دہشت گردی کی لہر میں گزشتہ کچھ عرصے سے اضافہ دیکھا جارہاہے چاہے وہ خیبرپختونخواہ کے جنوبی اضلاع ہوں، فاٹا کے پرانے علاقے ہوں، بلوچستان کے ساحلی یا وسطی علاقے،دہشت گردی کی اس لہر میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ افغانستان کی حکومت ہے جب سے طالبان کی افغانستان میں حکومت آئی ہے اس وقت سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بہت اضافہ ہواہے،پاکستان کی حکومت بار بار طالبان کی حکومت سے کہتی چلی آرہی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کریں اور دہشت گردوںکو اپنے ملک میں پناہ نہ دیں ان کے تربیتی مراکز کو وہاں سے ختم کریں یہ تو ایک بین الاقوامی ذمہ داری بھی ہے اور ایک ہمسایہ اسلامی ملک ہونے کے ناطے بھی ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کا ساتھ دیاہے اور افغانستان کی وجہ سے پاکستان نے ہمیشہ بہت نقصان اٹھایاہے۔ہماری معیشت کو ناقابل تلافی نقصان کے علاوہ ہماری قیمتی جانوںکا ضیاع ہواہے لیکن ہم نے ہمیشہ افغانستان کا ساتھ دیاہے، افغانستان حکومت پاکستان کی مدد کرنے اور پاکستان کے لاتعداد احسانات کا بدلہ دینے کی بجائے ان دہشت گردوںکوجو تحریک طالبان پاکستان یا بلوچستان کی نام نہاد علیحدگی پسند جماعتوںپرمشتمل ہے ہرقسم کا تعاون اور مدد فراہم کرتی ہے جوکہ بین الاقوامی امن وامان کے اصول وضوابط کے منافی ہے، وہ لوگ وہاںآزادانہ پھرتے ہیں اور پھر وہ لوگ پاک افغان بارڈرکے ذریعے بلوچستان اور خیبرپختوانخواہ ہو وہاں پہ داخل ہوتے ہیں، اور دہشت گردی کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔ پاکستانی فوج انتہائی جانفشانی اور بہادری سے ان لوگوں کے خلاف برسرپیکارہے، انشاء اللہ فتح پاکستانی فوج اور سیکورٹی فورسز کی ہوگی دہشت گرد مٹھی بھر اپنا ایجنڈا پچیس کروڑ عوام پہ کبھی بھی مسلط نہیں کرسکتے، جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے وہاں دہشت گردی کے واقعات عرصہ دراز سے رونما ہورہے ہیں ان میں براہ راست ہاتھ ہندوستان کا ہے جو دہشت گرد تنظیموں کوہرقسم کی معاونت جیسے مالی معاونت اور سٹریٹیجک فورس فراہم کرتے ہیں جس کے بلاتردید ثبوت پاکستان انٹرنیشنل کمیونٹی کے ساتھ شیئربھی کرتاہے تمام بین الاقوامی فورم پہ پاکستان ببانگ دہل ہروقت اظہارکرتاہے ہندوستان براہ راست پاکستان میں عدم استحکام کا ذمہ دار ہے بلوچستان کی علیحدگی پسند جو جماعتیں ہیں چاہے ان کے رابطے تحریک طالبان پاکستان سے بھی ملتے ہیںکیونکہ دونوںکا مقصد ایک ہے ملک دشمنوں کے کہنے پہ پاکستان میں برسرپیکارہیں،سیکورٹی فورسز پہ حملہ کرتے ہیں بے گناہ اور نہتے شہریوںکو نشانہ بناتے ہیں ملک کے اندر بالخصوص ایک نسل پرستی پہ مبنی تشددشروع کرنا چاہتے ہیں جب وہ بسوں سے شناختی کارڈ دیکھ کے پنجابی مسافروں اور مزدوروںکو اتارکر ان کا بیہمانہ قتل کرتے ہیں تو ان کا مقصد یہ ہے کہ پنجاب میں ایسی صورتحال پیدا ہو جس میں نفرت کا غبار اٹھے اورطبقاتی کے ساتھ ساتھ صوبائی انارکی بھی پیدا ہو اور انتشار کی آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے،یہ ایک ایسا خطرناک مقصد ہے کہ جس کیلئے کوئی بھی معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا، گزشتہ دنوں جعفرایکسپریس کو ہائی جیک کرکے اس پہ فائرنگ کرکے بی ایل اے کے دہشت گردوں نے ایسی انسانیت سوز مثال پیش کی ہے کہ دنیا میں ہرطرف اس کی مذمت کی جارہی ہے،مسافروںکو یرغمال بنا کرذہنی اورجسمانی تشدد کرنا ان کی ظالمانہ طریقے سے جانیں لینااس کے بعد یہ اس پہ فخرکرنا یہ کون سا مذہب اجازت دیتاہے، اسکے بعد ہماری سیکورٹی فورسز نے آپریشن کیا تو اس آپریشن کے دوران دہشت گردوں کے روابط ہندوستان کے لوگوں کے ساتھ ثبوت کے ساتھ ملے اور بہت سی اور بھی اینٹی فورسز پاکستان ہیں جو ان میں شامل ہیں ان کی نام نہاد بھی یورپین کیپٹل میں بیٹھے ہوئے ہیں وہاں بیٹھ کر یہ سازشیں بھی کرتے ہیں اس طرح کی دہشت گردی کے محرکات کے تانے بانے انہی سے ملتے ہیں،وزیراعظم پاکستان نے پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کیلئے کھلے ہیں مگر اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ تمام لوگ جو ریاست کے خلاف ہیں وہ سرنڈر کریں ریاست کے قانون کو مانیں اس کے بعد جائز مطالبات پہ ضرور بات چیت ہوگی، وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف نے اس واقعے کے بعد کوئٹہ کے دورہ کرنے کے دوران پوری دنیا کو واضح پیغام دیاہے کہ اینٹی پلاٹیزم فورس کو بھی اور ان دہشت گردوںکو بھی کہ وہ کسی بھی بھول میں نہ رہیں ریاست کی پوری طاقت ان دشمنوں کے خلاف برسرپیکارنظرآئے گی اور ان کو کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اس موقعہ پر وزیراعظم پاکستان نے ایک مرتبہ پھر قومی یکجہتی پہ زور دیا عالمی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا امید کی جانی چاہیے کہ ساری سیاسی جماعتیں اپنے تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر اس اہم مسئلے پہ ساتھ دینگے اور دنیا کو مثال دینگے کہ ہم متحد ہیں اس معاملے پرکسی قسم کا کوئی ابہام نہ رکھیں۔ ایک اور بدقسمت واقعہ اس دوران یہ ہوا کہ حسب معمو ل ایک سیاسی جماعت کے سوشل میڈیااکائونٹ سے ایک مرتبہ پھر فوج پہ تنقید کی گئی فوجی قیادت پہ تنقید کی گئی، ایسے مشکل حالات جو ملک کی بقاء کی جنگ اپنی جان ہتھیلیوں پہ رکھ کے کامیابی سے لڑ رہی ہے اسے پوری قوم کی حمایت حاصل ہے تو ایسے ملک دشمن عناصر کی طرف سے اپنے سیاسی مفادات کو پروان چڑھانے کیلئے فوجی قیادت اور فوج پہ تنقید کسی طور قابل قبول نہیں ہے، بالواسطہ یا بلاواسطہ جو بھی اس طرح کی سازش کرتاہے وہ ملک دشمنوں کا ساتھی ہی گردانا جائے گا اسے کوئی محب وطن نہیں کہہ سکتا۔
٭…٭…٭