ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف وار اور دنیا کا مستقبل

78 سالہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2 اپریل 2025 سے دنیا کیخلاف ٹیرف وار کا آغاز کردیا ہے۔انھوں نے اپنی اس مہم کو’’لبریشن ڈے‘‘ کے نام سے منسوب کیا ہے. وائٹ ہاوس کے روز گارڈن سے کئے گئے اعلان کیمطابق انھوں نے ایساقدم امریکی معیشت کی بہتری کیلئے اٹھایا ہے۔وہ امریکہ کو نئے سرے سے ایک امیر ملک دیکھنے کے متمنی ہیں 
ٹرمپ کی انتہائی جارحانہ ٹیرف پالیسی کا اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو آپ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ٹرمپ نے عالمی معیشت پر بم مار کر امریکہ کیلئے قومی معاشی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے دنیا بھر سے امریکہ کے اندر تمام درآمدات پر 10 فی صد ٹیکس عائد کرنے کے علاوہ 60 ممالک پر اضافی ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس میں کمبوڈیا پر49 فیصد ویتنام 46 فی صد، بنگلہ دیش37 فیصد،چین 34 فیصد ,تائیوان 32 فی صد، سوئٹزر لینڈ 31 فی صد، جاپان 24 فی صد، 27 ممالک کے بلاک یورپی یونین پر 20 فیصد اور پاکستان پر29 فی صد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔۔علاوہ ازیں تمام آٹو موبائیلز کی درآمد پر25 فی صد ٹیرف کے اطلاق کا اعلان کیا گیا ہے۔واضع رہے کہ ٹرمپ پہلے ہی فروری 2025 میں کینیڈا اور میکسیکو اور مارچ کے وسط میں چین سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پر 20 فیصد ٹیکس عائد کرچکا ہے
ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے دنیا بھر کے تمام ممالک نے شدید ردعمل دیا ہے۔یورپی یونین کے چیف وان ڈیر لین نے کہا ہے کہ وہ انسدادی اقدامات اٹھائیں گے۔جسکا مطلب یہ ہے کہ یورپی یونین جواباً وہسکی شراب،موٹر سائیکل ،جینز پینٹ اور زرعی مصنوعات پر ٹیکس عائد کر سکتی ہے برطانوی وزیراعظم سر کیر سٹارمر نے واضع کیا ہے کہ وہ دس فیصد عائد کردہ ٹیرف ادا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ برطانیہ کی معیشت کو متاثر کر سکتاہے۔آسٹریلیا کے وزیراعظم البانی نے کہا ہے کہ ٹرمپ آسٹریلیا کے باشندوں کیلئے ملازمتوں کا بندوبست کرے۔البانی نے مزید کہا ہے کہ وہ ٹیرف کیخلاف تنازعات کے حل کا آپشن استعمال کریں گے.چین نے بھی سخت ردعمل دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ ٹیرف واپس لے بصورت دیگر جوابی کارروائی کرتے ہوئے چین بھی امریکی مصنوعات پر ٹیرف عائد کر سکتا ہے ان مصنوعات میں کینولہ ، آٹو موبائیلز، سویا بین، کوئلہ،کارن، کاٹن،کروڈ آئل،اور الیکٹرونکس کی اشیا شامل ہیں۔ٹیرف وار نے کینیڈا کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔جواباً کینیڈا نے بھی سویابین،کارن اور بیف پر ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جسکے بعد امریکہ کیلئے کینیڈا کے اندر اپنی اشیاء فروخت کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی اور مختلف ممالک کی جانب سے سخت ردعمل نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے.؟کیا ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی امریکی معیشت کو مضبوط کر پائے گی یا کساد بازاری میں مزید اضافے کا باعث بنے گی؟ کیا ٹیرف پالیسی امریکہ کے بین الاقوامی تعلقات کو اس حد تک متاثر کر سکتی ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں سے الگ ہوکر تنہا بھی ہو سکتا ہے؟
کووڈ 2019 سے لیکر امریکی معیشت مسلسل کساد بازاری کا شکار ہے سال 2023 میں جی۔ ڈی۔پی گروتھ ریٹ 2.5 فیصد رہا جبکہ 2024 کے آخری کوارٹر میں یہ 2.0 فی صد رہ گیا۔ ایک رپورٹ کیمطابق موجودہ سال 2025 میں جی۔ڈی۔پی۔کی شرح 2.00 فیصد سے کم ہوکر 1.5 فیصد رہ جائیگی۔ وال سٹریٹ بینک نے اپنے کلائنٹس کو خبردار کیا ہے کہ آئندہ آنے والے 12 مہینوں کے اندر امریکی معیشت 20 فیصد سے بڑھکر 35 فیصد تک کساد بازاری کا شکار رہے گی۔امریکہ کی گرتی ہوئی معیشت اور ٹیرف کیخلاف مختلف ممالک کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ باآسانی کہا جاسکتاہے کہ مختلف ممالک کی کمپنیاں ٹیرف ادائیگی کے برعکس امریکہ کے اندر تجارتی لین دین سے گریز اختیار کر سکتی ہیں Moody Analytical کے چیف اکانومسٹ مارک ونڈی نے کہا ہے کہ امریکی معیشت کساد بازاری کا شکار رہے گی۔یورپین سنٹرل بینک کے صدر کرسٹینا لیگارڈ نے خبردار کیا ہے کہ دوسرے ممالک جو بھی اقدام اٹھاتے ہیں امریکہ کی معیشت پر اسکا منفی اثر ہوگا۔چین جاپان اور جنوبی کوریا مزید ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ان حالات میں چین سمیت مختلف ممالک کیساتھ امریکہ کی تجارت اگر رک جاتی ہے تو امریکی شہریوں کیلئے مختلف مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوجائیگا جسکے باعث امریکی جی۔ ڈی۔ پی میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔جبکہ دوسری طرف چین کی معیشت مزید بہتر ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ چین کے علاقائی بلاکس بشمول آسیان کے ملا کر کل29 ممالک کیساتھ فری ٹریڈ معاہدات ہیں جن میں پاکستان سنگا پور،نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا، کمبوڈیا،انڈونیشیا،جنوبی کوریا،لاوس فلپائن وغیرہ شامل ہیں جن کے ساتھ تجارت میں مزید تیزی آنے کے واضع امکانات موجود ہیں۔
 ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی خود امریکہ کیلئے کیونکر نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے ؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ امریکہ بنیادی طور پر ایک کنزیومر سوسائٹی ہے۔ اگرچہ جنگی سازوسامان ،ہوائی جہاز اور بڑی صنعتیں امریکہ میں کام کر رہی ہیں تاہم عام ضروریات زندگی میں استعمال ہونے والی تمام اشیا امریکہ درآمد کرتا ہے۔ساری دنیا کا مال امریکہ میں فروخت ہوتا ہے.ان حالات میں ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی امریکی معیشت میں بہتری لانے کی بجائے امریکہ کیلئے مزید خطرات کو جنم دے سکتی ہے۔60 ممالک پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کا مطلب ہے کہ 60 فیصد تجارت ختم بھی ہوسکتی ہے۔جس سے امریکہ کے اندر مہنگائی کی ایک نئی لہر آسکتی ہے جو ساری دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے کیونکہ جوابا ٹیرف عائد کرنے پر امریکہ نے پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ صورتحال دنیا کو ایک نئی معاشی جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔جس میں برکس ممالک کا رول مذید بہتر ہوکر سامنے آسکتا ہے۔جہاں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی یورپ بھی برکس کی طرف جھکاو کر سکتا ہے۔ 
ڈبلیو۔ٹی۔او معاہدات کی ایک اہم شق یہ بھی ہے ٹیرف کو کم سے کم کیا جائے۔ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی ان معاہدات کی بھی نفی ہے۔کیا ’’لبریشن ڈے‘‘ امریکی معیشت کی تباہی و بربادی کی بنیاد بھی بن سکتا ہے؟ ایسی رائے دینا قبل ازوقت ہے تاہم حالات کا رخ تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی اور اگر رد عمل شدید آتا ہے جیسا کہ نظر آرہا ہے تو امریکی معیشت کا متاثر ہونا لازمی ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ امریکہ کے عالمی برادری کیساتھ سفارتی تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں کیونکہ چین کا مقابلہ کرنے کی بجائے امریکہ نے ساری دنیا کیخلاف محاذ بنا لیا ہے جسکا ممکنہ نتیجہ یہ سامنے آسکتا ہے کہ آئندہ چل کر امریکہ اپنے اتحادیوں سے علیحدہ بھی ہو سکتاہے۔جسکے باعث دنیا نیو ورلڈ کے برعکس ایک نئے معاشی آرڈر کی طرف بڑھ سکتی ہے. دنیا کا معاشی نظام جس طرح سے چل رہا تھا۔آگے بڑھتا دکھائی نہیں دے رہاہے۔ اگر دنیا نئے معاشی آرڈر کی طرف بڑھتی ہے تو یہ امریکی چودھراہٹ کے ورلڈ آرڈر کا خاتمہ بھی ہوسکتاہے۔کیا امریکہ اور اسکے تھنک ٹینکس اتنی بڑھی سٹریٹجک غلطی کر سکتے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے؟؟

اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ… سفیر حق

ای پیپر دی نیشن