2024ء اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ رخصت ہوا اور نئے سال 2025ء کے بارے میں اندازوں اور اندیشوں کا چرچہ ہے۔ وطن عزیز ہی نہیں، عالمی سطح کے ستارہ شناسوں اور نجومیوں کی پیش گوئیوں کا چرچا قابل توجہ ہے، علم نجوم کے حوالے سے خوشخبری یہ ہے کہ عالیہ نذیر کہتی ہیں، یہ جنگوں کے خاتمے کا سال ہے۔ 2024ء میں جن جن کے ستارے گردش میں تھے ان کیلئے نئے سال میں آ سانیاں پیدا ہوں گی بلکہ 2025ء جیسا سال بہت دیر بعد نصیب ہو رہا ہے۔ اس سال میں حکومت ہو یا عوام۔ اگر مثبت انداز میں آ گے بڑھنے کی ٹھان لیں گے تو کامیابیاں قدم چومیں گی جبکہ اس میدان کے شہسوار سید اجمل رحیم کا دعویٰ ہے کہ جنوری فروری کے بعد پاکستان اور حکومت کامیابی کے نئے ریکارڈ بنائے گی۔ حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات بظاہر ناکام دکھائی دیتے ہیں لیکن معاملات پی ٹی آ ئی کے دو نکاتی ایجنڈے پر طے ہو جائیں گے کیونکہ عمران خان ایک بڑا یوٹرن لے کر نہ صرف رہائی کا راستہ بنا لیں گے بلکہ ملک چھوڑنے پر آ مادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ بعد ازاں اسے ڈیل، ڈھیل یا این۔ آ ر۔او قرار دیا جائے گا لیکن یہ واقعہ مارچ، اپریل میں رونما ہو سکتا ہے۔ ایک سوال پر اجمل رحیم کا کہنا تھا کہ ان تمام باتوں کے باوجود عمران خان کی اقتدار میں واپسی دور دور دکھائی نہیں دے رہی۔ تاہم وہ اپنے بچوں کے پاس برطانیہ جا سکتے ہیں اور فارمولا سب سے سستی،، خاموشی،، ہو سکتا ہے۔ مائنس عمران فارمولے کی بازگشت بڑی دیر سے سنی جا رہی تھی۔ اسی طرح تحریک انصاف پر پابندی کی دھمکی بھی موجود تھی لیکن چاچو کی حکومت یہ دونوں کام نہیں کر سکی اس لیے کہ عمران، فیض اور باجوہ،، ٹرائیکا،، نے سوشل میڈیا ،،بریگیڈ ،،کے جو جنگجو پیدا کیے تھے، ہزار کوششوں کے بعد بھی ان پر قابو نہیں پایا جا سکا اور عمران نے کمال مہارت سے اس ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے حکمرانوں کو مختلف امتحانات میں پھنسائے رکھا۔ تاہم اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عمران خان احتجاجی سیاست ،دھرنے، لانگ مارچ اور لشکر کشی سے تنگ آ چکے ہیں کیونکہ سب کچھ کر گزرنے کے بعد بھی معاملات سلجھتے نظر نہیں آ رہے لہذا وہ مینڈیٹ چوروں اور بے اختیار لوگوں سے بھی مذاکرات پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ یعنی تبدیلی آ نہیں رہی، آ چکی ہے۔ ہر محب وطن پاکستانی دعا گو ہے کہ معاملہ کسی طرح بھی حل ہو، معاملات میں بہتری آ نی چاہیے کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر مضبوط معاشی استحکام ناممکن ہے۔
بلغاریہ کی نابینا نجومی خاتون ،،بابا وانگا،، نے پیشنگوئی کی ہے کہ 2025ء صدر ٹرمپ، پیوٹن، برطانیہ کے بادشاہ چارلس اور وزیراعظم کیلئے پریشان کن ثابت ہوگا ٹرمپ، پیوٹن اور چارلس کیلئے صحت کے مسائل خطرناک حد تک بڑھ سکتے ہیں جبکہ صدر ٹرمپ کو صحت کے ساتھ ساتھ قانونی مسائل بھی لاحق ہوں گے، یہی نہیں امریکہ کو بحرلکاہل کے شمال مغرب میں ایک بڑے زلزلے کا سامنا پڑ سکتا ہے جو امریکہ کیلئے ایسی مشکلات کو جنم دے سکتا ہے جو صدر ٹرمپ سے سنبھالے نہیں جا سکیں گی۔ اسی طرح روسی صدر پیوٹن کے حوالے سے خطرناک پیشنگوئی یہ ہے کہ وہ مسائل اور بڑھتی ہوئی تنہائی کے ساتھ ریڑھ کی ہڈی اور اعصابی مسائل میں جکڑے جا سکتے ہیں۔ ان حالات میں وہ عوام کی نظروں سے بچنے کیلئے ،، کریملن،، میں زیادہ وقت گزاریں گے۔ اس طرح 2025ء روسی صدر کیلئے مشکل سال قرار پائے گا جبکہ نئے سال کے آ خر میں برطانوی وزیراعظم کو پالیسیوں کے باعث شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا،، بابا انکا ،،کا کہنا ھے کہ بادشاہ چارلس خیراتی اداروں کے فنڈز کے لیے،، شاہی املاک،، فروخت کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔ بادشاہ چارلس کینسر کے مریض ہیں لیکن اسی سال ان پر کوئی دوسری مہلک بیماری پریشانی کا باعث بن سکتی ہے ،دوسری جانب عالمی حالات و واقعات کی پیشنگوئی کرنے والے ،،ڈیرل انکا،، کا دعویٰ ہے کہ،، خلائی مخلوق،، دوسرے سیاروں پر رہنے والے انسانوں سے رابطہ کرنے کے لیے اس دنیا میں آ ئے گی۔ قبل ازیں سوشل میڈیا پر کئی فوٹیجز سے بھی ،،خلائی مخلوق،، کا دعویٰ کیا جا چکا ہے۔ روحانیت کے دعوے دار ،،کارل انکا،، نے اس سے پہلے،، نائن الیون،، کی پیشنگوئی کی تھی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو ایلیئنز،، خلائی مخلوق کی تصدیق ہو جائے گی اور یہ مخلوق حضرت انسان کو یاد دہانی کرائے گی کہ دنیا میں انسانوں کے علاوہ بھی کوئی موجود ہے اور انسان تنہا ہرگز نہیں، صاحبو۔۔۔ ہم اور ہمارے ہمصر ایسے خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے زندگی میں نہ صرف دنیا کو تیزی سے تبدیل ہوتے دیکھا بلکہ لاکھ اختلافات کے باوجود ہم نے حضرت انسان کو چاند پر قدم رکھتے دیکھا۔ اب اگر قسمت نے یاوری کی تو مالک کائنات کے فضل سے،، خلائی مخلوق،، بھی دیکھ لیں گے؟؟؟
ہمارے ہاں علم نجوم اور ستاروں کی چال جاننے والوں کی کمی نہیں، کچھ اصلی اور کچھ نقلی، ہمارے شیخ رشید اور منظور وسان جیسے بھی مستقبل کی خبر سنا دیتے ہیں اور عقیدت مندوں کیلئے پیر خانوں کی بھی گنجائش موجود ہے، ہم اس قدر ضیف الاعتقاد ہیں کہ مادر پدر آ زاد اور مجذوب لوگوں کو بھی ،،مسند ولایت،، بخش دیتے ہیں۔ ہم نے اپنے سامنے آ فتاب ربانی کی زبردستی کی بنائی مٹی کی ڈھیری کو ،پیر غیب علی شاہ،، بنتے اور وہاں سے عقیدت مندوں کو فیض یاب ہوتے دیکھا ہے، ہمارے سامنے ہی نہر کنارے ننگ دھڑنگ،، پیر صادق قریشی الہاشمی کا مقبرہ اور عظیم الشان عرس مبارک کی تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں، ایسے میں پیر صفدر شاہ بخاری المعروف،، پیر کاکی تاڑ،، تو منفرد دکھائی دیتے ہیں جن کا آ ستانہ شاہی محلہ لاہور میں تھا۔ اب وہ دنیا چھوڑ چکے ہیں لہذا انکے آ بائی علاقے میں مزار مقدس بڑے اہتمام کے ساتھ بنایا گیا ہے اور وہاں روایتی میلہ ٹھیلہ بھی ہوتا ہے۔ مجھے بالکل نہیں یاد کہ ان سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی؟ میں مدینہ العلم کا کلمہ پڑھتا ہوں اور باب العلم سے نسبت رکھتا ہوں اس لیے پیری مریدی سے دور ہوں‘میرے دوست اسد شہزاد نے’’ پیر کاکی تاڑ’’ کو‘‘ ریڈ لائٹ ایریا کا مکین قرار دیا جو کہ درست نہیں‘ وہ ایک زمیندار گھرانے کے چشم و چراغ تھے لیکن بہ ہوش و حواس وہ سب کچھ چھوڑ کر,, لاہوری ہیرا منڈی,, میں بسیرا کیے ہوئے تھے، خوش لباس ،خوش گفتار ایسے تھے جب وہ سفید لباس میں اجرک اور سندھی ٹوپی پہنے کسی بھی محفل میں وارد ہوتے تو ایک مرتبہ پوری محفل سہم جاتی، یہ ان کی منفرد شخصیت کا پہلا وار ہوتا تھا۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے خواتین و حضرات انہیں گھیر لیتے اور گھنٹوں ان کی لچھے دار گفتگو سنتے۔ ان کا تکیہ کلام ،،پتری ،،تھا اور اس محبت بھرے لہجے میں ان کی فتوحات ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، سینٹ اور قومی اسمبلی تک ہی نہیں، زندگی کے تمام شعبوں تک تھیں۔ حلقہ احباب خاصا وسیع تھا سارا دن شہر بھر میں پھرتے اور وعظ و نصیحت کرتے پائے جاتے۔ پھر شام ہوتے ہی اپنے آ ستانے پر براجماں ہو جاتے، میں نے ایک سے زیادہ مرتبہ شاہی محلے میں ان کی،، شان نزول ،،پوچھی تو ہر مرتبہ جواب ملتا،، سید زادے وہاں آ کر دیکھو۔۔۔ بابا کر کیا رہا ہے؟ میرا اصرار یہ ہوتا سید زادے تو آ پ بھی ہیں لیکن ،،بسیرا،، گندی گلی میں کیا ہوا ہے؟ لوگ اچھا تاثر نہیں لیتے‘ ان کا جواب ہوتا آ دم زادہ مطلب پرست ہے۔ جہاں گندگی ہو صفائی کی اسی جگہ ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے فقیری زمینداری چھوڑ کر اپنائی ہے، میں اللہ اور رسول کا نام وہاں لیتا ہوں جہاں کوئی تذکرہ کرنا پسند نہیں کرتا، شاہی محلہ بادشاہوں کی عیاشی کا اڈا تھا اور اب اسے ناسور سمجھنے والے بھی مال و زر کی طاقت سے،، موج مستی،، کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ سید زادے وہاں آ کر،،بابے،، کا جلوہ دیکھ، میں ہر بار وعدہ کرتا لیکن کبھی وہاں جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ایک روز میں نے پوچھا ،،بابا جی آپ کے خوبصورت نام صفدر علی شاہ بخاری کے ساتھ،، کاکی تاڑ،، کہاں سے آگیا۔ زوردار قہقہہ لگا کر بولے ،، جنرل ضیاء الحق کے آخری دور میں لوگ جہاد افغانستان کی فتح کے بعد دہشت گردی کی لہر سے تنگ تھے اور دور دور جمہوریت یا پارلیمانی نظام کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس وقت لوگ مجھ سے پوچھتے تھے ،،بابا جی،، آمریت سے جان چھوٹے گی کہ نہیں ؟میں نے ایک روز رات کی تنہائی میں،، مالک کائنات،، سے شکوہ کیا اور سو گیا دوسرے روز سے جیسے ہی مجھ سے کوئی سوال کرتا میرے منہ سے الفاظ نکلتے اس نے،، کاکی تاڑ،، لی ہے، جان چھٹ جائے گی اور پھر وہ حادثہ ہوا اور جنرل ضیاء الحق کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا، جس کے نتیجے میں الیکشن ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں، لوگ میری فقیری اور درویشی کے قائل ہو گئے لیکن میرا نام ،،کاکی تاڑ،، کیحوالے سے جانا اور پہچانا جانے لگا، پیر کاکی تاڑ،، اپنے آ ستانے پر موسیقی سے بیماروں کا علاج بھی کرتے تھے، جس کا مظاہرہ میں نے خود جا کر بھی ایک روز دیکھا ،بات لمبی ہو گئی یہ تذکرہ پھر کبھی سہی بہت دلچسپ ہے۔