بھارت کا خفیہ اثرورسوخ: مغربی جمہوریتوں کیلئے بڑھتا ہوا خطرہ

بھارتی وزیراعظم مودی کا اقتدار جہاں ایک طرف بھارت کے اندر بسنے والی اقلیتیوں کے لیے ایک بدترین دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا تو اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ہندتوا نظریات کو پروان چڑھانے کے لیے بھی تاریخ میں حکومتوں بالخصوص بیرون ملک مقیم بھارتیوں کا پیچھا کرتے رہیے گا ۔
ٹرانز نیشنل ریپریشن کی اصطلاح ان سرگرمیوں کو بیان کرتی ہے جہاں ایک ملک اپنی سرحدوں سے باہر رہنے والے افراد یا گروہوں کو دبانے، ڈرانے یا کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس زضمن میں بھارت پر الزام ہے کہ وہ کینیڈا اور دیگر ممالک میں رہنے والے سکھ کارکنوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔کینیڈا کی حکومت نے اسی سلسلے دوسری انکوائری رپورٹ جاری کی ہے،
 اس رپورٹ میں بھارت کی سیاسی مداخلت اور بین الاقوامی سطح پر دباؤ ڈالنے کی کوششوں کو بے نقاب کیا گیا ہے، خاص طور پر سکھ کارکنوں اور خالصتان تحریک کے حامیوں کو نشانہ بنانے کے معاملے پر۔ رپورٹ میں کمیونٹی سطح اور ریاستی ہدایت پر مبنی اقدامات دونوں کو واضح کیا گیا ہے۔اور بھارتی مداخلت کو کینیڈا کے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا گیا ہے ۔ بھارت نے سیاسی مداخلت، بین الاقوامی جبر، اور جمہوریت کو کمزور کرنے کی کوششوں کے ذریعے سے بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھایا ہے جس سے مغربی جمہوریتوں میں سنگین تشویش پیدا ہوئی ہے۔ یہ رپورٹس اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہیں کہ بھارت ریاستی سطح پر تارکین وطن کے ذریعے سے منظم آپریشن چلا رہا ہے تاکہ غیر ملکی سیاسی بیانیے کو تبدیل کیا جا سکے، اور عالمی سطح پر تنقید کرنے والوں کو خاموش کیا جا سکے۔ 
کینیڈا میں، بھارتی خفیہ اداروں اور سفارتی نیٹ ورکس نے سکھ کارکنوں اور خالصتان حامیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے خفیہ اپریشن کے ذریعے عوامی بیانیے کو تبدیل کرنے، کمیونٹی رہنماؤں کو ڈرانے، اور سیاسی سرگرمیوں کو دبانے کی کوششیں کی ہیں۔ انہی واقعات کی بنا پر بھارت کو کینیڈا کی جمہوریت کے لیے خطرے قرار دیا گیا ہے۔ یہ درجہ بندی عام طور پر ان آمرانہ حکومتوں کے لیے مخصوص ہوتی ہے جو عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بھارت کی کینیڈا میں مداخلت منظم اور کثیر الجہتی ہے جس میں سیاسی لابنگ، میڈیا کو متاثر کرنا، معاشی دباؤ، کارکنوں کی جاسوسی، اور غیر ملکی مخالف شخصیات کو دھمکیاں شامل ہیں۔ نریندر مودی حکومت نے کینیڈا کے انتخابی ماحول کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ پالیسی سازوں کو بھارت کے جغرافیاتی سیاسی مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے۔ ساتھ ہی، وہ سکھ اور کشمیری خودارادیت کی حمایت کرنے والی آوازوں کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 
بھارت کا ہندتوا نظریہ سرحدوں سے تجاوز کر رہا ہے، بیرون ملک سیاست میں اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے اور نسلی تقسیم کو ہوا دے رہا ہے۔ کینیڈا نے اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے سیاسی قیادت کی دوڑ میں شامل تین بھارتی نڑاد امیدوار، روبی دھالا، چندرا آریا، اور ویرش بنسل کو کینیڈا کی لبرل پارٹی کی قیادت کی دوڑ سے نااہل قرار د دیا ہے کینیڈا نے انتشار پسند نظریات سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو مسترد کر دیا، جس سے بھارت کی عالمی بیانیے کو بدلنے کی کوششیں بے نقاب ہو گئیں۔ کینیڈا میں بھارتی نڑاد امیدواروں کی نااہلی اس بات کا اشارہ ہے کہ بھارت تارکینِ وطن کمیونٹی کو قوم پرست ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ مبینہ ماورائے عدالت قتل سے لے کر سیاسی مداخلت تک، بھارت کی جارحانہ عالمی کارروائیاں مزید جمہوریتوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں، جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کینیڈا سے باہر، بھارت کی مداخلت برطانیہ اور امریکا تک پھیلی ہوئی ہے، جہاں اس نے تارکین وطن کو استعمال کرتے ہوئے ’’ہندوتوا‘‘ بیانیے کو فروغ دیا ہے، اور سیاسی لیڈروں کو اپنی مرضی پر چلنے پر مجبور کیا ہے۔ بھارت نے تارکین وطن کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، تاکہ اپنی قوم پرست خارجہ پالیسی کو آگے بڑھایا جا سکے اور مخالف آوازوں کو خاموش کیا جا سکے۔ کینیڈا کے انتخابی عمل میں مداخلت جمہوری خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہے۔ عالمی جمہوریتوں کو فوری ردعمل دینا چاہیے، قبل اس کے کہ انڈیا کے ہتھکنڈے دوسرے ممالک تک پھیل جائیں ۔ کیونکہ بین الاقوامی جبر کوئی الگ تھلگ سفارتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ’’ہندوتوا‘‘ سے متاثرہ ایک وسیع تر ایجنڈے کا حصہ ہے، جو عالمی سیاسی بیانیے کو بھارت کے مفاد میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ 
اب وقت اگیا ہے کہ مغربی جمہوریتوں کو سخت اقدامات کے ذریعے سے بھارت کے بڑھتے ہوئے غیر ملکی اثرورسوخ کے جال کو تباہ کرنا ہوگا، قبل اس کے کہ مزید ممالک متاثر ہوں۔ یہ صرف کینیڈا کی جنگ نہیں ہر وہ جمہوریت جو سیاسی اور شہری آزادیوں کو اہمیت دیتی ہے اسے بھارت کے بڑھتے ہوئے آمرانہ اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا ہوگا، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔

ای پیپر دی نیشن