بیچارے غریبوں کی ایک اور عید گزر گئی 

گلزار ملک

  گزشتہ کئی سالوں کی طرح اس بار بھی رمضان المبارک اور عید الفطر ظالم مہنگائی اور حکومت کی بے عمل ناقص پالیسیوں اور انتظامیہ کی منافع خوروں اور مہنگائی پیدا کرنے والے ظالم مافیا سے ملی بھگت قائم رہی اور اس طرح اس بار بھی رمضان المبارک اور عید الفطر بیچارے غریبوں کی بے بسی میں گزر گئی 
 بہرحال عید تو ان کی بھی گزر گئی جن کے پاس دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں تھی۔ عید ان کی بھی گزر گئی جنہوں نے ظالم مہنگائی کی چکی میں پس کر رمضان المبارک کے روزے رکھے اور دیگر عبادات کی۔عید ان کی بھی گزر گئی جن پر اس ظالم پولیس والوں نے بلا وجہ شہریوں کو تنگ اور پریشان کر کے ان بیچارے غریبوں سے مختلف بہانوں سے عیدی وصول کی عید ان کی بھی گزر گئی جن کے پاس اس مہنگائی کے دور میں نئے کپڑے اور جوتے اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے لینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ افسوس در افسوس ان بیچارے غریبوں کی طرف حکمرانوں کی کوئی توجہ اور ترس نہ آیا بہرحال عید تو ان بیچارے غریبوں کی بھی گزر گئی جن کا حال تک پوچھنے نہ کوئی آیا۔ کاش کوئی تو ہوتا جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور اقتدار سے طریقہ سیکھ لیتا تو شاید آج ہم بھی کسی اچھے اور اعلی مقام پر ہوتے غریب غریب نہ ہوتا بلکہ امیر تر ہوتا مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔
 ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ چہرے پر نقاب پہن کر کسی گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک بوڑھی اماں پریشان بیٹھی تھی تو عمر رک گئے غلام سے کہنے لگے اماں پریشان لگتی ہے آؤ اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا بات ہے۔ اماں کہنے لگی کہ مجھے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے شکایت ہے بوڑھی بھی ہوں بے اولاد بھی ہوں 25 دینار کا قرضہ بھی چڑھ گیا ہے گزشتہ تین دن سے کھانا بھی نہیں کھایا عمر نے میرا حال تک نہیں پوچھا آپ کہنے لگے کہ عمر کو کیا پتہ کہ تو اس حال میں ہے تو مدینے کی وہ بوڑھی عورت بھی جانتی تھی کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے تو نے کیا کہا عمر کو پتہ نہیں جاؤ عمر کو جا کر میرا پیغام دے دو کہ حکومت چھوڑ دے اس کے حوالے کرے جو غریبوں کا پتہ رکھ سکتا ہو۔
  تو اِدھر اْدھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لْٹا ؟
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے۔
آپ اس بڑھیا کے گھر سے دوڑ لگا کر باہر نکلے اپنے گھر سے پکا پکایا کھانا 25 دینار دو بوریاں اناج کندھوں پر اٹھا کر بڑھیا کی خدمت میں حاضر ہوئے غلام نے کہا کہ یہ بوریاں میں اٹھا لیتا ہوں جواب میں آپ نے کہا کہ کیا قیامت کے دن بھی تم میرا بوجھ اْٹھائے گا بڑھیا کو سب کچھ دینے کے بعد عمر اماں کے قدموں میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے اماں میری خاطر عمر کو معاف کر دے عمر بہت کمزور ہے اماں کہنے لگی میں نہیں معاف کروں گی میں جب قبر میں جاؤں گی مجھے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پوچھیں گے تو میں بتاؤں گی کہ عمر نے میرا حال نہیں پوچھا اس بات پر عمر رونے لگے اور بڑھیا سے منت کرنے لگے کہ اماں عمر کو معاف کر دے بالاآخر بڑھیا نے عمر کو معاف کر دیا آپ نے کہا کہ یہ بات مجھے لکھ کر دو پھر آپ نے تحریر لکھی بڑھیا نے دستخط کیے اسی موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم تشریف لے آئے اور کہنے لگے عمر آپ ادھر ہیں میں آپ کو وہاں ڈھونڈ رہا تھا اس بوڑھی عورت کو پھر پتہ چلا کہ ہائے میں تو سب کچھ عمر کو ہی کہتی رہی اس وقت آپ نے اس اماں سے فرمایا کہ نہیں اماں تم اپنے وعدے پر قائم رہو دستخط کر آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم سے گواہی کے دستک بھی لیے اور کہا کہ یہ رکا رکھ لو علی مجھے لگتا ہے کہ میں دنیا سے تجھ سے پہلے چلا جاؤں گا اس رکے کو میرے کفن میں رکھ دینا جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم مجھ سے پوچھیں گے کہ عمر کیا کر کے آئے تو میں بتاؤں گا کہ حضور ایک بوڑھی عورت ناراض تھی میں آتے ہوئے اسے بھی راضی کر کے آیا ہوں اس واقعہ میں حکمرانوں کے لیے ایک پیغام ہے.

ای پیپر دی نیشن