گزشتہ دو تین برسوں سے ماہ اکتوبر میں میں ایک کالم ’’ سموگ‘‘ اور ’’ آلودگی‘‘ کے بارے میں ضرور لکھتا ہو ں۔ ویسے تو آج تک تو ایسا ہو ا نہیں لیکن ’’اُمید ‘‘ پر دنیا قائم ہے۔ اکتوبر کا مہینہ اس لیے کہ ویسے تو سارا سال ہی لاہور اور پاکستان کی فضا انسانی صحت کیلئے خطرناک رہتی ہے لیکن اس مہینے میں ملک میں ’’ سموگ ‘‘ کا آغاز ہو جاتا ہے جو کہ اگلے ایک دو ماہ میں اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے سب کچھ اسی طرح اور اسی ترتیب سے ہوتا آ رہا ہے۔ جب سموگ اپنے عروج پر پہنچے گی تو میڈیا شور مچائے گا، سرکاری اداروں کی جانب سے بیانات جاری ہونگے ، ٹوئیٹر اور فیس بک اس بارے میں متحرک ہو گی اور اسکے بعد ہم کسی نئے سکینڈل میں کھو جائیں گے۔ یہ سب شور شرابا تو ان دو تین مہینوں میں ہی بپا ہوتا ہے لیکن در اصل صرف لاہور نہیں بلکہ سارے پاکستان کی فضا بارہ مہینے ہی شدید فضائی آلودگی کا شکار رہتی ہے۔ دنیا کے ممالک میں اوسط عمر دیکھی جائے تو پاکستان کا نمبر 150 ہے۔ ہماری یہ اوسط عمر دنیا کے بیشتر ممالک سے بیس پچیس برس کم ہونے کی وجوہات میں سرفہرست ہمارے ملک کی فضائی آلودگی ہے۔ فضائی آلودگی ماپنے کا ایک اہم پیمانہ ’’ ائیر کوالٹی انڈکس‘‘ یعنی AQI ہے۔ صفر سے 50 تک کا AQIصحت مند، 51 سے 100 تک کا درمیانہ، 101 سے 150 تک کا خطرناک اور غیر صحت مند، 151 سے 200 شدید غیر صحت مند اوراس سے زیادہ نہایت خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہم گزشتہ ہفتے کے اعداد و شمار دیکھیں تو لاہور کا AQI162، بہاولپور کا 145، کراچی139 ، پشاور 126، راولپنڈی 185، کوئٹہ 110 تک پہنچ چکا ہے۔ 3اکتوبر 2021ء کو لاہور تمام دنیا کے شہروں میں فضائی آلودگی کے لحاظ سے گیارہویں نمبر پر تھا۔ اگلے ماہ یہ پہلے دوسرے نمبر پر آ جائیگا۔اگر گزشتہ تین برسوں کی اوسط کی بات کریں تو پاکستان دنیا میں فضائی آلودگی کے حساب سے پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر تھا۔ ان اعداد و شمار کو بیان کرنے کا مقصد آپکو اس مسئلے کی سنجیدگی سے روشناس کروانا تھا کیونکہ نہ جانے کیوں ہم بحیثیت قوم اور ہمارے سرکاری ادارے اس مسئلے کی حقیقت ماننے کو تیار ہی نہیں۔ ہمارے ادارے اسے کبھی موسم اور کبھی کسانوں کی جانب سے کٹائی کے بعد فصلوں کو آگ لگانے کا انجام قرار دیکر عوام کو بہلائیں گے، تو کبھی اسے بھارتی کسانوں اور بھارتی حکومت کا ’’خفیہ ہتھیار‘‘ قرار دے کر اپنے عوام کی توجہ بٹانے کی کوشش کرینگے۔ حالانکہ UNFAO کے مطابق ان مہینوں میںہوائوں کا رخ بھارت سے پاکستان کی جانب نہیں ہوتا اس لیے اس آلودگی اور سموگ کو بھارتی پنجاب میں فصلوں کی باقیات کو جلائے جانے کا نتیجہ قرار دینا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
پاکستان میں فضائی آلودگی کے خاتمے کیلئے 2005 میں ’’پاکستان کلین ائیر ایکشن پلان ‘‘ (PCAP)کا آغاز کیا گیا تھا۔ لیکن اتنے برس گزرنے کے بعد بھی اس سلسلے میں کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ 2017 ء میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ایک ’’سموگ کمیشن‘‘ تشکیل دیا گیا جس نے تحقیق اور مشاہدے کے بعد مئی 2018ء میں اپنی سفارشات پیش کیں کہ کس طرح پاکستان میں سموگ اورآلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کسی سفارش پرآج تک عمل نہیں ہوا۔کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزشن (UNFAO) نے اپنے ایک پروگرام R-SMOGمیں تحقیق کر کے یہ رپوٹ جاری کی ہے کہ پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں سموگ کی وجوہات میں ٹرانسپورٹ کا حصہ 43%، صنعتوں کا 25%، اور زراعت کا 20% ہے۔ یعنی سموگ نہ تو موسم کی کارستانی ہے اور نہ کوئی سازش۔ اسکی وجوہات میںگاڑیوں کا دھواں، ناقص کوالٹی کا ایندھن، ٹرانسپورٹ کے کمزور انجن، صنعتی آلودگی، میونسپل اور صنعتی فضلے کا جلانا، خاص طور پر اینٹوں کے بھٹوں میں ربڑ، ٹائیروں اور موبل آئل کا جلایا جاناوغیرہ اہم ہیں۔ کوئلے اور تیل سے چلنے والے پلانٹ بھی اس سب میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ یہ سب ایسے عوامل ہیں کہ اگر ان پر قابو پانے کیلئے سارا برس اور سموگ پھیلنے سے قبل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹرانسپورٹ کا 43% حصہ کم کرنے کا سب سے آسان اور اہم طریقہ یہ ہے کہ ہم تمام شہروں میں ’’باعزت پبلک ٹرانسپورٹ‘‘ کو فروغ دیں لیکن آج تک کسی بھی حکومت نے اس بارے میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے آلودگی کے ساتھ ساتھ ایندھن کے استعمال میں بھی بہت کمی آئیگی، اور اس طرح پٹرول کی فروخت سے ہونیوالی حکومت کی کمائی بھی کم ہو جائیگی۔ غیر معیاری پٹرول و ڈیزل اور ناقص گاڑیوں اور بسوں کو بغیر ’’حقیقی معائینے ‘‘ کے مل جانیوالے ’’فٹنس سرٹیفکیٹ‘‘ اس سب میں اپنا حصہ الگ ڈالتے ہیں۔ صنعتی آلودگی کی بات کریں تو ہمارے کتنے صنعتی یونٹوں اور کوئلے اور تیل سے چلنے والے پاور پلانٹوں میں درحقیقت ’’ ٹریٹنٹ پلانٹ ‘‘ موجود ہیں جو عالمی معیار کیمطابق ان پلانٹوں کے اخراج سے فضا کو آلودہ ہونے سے بچاتا ہے؟ فضا تو فضا ہمارا تو پینے کا پانی تک آلودہ ہے۔ کچھ رپوٹوں کیمطابق پاکستان میں بچوں کی اموات میںسے ساٹھ فیصد آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
’’ بلین ٹری سونامی‘‘ کا دعویٰ اپنی جگہ، درختوں کی افادیت سے انکار نہیں لیکن یہ بھی ایک سائنسی حقیقت ہے کہ دنیا کی فضا میں موجود آکسیجن کا تقریباََ 70 فیصد حصہ درختوں سے نہیں بلکہ سمندروں میں موجود آبی پودوں سے آتا ہے۔ یعنی صرف درخت لگانے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ آلودگی پیدا کرنے والے عوامل کو کنٹرول کرنا سب سے زیادہ اہم اوعر ضروری ہے۔ اس سب کے سد باب کیلئے نیا قانون یا آرڈیننس لانے کی نہیں بلکہ صرف پہلے سے موجود وفاقی اور صوبائی قوانین پرسختی مگر ایمانداری سے عمل کروانے کی ضرورت ہے۔