے کا موجب بن رہی ہے ، جدید آبپاشی کے طریقوں کو اپنانے کے بجائے پرانے اور روائتی طریقے جیسا کہ نہری نظام پر انحصار کیا جاتا ہے جو پانی کے ضیاع کا باعث بنتا ہے ، پانی کے قدرتی ذخائر جیسے دریائوں اور جھیلوں میں پانی کی کمی نے زیر زمین پانی کی دوبارہ بھرائی یعنی آبی ذخائر کی تجدید کے عمل کو شدید متاثر کیا ہے ، لہذا غیر قانونی ٹیوب ویل اور حد سے زیادہ نکاسی، آبی بحران پیدا کر کے پاکستان کو بنجر بنانے کے خطرے سے دوچار کر رہے ہیں ، فروری 2025 ء میں جاری کردہ ایک رپورٹ کیمطابق بلوچستان میں 27,437  سبسڈی یافتہ زرعی ٹیوب ویلز اور 10, 263 غیر قانونی زرعی ٹیوب ویلز موجود ہیں۔
اکتوبر 2024 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 127 ٹیوب ویلز کام کر رہے ہیں ، ایک تحقیق کے مطابق پنجاب میں پاکستان کے 93فیصد نجی ٹیوب ویلز موجود ہیں ، پاکستان میں معدنی پانی WATER  MINERAL  اور مشروبات بنانے والی بڑی کمپنیاں روزآنہ کی بنیاد پر زمین سے بڑی مقدار میں پانی نکالتی ہیں 2018 ء  میں سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق یہ کمپنیاں ماہانہ تقریباً 7 ارب لیٹر پانی نکالتی تھیں جو روزانہ کے حساب سے تقریباً 23 کروڑ لیٹر بنتا ہے ، یہ اعداو شمار 2018 ء کے ہیں ممکن ہے کہ موجودہ وقت میں پانی کی مقدار میں ہوشرباء اضافہ ہو چکا ہو گا ، کراچی میں پانی کی قلت کا فائدہ ٹینکر مافیا روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں گیلن پانی فروخت کر کے حاصل کر رہا ہے ، ایک محتاط اندازے کے مطابق قانونی ہائیڈرینٹس سے روزانہ 3.2 کروڑ گیلن (32 ملین گیلن )پانی ٹینکر مافیا بیچ رہا ہے۔
آبی بحران کا ممکنہ حل یہی ہے کہ معدنی پانی (منرل واٹر) کمپنیوں پر سخت ضابطے لاگو کئے جائیں تاکہ وہ مقررہ مقدار سے زیادہ پانی نہ نکال سکیں ، پانی کے متبادل ذرائع تلاش کئے جائیں اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے بنائے جائیں ، پانی کی ری سائیکلنگ اور بچت کے جدید طریقے متعارف کرائے جائیں اور پانی کے ضیاع کو کم کیا جائے اگر غیر قانونی ٹیوب ویلز اور ان کمپنیوں کی نگرانی نہ کی گئی تو مستقبل میں عام عوام کے لئے پینے کے پانی کا شدید بحران پید اہو جائے گا اور زیر زمین پانی کی مزید کمی سے ملک میں زراعت اور ماحولیاتی نظام بھی بری طرح متاثر ہو جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن