جناب بھٹو صاحب نے اپنے دورِ اقتدار میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اپنی تمام تر معاشی مجبوریوں کے باوجود اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا۔ فرانس سے ایٹمی ریپروسیسنگ پلانٹ کا سودا کیالیکن بھارت اور اسرائیل سمیت بہت سے یورپی ممالک اور کچھ اہم بڑی طاقتوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔یہ تو کسی کی سوچ سے بھی باہر تھا کہ مسلم ملک اور خاص کر پاکستان ایٹمی طاقت بن جائے۔ ان تمام ممالک نے مل کر زور لگایا کہ فرانس یہ سودا منسوخ کر دے اور جیسے بھی ممکن ہو پاکستان کو اس راستے سے روکا جائے۔فرانس پر اتنا دباؤآیا کہ بالآخر فرانس نے 1978ء میں یہ سودا منسوخ کر دیا لیکن ہمت ہے بھٹو صاحب کی اور اُن کے رفقائے کار کی کہ انہوں نے تمام تر مخالفت کے باوجود اپنا پروگرام جاری رکھا اور اسلام آباد کے نزدیک کہوٹہ میں اپنی ذاتی کوششوں سے اس پروگرام کا آغاز کر دیا۔ یہ ایک خفیہ پروگرام تھا اور پاکستان کی کوشش تھی کہ کسی ملک کو بھی اس پروگرام کی خبر نہ پہنچے لیکن ان ممالک نے پاکستان کی کوششوں پر گہری نظر رکھی اور انہیں اندازہ ہو گیا کہ پاکستان کہوٹہ میں خفیہ طور پر کچھ کر رہا ہے۔ گو پاکستان نے اسے ایک فوجی ورکشاپ کی شکل دی اور باہر کچھ پرانی گاڑیاں بھی کھڑی کر دیں۔اب ان ممالک کو پسو کاٹنے لگے کہ کھوج لگائی جائے کہ پاکستان کہوٹہ میں کیا کر رہا ہے۔ اسلام آباد میں یورپی سفارتکاروں کو کھوج لگانے کا فرض سونپا گیااور انہوں نے علاقہ میں جا کر فوٹو گرافس لینے شروع کر دئیے اس انداز سے جیسے کسی ہوائی حملے کا منصوبہ ہو۔ شاید ان فوٹو گرافس کا انہیں بھاری معاوضہ ملتا تھا۔ کہوٹہ اور اس کے اردگرد کا علاقہ بہت خوبصورت ہے لہٰذا ان لوگوں کا بہانہ ہوتا تھا کہ سیر اور قدرتی نظاروں کے فوٹو گرافس لینے کا مطلب لطف اندوز ہونا تھا لیکن اندرونی مقصد کچھ اور تھا۔
ویسے تو تمام سفارخانے اپنے طور کوشش کر رہے تھے لیکن فرانسیسی سفارکار دوسروں کی نسبت زیادہ متفکر تھے اور اکثر اوقات وہ کہوٹہ کے قرب وجوار میں ’’جڑی بوٹیاں ‘‘ اور’’ خا ص پتھر‘‘تلاش کرنے کے بہانے گھومتے ہوئے پائے جاتے تھے ۔26 جنون1979ء کو اسلام آباد میں فرانس کے سفیر اور فرسٹ سیکرٹری اپنی کار میں ایک ایسے ہی خفیہ مشن پر کہوٹہ گئے۔ فوٹو گرافی کا جدید سازوسامان ان کے پاس تھا۔ ان کا ہدف کہوٹہ کمپلیکس اور اس کے گردونواح کی تصویر کشی تھا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشن ان کے لئے اس حد تک اہم تھا کہ سفیر صاحب خود اس کام کے لئے تشریف لے گئے۔ انہوں نے تمام راستوں اور اردگرد کے ماحول کی دیکھ بھال اور فوٹو گرافی شروع کی۔اسی اثنا میں چند لڑکیاں جو سامنے کھڑی تھیں پاکستان کی خوش قسمتی کہ ان لوگوں نے قدرتی نظاروں کے بہانے کیمرے ان لڑکیوں پر فوکس کئے تو لڑکیوں نے چیخنا چلانا اور شور مچا دیا۔ نزدیکی کھیتوں میں کام کرتے ہوئے لڑکے بھاگ کر آئے تو ان لڑکیوں نے اشارہ کیا کہ یہ گورے ہمارے فوٹو لے رہے ہیں۔پاکستا ن میں اور تو بہت سے چیزیں برداشت کر لی جاتی ہیں لیکن ’’عزت‘‘ پر کسی قسم کا دھبہ نہیں آنے دیتے۔ لہٰذا ان لڑکوں نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ ان گوروں کو لمبا ڈال لیا اور ان کی خوب دھنائی شروع کر دی۔ان کی ہڈیاں پسلیاں توڑ دی۔مار کھاتے ہوئے وہ تقریباً بے ہوش ہو چکے تھے کہ وہاں چند بزرگ آگئے۔ انہوں نے ان گوروں کی جان چھڑائی ۔ گورے بعد میں پولیس اور وزارت خارجہ میں شکایت لے کر گئے یہاں تک کہ یہ شکایت صدرِ پاکستان تک پہنچی۔ ان کی شکایت تھی کہ انہیں انٹیلی جنس کی غنڈوں نے مارا ہے۔ بعد میں نہ تو ان لڑکوں کا پتہ چلا نہ وہ انٹیلی جنس کے کسی آدمی کو سامنے لا سکے۔ اس واقعہ کا سب یورپین پر اچھا اثر ہوا کہ وہ محتاط ہو گئے۔
دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک گورے صحافی نے اپنی طرف سے جیمزبانڈ بننے کی کوشش کی۔ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خا ن کا انٹرویو لینے کے لئے اپنے ہوٹل سے نکلا۔ اسے یہ تو اندازہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کسی علاقے میں رہتے ہیں لیکن صحیح گلی اور مکان نمبر کا پتہ نہ تھا۔ لہٰذا وہ علاقے میں گیا اور ڈاکٹر صاحب کا گھر تلاش کرنے کے لئے مختلف گلیوں میں گھومنا شروع کیا۔ جب پھر پھر کر تنگ آگیا تو کسی سے پوچھنے کا سوچا۔ سامنے ایک گھر کے باہر کال بیل کا بٹن دبادیا ۔ ایک خاتون نے گیٹ کھولا۔ اس گورے صحافی نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں خاتون سے پوچھا کہ’’ ڈاکٹر عبدالقدیرخان جو بم بنا رہا ہے اس کا گھر کدھر ہے۔‘‘ خاتون نے بتایا کہ وہ نہیں جانتی۔ گورے نے سوچا کہ اسے کچھ نقدی دے تب وہ بتائے گی۔ اس نے کڑاکے دار کچھ نوٹ نکالے اور خاتو ن کی طرف بڑھا دئیے اور ساتھ ہی اس کا بازو پکڑ لیا کہ کہیں بتائے بغیر گیٹ ہی نہ بند کر دے۔ بازو پکڑے جانے پر خاتون نے شور مچایا ۔ اند راس کا خاوند اور بھائی موجود تھے تو وہ دوڑ کر باہر آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ گورے نے پیسے بڑھاتے ہوئے خاتون کا بازو پکڑ رکھا ہے۔بدقسمتی سے گورے کہ منہ سے شراب کی بو آرہی تھی۔ خاتون کے خاوند اور بھائی نے گورے کی یہ حرکت دیکھ کر سوچا کہ یہ بدمعاش ہماری خاتون کو ’’بدکردار‘‘ سمجھ کر اپنے ساتھ زبردستی لے جانا چاہتا ہے۔ انہوں نے بھی نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ گورے صاحب کو لمبا ڈال کر اس کابینڈ بجانا شروع کردیا۔اس کی خوب لاتوں اور گھونسوں سے تواضع کی۔ اتنی دیر میں پڑوس کے لوگ بھی وہاں اکھٹے ہو گئے۔سب نے اپنے طور پر غصہ نکالنا شروع کیا۔ گورے کی خوش قسمتی کہ ادھر سے ISIکے کچھ لوگ گزر رہے تھے ۔ انہوں نے یہ تماشا دیکھا تو آگے بڑ ھ کر گورے صاحب کو چھڑوایا تو اس نے بتایا کہ وہ صحافی ہے۔اس پر ISIکے لوگوں نے باحفاظت اُسے ہوٹل پہنچا دیا۔وہ دو دن اس مار کے درد کی وجہ سے اپنے ہوٹل کے کمرے میں پڑا رہا۔ باہر ہی نہ آسکا۔