سوشل میڈیا پر صدر مملکت کی علالت پر فیک نیوز کی بھرمار
یہ بات واقعی سمجھ سے باہر ہے کہ سوشل میڈیا والے صدر مملکت کی علالت کے حوالے سے جھوٹی افواہیں خبر بنا کر کیوں پیش کر رہے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ کام صرف ایک جماعت کے جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ لوگوں کا دل پسند شوق ہے۔ وہ اپنے مرشد کے علاوہ ہر ایک کو قابل گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ عید کے روز سے اطلاع ہے کہ صدر مملکت کی طبیعت ناساز ہے۔ انہیں نواب شاہ سے کراچی منتقل کیا گیا ہے‘ انکے معالجین کے مشورے سے اور اس وقت سے سوشل میڈیا والوں کو وختہ پڑا ہے۔ عید کے چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کی درجنوں پیشین گوئیوں کی طرح وہ دل جلے اب صدر کی علالت کے حوالے سے افسوسناک جھوٹی باتیں پھیلا رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے انکے انتقال کی خبر چھپائی جا رہی ہے‘ بھلاایسا کیوں کرے گا کوئی۔ انکے ورثاء موجود ہیں‘ کوئی اخلاقیات سے گر کر کہتا ہے کہ انکے لاڑکانہ یا نوابشاہ میں آخری آرا مگاہ کا کا تنازعہ ہے۔ خدا ایسے لوگوں کو پوچھے۔ زندگی موت اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے‘ کس کی مٹی کہاں کی ہے‘ کسی کو معلوم نہیں۔ کیا یہ خبریں بنانے والے سوشل میڈیا کے فسادی جانتے ہیں کہ خود انہوں نے کب اور کہاں مرنا ہے اور کہاں دفن ہونا ہے۔ یاد رکھیں‘
دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے
سجناں وی مر جانا
کوئی آب حیات پی کر نہیں آیا‘ محل میں ہو یا جیل میں‘ ہسپتال میں ہو یا سڑک پر جس کی جہاں لکھی ہے‘ آئیگی‘ ہمیں یا کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسی حرکتوں پر توبہ کرنی چاہیے۔
بچوں نے دل کھول کر عید منائی‘ عیدی اڑائی‘ پارکوں‘ تفریح گاہوں میں رش۔
عید تو ہوتی ہی بچوں کی ہے‘ عیدالفطر کے تینوں دن ملک بھر کے گلی کوچے اور بازار رنگ برنگے خوبصورت لباس پہنے بچوں اور بچیوں کو دیکھ کر ایک اطمینان بخش مسرت دل و دماغ کو متاثر کرتی رہی۔ زندگی کا یہ خوبصورت رنگ خدا کرے ہمیشہ ہمارے ملک میں برقرار رہے۔ ہمارے بچے گلی کوچوں میں اسی طرح ہنستے مسکراتے‘ کھیلتے کودتے جھولے جھولتے رہیں۔ یہ ہمارا مستقبل ہیں‘ انہوں نے کل اس ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ انہیں صحت مند‘ خوشحال‘ تعلیم یافتہ بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ بے شک ہمارے دشمن قدم قدم پر گھات لگائے بیٹھے ہیں‘ مگر ہماری قوم اور ہمارے محافظ جوان بھی چیتے کا جگر اور شاہین کا تجسس لئے آبادیوں میں ویرانوں میں جنگلوں میں بیا بانوں میں صحرائوں میں پہاڑوں میں ان سے نبردآزما ہیں اور ان دشمنوں کے عزائم ناکام بناتے آئے ہیں اور رہیں گے۔ بچوں کا تو کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ عید کے دن تیار ہو کر اپنے دوستوں کے ساتھ جا کر سیر تفریح کریں‘ چاٹ‘ آئس کریم کھائیں‘ بوتلیں پیئں‘ غبارے اڑائیں‘ اونٹ گھوڑوں کی سواری کریں‘ میلے ٹھیلوں کی سیر کریں‘ شہری علاقوں میں تو پارکوں اور چڑیا گھروں میں بھرپور رش رہتا ہے‘ بے اختیار دعا نکلتی ہے۔
زمین کی گود رنگ سے امنگ سے بھری رہے
خدا کرے‘ یہ کہکشاں یونہی سجی رہے
ہم یونہی مل جل کر ایک دوسرے کے ساتھ ایسی ہزاروں خوشیاں منائیں اور کچھ نہیں تو کم از کم بچوں سے ہی مل جل کر ہنسنا مسکرانا سیکھ لیں۔
سوشل میڈیا کے بے حس پے رول فنکار بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کے غم میں ہلکان۔ نوحہ خوانی کرنے لگے
حکومت جانے کا غم ہو‘ جیل جانے کا سیاسی اختلافات سے کسی کو انکار نہیں ہوتا‘ مگر کہیں بھی اسے ملک و قوم کیخلاف احتجاج کا نفرت کا ذریعہ بنایا جاتا۔ اس وقت سوشل میڈیا پر افغانی چمچے اور طالبان کڑچھے جس طرح بی ایل اے کے ڈونگوں کے ساتھ مل کر طوفان بدتمیزی مچا رہے ہیں‘ اس پر محب وطن عناصر سخت دل گرفتہ ہیں۔ کوئی بدبخت ایسا کرتا ہے کہ جس تھالی میں کھائے اسی میں چھید کرے۔ ہمارے ہاں ایسے تھالی کے بینگن بہت ہیں جو ادھر ادھر لڑکھتے رہتے ہیں۔ ان بے پیندے کے لوٹوں میں پی ٹی آئی کے بطور بازیگرکے بازی لے جاتے ہیں۔ ملک و قوم کے زیادہ انہیں پہلے اپنے قیدی کا غم کھائے جاتا تھا۔ اب اچانک بی ایل اے کے علاوہ ٹی ٹی پی کا درد بھی انکے دل میں اچانک انجائنا کے درد کی طرح پوری شدت سے ہو رہا ہے اور یہ دھڑا دھڑ انکے حق میں اول فول کہتے پھرتے ہیں گویا یہ تو۔
یہ وہ پاکستانی جنہیں دیکھ کر شرمائے یہودی والی بات ہے۔ حمیت انکے اندر ہے ہی نہیں‘ غیرت یہ دکھاتے ہی نہیں‘ باقی رہا سوشل میڈیا کا جھجھنا وہ یہ خود بجاتے پھرتے ہیں۔ جس سے صرف ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ یہی لوگ چاہتے ہیں‘ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے سے تو کوئی گلہ نہیں‘ انکے اندر تو یہ خناس بھرا ہوا ہے مگر یہ پی ٹی آئی والے کیوں اچکزئی اور مینگل کی بولی بولنے لگے۔ لگتا ہے یہ بھی ماہرنگ بلوچ سیمی دین بلوچ اور قدیر خان کے حلقہ بگوش ہو گئے ہیں اور انہی کی زبان بول رہے ہیں۔
کیا ان ظالموں کو بلوچستان میں بے گناہ قتل ہونے والے پنجابیوں کی موت پر ایک لفظ اظہار افسوس کرنے کی توفیق نہیں۔ جن کی لاشیں روزانہ آ رہی ہیں
ذوالفقار علی بھٹو جو نیئر اور راشد سومرو بھی سندھ کینالز کے غم میں مرثیہ خواں بن گئے۔
دریائے سندھ سے نہریں نکالنے پر اس وقت سندھ کی قوم پرست جماعتوں سے لے کر سیاسی جماعتوں تک ایک ٹانگ پر کھڑے مرغ کی طرح بانگیں دیتی پھر رہی ہیں۔ جئے سندھ یا سندھیا نی تحریک والے تو سیاسی میدان میں ہر بار ملنے والی ہزیمت کا غصہ اس منفی سیاست سے نکالتی ہیں۔ انکی دیکھا دیکھی پیپلزپارٹی والے تو بولتے ہی ہیں‘ اپنی ساکھ بچانے کیلئے مگر یہ جے یو آئی والوں کو کیا ہو گیا کہ انکے صوبائی رہنماء راشد سومرو بھی اپنا لچ تلنے پہنچ گئے اور شاہ سے زیادہ شاہ پرست کا کردار ادا کرتے ہوئے دس اپریل سے متعدد مقامات پر دریائے سندھ کے کنارے دھرنے دینے کا پروگرام بھی دے دیا۔ قومی جماعتوں کی طرف سے صوبائیت کا پرچار کرنے لگیں تو پھر ولی خان‘ صمد خان‘ جی ایم سید‘ عطاء مینگل اور پشتین تحریک والوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ ویسے سومر جی جو چاہے کرلیں‘ کہہ لیں‘ نہریں نکالنے کی راہ روکیں‘ پنڈ کا چودھری انہوں نے پھر بھی نہیں بننا۔ حیرت البتہ اس بات پر ہے کہ پیپلزپارٹی بھٹو گروپ کے نوجوان رہنما مرتضیٰ بھٹو کے فرزند ذوالفقار جونیئر نے بھی خلاف توقع یکدم اس جذباتی ماحول کو گرمانے میں اپنا حصہ بھی ڈالا۔ ابھی تو انہوں نے اس کوچہ سیاست میں قدم رکھا ہے‘ پہلے ذرا اردگرد نظر ڈال کر مشاہدہ تو کرلیں بقول شاعر وہ بھی بعد میں
مشاہدیکو تو کانٹوں کی بھیک بھی نہ ملی
سنا تھا ہم نے کہ گلشن میں پھول کھلتے ہیں
کا شکوہ کرتے نظر نہ آئیں۔ پہلے کالاباغ ڈیم کا منصوبہ ایسی ہی منفی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکا ہے‘ اب سندھ کینالز کو بھی ایسی ہی منفی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے ورنہ آنے والا کل ہمیں معاف نہیں کریگا۔ ہماری نسلیں ہم پر افسوس کریں گی۔