سید مجتبی رضوان ....
یوم یکجہتی کشمیر منانے کا مقصد آزادی کی جدوجہد میں جہاں کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہے تو وہاں دوسری طرف عالمی برادری کی توجہ مقبوضہ کشمیر کے اندر جاری مظالم کی طرف دلانا ہے۔
5 فروری یوم یکجہتی کشمیر قریب آتے ہی آزاد جموں و کشمیر میں بھی جوش و خروش دیدنی ہوتاہے۔05 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کیا،یہ آرٹیکلز کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتے تھے، 5 اگست 2019 کو اٹھایا گیا بھارتی اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر میں جبر و بربریت کے سارے ہتھکنڈے آزما چکا، بھارت مظلوم کشمیریوں کی جدوجہدِ حق خودارادیت کو دبانے میں مکمل طور ناکام ہو چکا ہے۔
آرٹیکل 370 اور 35اے کی منسوخی کے ذریعے دنیا کو پیغام دیا گیا کہ بھارت ریاستی ظلم و استبداد پر یقین رکھتا ہے، بھارت کے مذکورہ اقدام کا مقصد مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا , ا?ئین میں تبدیلی کر کے کشمیریوں کے حقوق ختم کرنا بھارت کی خام خیالی ہے۔
کشمیری آزادی کے حصول کے لیے بے تاب ہیں اور اسی جدوجہد کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے بھارتی فوج نے کشمیریوں پر مظالم مزید تیز کر دیئے ہیں, بھارتی فو ج نے کشمیریوں کی زندگیوں کو اذیت ناک بنا رکھا ہے، کشمیر کا تنازعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دیرینہ تنازعہ ہے اور اس وقت یہ خطہ دونوں ممالک کے درمیان منقسم ہے۔یہ تنازعہ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت کا ہے جب برطانوی نوآبادیاتی حکومت نے برصغیر پاک و ہند سے علیحدگی اختیار کی اور دو نئی آزاد ریاستیں ہندوستان اور پاکستان قائم ہوئیں۔ جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست، جس پر ایک ہندو حکمران تھا، کو ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کا اختیار دیا گیا تھا۔ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے ابتدا میں خود مختار رہنے کا انتخاب کیا لیکن بالآخر کشمیریوں کے حق خود ارادی کا قتل کرتے ہوئے ہندوستان میں شامل ہو گیا۔
5 فروری کو، ہم یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں، جو طویل عرصے سے اپنےبنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں خطے میں جاری تنازعہ عالمی ضمیر پر داغ ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم کشمیری عوام کی حالت زار کی طرف توجہ دلائیں اور پرامن اور منصفانہ حل کے لیے کام کریں۔کشمیر کا تنازعہ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت کا ہے۔ جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست جس پر ایک ہندو حکمران تھا، کو ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کا اختیار دیا گیا تھا۔ حکمران، مہاراجہ ہری سنگھ نے ابتدا میں آزاد رہنے کا انتخاب کیا، لیکن بالآخر کشمیریوں کے حق خود ارادی کا قتل کرتے ہوئے ہندوستان میں شامل ہو گیا۔اس کے بعد سے، یہ تنازعہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے، دونوں ہی اس خطے کو اپنا دعوی کرتے ہیں اور کئی برسوں میں کئی جنگیں اور جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ پاکستان نے طویل عرصے سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقوق کی وکالت کی ہے، اور مسلسل اس بات کو برقرار رکھا ہے کہ خطے کے لوگوں کو حق خود ارادیت اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ کیونکہ جموں و کشمیر کے عوام کی اکثریت آزاد کشمیر کے ساتھ الحاق اور پاکستان کا حصہ بننا چاہتی ہے۔ دوسری جانب بھارتی حکومت جموں و کشمیر کے لوگوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور مظالم کا مسلسل ارتکاب کرتی چلی آ رہی ہے۔ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے ماورائے عدالت قتل، تشدد اور جبری گمشدگیوں کی رپورٹس کو دستاویزی شکل دی ہے، بھارتی حکومت بندوق کے زور پر لوگوں کی آواز کو دبانے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔کشمیر کی صورت حال ایک سنگین انسانی بحران ہے، جہاں کے لوگ مسلسل خوف اور جبر کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہ آزادی اور حقِ خود ارادیت کی جدوجہد صرف پاکستان اور بھارت کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقوق کا احترام کیا جائے اور خطے میں امن و استحکام بحال ہو۔ تقسیم ہند کے دوران میں جموں و کشمیر برطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست ہوتا تھا۔ جس کی آبادی 95 فیصد آبادی مسلم تھی۔ جب بھارت کو تقسیم کیا جا رہا تھا تو جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی وہ علاقے پاکستان اور جہاں ہندو اکثریت تھی وہ علاقے بھارت کو دیے گئے۔ پر کشمیر میں اکثریتی آبادی تو مسلمان تھے لیکن یہاں کا حکمران ایک سکھ تھا اور سیکھ حکمران چاہتا تھا کہ بھارت کے ساتھ ہو جائے۔ لیکن تحریک پاکستان کے رہنماو¿ں نے اس بات کو مسترد کیا۔ آج بھی پاکستان کا ماننا ہے کہ کشمیر میں مسلمان زیادہ ہیں اس لیے یہ پاکستان کا حصہ ہے کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور ہندوستان کے مابین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ پہلی جنگ 1947ء دوسری 1965ء اور تیسری 1971ء اور آخری چوتھی 1999ء میں لڑی گئی۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند گروپ پاکستان سے الحاق کے حامی ہیں ’پہلی بار 1931 میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن پورے ہندوستان میں منایا گیا۔ ’مہاراجہ ہری کے خلاف اٹھنے والی سیاسی تحریک کے ایک ناخوشگوار واقعے کے دوران 21 کشمیریوں کی موت کے بعد علامہ اقبال نے 14 اگست، 1931 کو ہندوستان بھر میں کشمیریوں سے یکجہتی کا دن منانے کی کال دی 28 فروری، 1975 کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل پر کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منایا گیاپانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے نام سے منانے کا آغاز 1990 میں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے کیااس وقت پنجاب میں نواز شریف وزیر اعلیٰ جبکہ مرکز میں بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں۔ قاضی حسین کی کال دینے کے بعد دونوں نے اس کال کی حمایت کی جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے اس وقت وزیراعلیٰ میاں نواز شریف کی مشاورت سے کشمیر میں عسکری تحریک کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس وقت وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور بے نظیر وزیر اعظم تھیں۔ ان کے وزیر ا علیٰ پنجاب سے سیاسی اور ذاتی شدید اختلافات تھے لیکن انہوں نے قوم کے وسیع مفاد اور کشمیریوں کی جدوجہد ا?زادی کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نواز شریف کے -5 فروری کو یکجہتی کشمیر کا دن منانے کی حمایت کی۔یوم ِ یکجہتی کشمیر کے لئے-5 فروری کا دن کیوںچنا گیا۔پہلی مرتبہ -5 فروری کو دن منانے کا سرکاری طور پر فیصلہ 2004zمیںوزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے وفاقی وزیر ِ امور کشمیر گلگت بلتستان ا?فتاب احمد خان شیرپاﺅ سے مشاورت کے بعد کیا۔ ا?س دن وزیر اعظم جمالی نے مظفر ا?باد میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور جموں و کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ ا?س دن سرکاری طورپر تعطیل بھی کی گئی
2004 سے اَب تک ہر سال -5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کا دن روایتی جوش خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس دن جلسے منعقد کئے جاتے ہیں اور کشمیریوں سے اظہار ِ یکجہتی کے لئے جلوس نکالے جاتے ہیں۔ملک بھر میں سرکاری دفاتر، اسکول اور کالجوں میں عام تعطیل ہوتی ہے۔جموں و کشمیر کونسل کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوتا ہے اور وزیر اعظم بذاتِ خود یا ا?ن کا نمائندہ اس اجلاس میں شریک ہوتا ہے۔ پاکستان کے بیرون ممالک تمام سفارت خانوں میں بھی تقاریب منعقد ہوتی ہیں پاکستان نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی ہمیشہ سیاسی، اخلاقی اور سفارتی سطح پر بھرپور حمایت کی ہے، پاکستان کا یہ اصولی موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل ہونا چاہئے، پاکستان نے بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر تسلط جموں و کشمیر کے آزادی پسند عوام کی جائز جدوجہد کی طویل عرصہ سے حمایت کی ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود مسئلہ کشمیر پر پوری قوم کا موقف ایک ہے۔ بھارت نے 1947 میں جموں وکشمیر پر ناجائز فوجی تسلط قائم کرکے کشمیری عوام کو محکوم بنایا اور وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا جائز حق خودارادیت دینے سے گریزاں ہے، ?اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کو اپنی قراردادوں میں کشمیری عوام سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں رائے شماری کا موقع دیا جائے گا۔ بھارت طویل عرصہ گزرنے کے باوجود کشمیریوں اور عالمی برادری کی خواہشات کا احترام کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا واحد، دیرپا اور مستقل حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ تنازع کشمیرکا حل اقوام متحدہ کی قرارداودں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے نکالا جائے۔کشمیری عوام بھارت کے تمام تر مظالم کے باوجود حق خود ارادیت کے حصول تک جدوجہدجاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں، مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل سے ہی برصغیر میں امن قائم ہوسکتا ہے۔
کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد کسی کے زیر اثر یا تابع نہیں ہے بلکہ وہ بھارت کے غیر قانونی فوجی تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد خود چلارہے ہیں، بھارت کے ان استبدادی ہتھکنڈوں اور ریاستی دہشت گردی کے باوجود کشمیر کے عوام اپنی مبنی بر حق جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان اور دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانی 5 فروری کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن اس عہد کے ساتھ منا تے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پاس کردہ قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی جائز جدوجہد کی ہر قیمت پر حمایت جاری رکھی جائے گی۔