ٹرمپ، زیلنسکی ٹاکرا اورتلخ حقائق

 گلوبل ویلج              

مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
قارئین!مجھے اپنی طلبہ سیاست کی شروعات کیے ہوئے چار عشروں سے زائد ہو چکے ہیں۔اس دوران میں نے ملکی سیاسی پلیٹ فارمزپر کارکن سے لے کر ایلیٹ سیاست تک طبع آزمائی کی ہے۔اور اپنے کیریئر کے دوران واشنگٹن میں وائٹ ہاﺅس ،پیرس میں پرائم منسٹر ہاﺅس ،لندن میں ٹین ڈاوننگ سٹریٹ اور جرمن میں چانسلر آفس اور یو این او کے آفسز، نیویارک اور جینوا میں اس وقت کی ٹاپ ڈپلومیٹ قیادت کے ساتھ ون ٹو ون اور ڈیلی گیشنز کو لیڈ کرنے کا موقع ملا ہے اور اپنے کیریئر میں ،میں نے صدر یاسرعرفات،جرمن چانسلر اینجلا مرکل اور سابق اسرائیلی صدر اور وزیراعظم شمعون پیریز ،یو کے پرائم منسٹر ٹونی بلیئر ،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان،بھارتی ملٹری و سول قیادت ،عراقی صدر صدام حسین ،جلال طالبانی،ترکی کے مشہور لیڈر اوے من اور کیوبا کے ریولوشن لیڈر فیڈرل کاسترو جیسے ڈپلومیٹ اور ورلڈ کلاس لیڈروں کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کی معیت میں اور ان کا خصوصی مشیر ہونے کے ناطے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا ہے۔میں نے اپنے سیاسی کیریئر کے دوران کہیں بھی ایسا واقعہ نہ خود دیکھا ہے ،نہ کسی سے سنا ہے جس طرح کے واقعات اٹھائیس فروری کو وائٹ ہاﺅس کے اوول آفس میں رونما ہوئے۔میرے تجزیے کے مطابق خود یوکرینی صدر زیلنسکی اس ملاقات سے قبل یہ طے کرکے آئے تھے کہ میں نے امریکن قیادت کو ٹف ٹائم دے کر ایموشنل بلیک میل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔یاد رہے ان کی اس خواہش کے پیچھے نیٹو کے ستائیس میں سے کم از کم بیس ممالک کا درپردہ ہاتھ ،ذہن اور خواہش کارفرما تھی۔یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور نائب صدر وینس کے بار بار ٹوکنے کے باوجود یوکرینی صدر توں تڑاخ پر اترتے نظر آنے لگے تھے۔جب صدر ٹرمپ نے انہیں بار بار یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ آپ میرے لیے کوئی ”ٹف بوائے “نہیں ہواور نہ ہی آپ کے پاس کوئی تاش کا پتا بچا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں ٹرمپ صاحب نے یوکرینی صدر کو کہہ دیا کہ آپ ہماری وجہ سے دکی پر بھی یکہ مارتے رہے ہیں۔اور اس کی قیمت 350بلین ڈالر امریکہ نے ادا کی ہے اور آپ کے پاس اب کوئی پتا نہیں بچا،اور آپ تیسری عالمگیر جنگ چھیڑ کرصرف اپنے اقتدار کو طوالت دینا چاہتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان الفاظ کے بعد یوکرینی صدر کو باضابطہ طور پر وائٹ ہاﺅس چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔اور وہ بڑی عجلت میں وہاں سے لنچ کیے بغیر اور شیڈول کے مطابق بعدازاں پریس کانفرنس سے مشترکہ خطاب سب کچھ ادھورا چھوڑ چھاڑ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ہوٹل روانہ ہو گئے۔تو معزز قارئین اس ایک واقعے نے امریکی صدر کے مشن، عزم اور پروگرام کو واضح کر دیا ہے کہ امریکہ اب صرف بین الاقوامی جھگڑوں میں پڑنے کی بجائے ”امریکہ فرسٹ“کا سلوگن لے کر چلنا چاہتا ہے۔جس سے بھارت ،اسرائیل اور پورا یورپ حالاتِ شاک میں ہے اور دوسری طرف دنیا بھر کے تمام آرمی ڈکٹیٹرز کو یہ وارننگ دی گئی ہے کہ اب آپ امریکن امداد اور چندوں پر اپنے ملک کی عوام کو یرغمال نہیں بنا سکتے۔میرا اپنا خیال ہے کہ پچھلے چند دنوں میں کافی لوگ اس بات کے پیچھے چھپے ہوئے مضمرات کو سمجھتے چکے ہیں۔
حالیہ برسوں میں مغربی ممالک میں قدامت پسند اور رجعت پسند عیسائی جماعتوں کا دوبارہ عروج دیکھنے میں آیا ہے، جو عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی، کینیڈا کے اونٹاریو میں کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی فتح، فرانس میں قدامت پسندوں کی جیت، اور جرمنی میں کرسچین یونین کا ابھرنا اس تبدیلی کی واضح مثالیں ہیں۔یہ رجحان اسرائیل کے لیے ایک بھیانک خواب ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ تاریخی طور پر عیسائی اور یہودی آپس میں شدید دشمن رہے ہیں۔ آج اگر یہ دونوں ایک ساتھ نظر آ رہے ہیں تو یہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی بنیاد پر ہے۔ جیسے ہی مسلمانوں کا معاملہ آتا ہے، عیسائی اور یہودی اکٹھے ہو جاتے ہیں، لیکن جب مسلمان الگ ہوں تو یہ ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں۔
ٹرمپ کی یوکرین پالیسی: کیا امریکہ مکمل طور پر الگ ہو چکا ہے؟ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار میں آتے ہی یوکرین کے لیے امریکی امداد تقریباً مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ صدر وولودیمیر زیلنسکی وائٹ ہاوس پہنچے لیکن وہاں کوئی خیر کی خبر نہ تھی۔ بائیڈن دور میں منظور شدہ اسلحے کی آخری کھیپ بھی روک لی گئی ہے،(کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کو خبر ہے زیلنسکی یوکرین کو دنیا میں دوسری یہودی ریاست کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، اور یہ وہ نکتہ ہے جسے ایک کنزرویٹو عیسائی طبقہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کیونکہ ایک اسرائیلی ریاست نے پوری دنیا کے امن کا ناک میں دم کیا ہوا ہے) جس سے یوکرین کے لیے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔اس ملاقات میں تلخیاں زیادہ تھی ٹرمپ زیلنسکی کو بات نہیں کرنے دے رہے تھے۔ان کو ٹوک بھی رہے تھے اور جھاڑ بھی پلا رہے تھے۔البتہ زیلنسکی نے ایک موقع پر نیب صدر کو یہ ضرور کہہ دیا کہ شاوٹ نہ کریں۔جس پر ٹرمپ نے کہا کہ آپ باتیں بہت کرتے ہیں۔ساتھ یہ بھی باور کروایا کہ اگر امریکہ نہ ساتھ دیتا تو یوکرین نے تو دو ہفتے ہی میں ہار مان لینی تھی۔ایسی باتوں اورگفتگو کو سفارتی آداب کے خلاف سمجھا جاتا ہے مگر کبھی کبھی معاملہ اس سے بڑھ بھی جاتا ہے۔کچھ عرصہ قبل اسرائیل نے ترکی سفیر کو اپنے سے نیچے والی کرسی پر بٹھایا تو اس پر ترکی نے شدید احتجاج کیا تھا۔ایوب خان دور میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے ایک میٹنگ کے دوران انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب سورن سنگھ پر کرسی اٹھا لی تھی۔زیلنسکی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تو زبانی کلامی ہی ہوا ہے۔
امریکہ یوکرین کی حمایت سے نکل رہا ہے۔اس کے نکل جانے کے بعد یوکرین کی ڈیفنس کنٹیکٹ گروپ، جو 50 ممالک پر مشتمل ہے، واحد امید بن چکا ہے۔ یہ گروپ سابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپریل 2022 میں بنایا تھا اور بائیڈن انتظامیہ کے دوران 25 اجلاس ہو چکے تھے۔ تاہم، 6 فروری 2025 کو پینٹاگون نے اعلان کیا کہ اب اس کی قیادت برطانیہ کے حوالے کر دی گئی ہے۔یہ صورتحال یوکرین کے لیے نہایت خطرناک ہے، کیونکہ روسی فوج پہلے ہی میدان میں برتری حاصل کر رہی ہے اور امریکہ کی عدم دلچسپی سے یوکرین کے دفاع پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
بھارت کی امریکہ سے امیدیں: حقیقت یا فریب؟بھارت کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ بھارتی میڈیا اور تجزیہ کار یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ امریکہ بھارت کا قریبی اتحادی بن چکا ہے اور ایف-35 جنگی طیارے دینے کی باتیں بھی ہو رہی تھیں۔جس کی پیشکش صدر ٹرمپ ہی نے کی تھی تاہم یہ ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت پر تجارتی ٹیرف عائد کر دیے، جس سے بھارتی معیشت کو محض ایک دن میں ایک ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا۔بھارت کی سٹاک مارکیٹ ڈوب گئی ہے یہ واقعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کو دیکھتا ہے، نہ کہ کسی ملک کے ساتھ مذہبی یا ثقافتی وابستگی کو۔ اگر امریکہ کو کسی موقع پر مسلمان ممالک سے فائدہ ہوتا ہے، تو وہ ان کے ساتھ گہرے تعلقات بناتا ہے، لیکن جب بھارت یا اسرائیل جیسے اتحادی نقصان دہ ثابت ہوں، تو امریکہ انہیں بھی فوری طور پر پیچھے دھکیل دیتا ہے۔
افغانستان: محسن کشی اور امریکہ کی نئی حکمت عملی ۔افغانستان کی تاریخ محسن کشی سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان نے 40 لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دی، جو بڑھ کر ڈیڑھ کروڑ ہو گئے۔ نہ صرف یہ، بلکہ انہیں پاکستان میں کاروباری مواقع، تعلیم، اور اہم عہدے بھی دیے گئے۔ لیکن اس کے بدلے میں پاکستان کو دہشت گردی، کلاشنکوف کلچر، اور منشیات کی لعنت ملی۔ٹرمپ انتظامیہ افغانستان کے حوالے سے سخت موقف اپناتی نظر آ رہی ہے۔ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ:”ہم بگرام ایئربیس واپس لیں گے۔افغانستان میں جو پیسہ خرچ کیا گیا، وہ ان کی معدنیات کے ذریعے پورا کریں گے۔جو اسلحہ امریکہ نے وہاں چھوڑا، اس کی ایک ایک گن وصول کی جائے گی۔“
یہ بیانات طالبان حکومت کے لیے شدید دھچکے سے کم نہیں۔ وہ امریکہ کے خلاف سخت موقف رکھتے تھے، لیکن اب وہ تعاون پر مجبور ہو رہے ہیں۔
کیا امریکہ اب بھی افغانستان کو امداد دے رہا ہے؟یہ امر حیران کن ہے کہ امریکہ اب بھی افغانستان کو ہر مہینے 2.5 بلین ڈالر امداد دے رہا ہے۔ یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر طالبان امریکی امداد لے رہے ہیں، تو وہ امریکہ کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں؟یہ بات ثابت کرتی ہے کہ امریکہ سخت فیصلے لیتے ہوئے بھی اپنے مفادات کو یقینی بناتا ہے۔ وہ طالبان کو دباو میں رکھنے کے لیے امداد دیتا ہے، لیکن اگر ضرورت پڑی تو کچھ بھی کرنے میں دیر نہیں کرے گا۔
مغرب میں قدامت پسندوں کے عروج سے عالمی سیاست میں بڑی تبدیلیاں آئیں گی، جو خاص طور پر اسرائیل کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔یوکرین اب امریکہ کے بغیر جنگ لڑنے پر مجبور ہے، اور اس کے امکانات دن بدن کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔بھارت کے امریکی خواب چکنا چور ہو چکے ہیں، اور ٹرمپ کی پالیسی نے بھارت کی معیشت پر سخت اثر ڈالا ہے۔افغانستان کو دوبارہ امریکی مداخلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اور طالبان کے لیے امریکی دباو بڑھ سکتا ہے۔ٹرمپ اپنی باتوں پر عمل کرنے کی شہرت رکھتے ہیں، اس لیے عالمی سطح پر ان کے اقدامات کے اثرات جلد نظر آ سکتے ہیں۔یہ تمام عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا ایک نئے سیاسی دور میں داخل ہو رہی ہے، جہاں پرانے اتحادی بدل سکتے ہیں اور نئے تعلقات اور تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن