نوائے وقت سالار آزادی

یوں تو بر صغیر میں اردو جرائد و اخبارات کا تذکرہ اٹھارویں صدی سے چلتا آرھا ھے لیکن 1857 کی جنگ آزادی اور 1862 میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی انگریزوں کے قید میں موت کے بعد مسلمانان ھند بالخصوص مسلمان اھل علم میں اسلامی نشاہ ثانیہ کی تڑپ نے جنم لیا اور اس دور میں اپنے بیانیہ کے پھیلاؤ کیلئے صحافت کو زینہ بنایا گیا اور متعدد اردو اخبارات و جرائد منصہ شہود پر اجاگر ھوئے جب طویل جدو جہد کے بعد30 دسمبر 1930 میں علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد پیش کیا تو مسلمانوں کیلئے ایک نئے وطن کا تصور پیش ھوا جسے دس سالوں میں دو قومی نظریہ کا بیانیہ بنایا گیا اس بیانیہ کی تجسیم تفہیم اور تشہیر کے لئے اردو اور انگریزی زبان میں اخبار کی ضرورت ناگزیر جانی گئی۔اس کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح نے فوری طور پر دو اخبارات کی بنیاد رکھی اردو میں نوائے وقت لاھور اور انگریزی میں ڈان کراچی۔ نوائے وقت لاھور کی ذمہ داری حمید نظامی نے اپنے ذمہ لی۔حمید نظامی ایک ممتاز صحافی، ادیب، اور دو قومی نظریہ کے سرگرم حامی تھے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے دوران مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن (MSF) سے وابستہ رہے اور نوجوانوں کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تنظیم سازی انکا طرہ امتیاز تھی وہ اسکے اولین صدر بھی منتخب ھوئے انہیں قائد اعظم تک رسائی اور شفقت حاصل رھی اور قائد اعظم انکی اعلیٰ صلاحیتوں کے معترف تھے
بحیثیت نوجوان سیاسی راہنما: 
حمید نظامی آل انڈیا مسلم لیگ کے نظریات کے زبردست حامی تھے اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے نظریے کو فروغ دیا۔ انہوں نے نوجوانوں میں سیاسی بیداری پیدا کی اور تحریکِ پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔حمید نظامی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ MSF کی بنیاد 1937 میں رکھی گئی اور اس کا مقصد برصغیر کے مسلمان طلبہ کو مسلم لیگ کے مقاصد کے تحت متحرک کرنا تھا۔
حمید نظامی نے قائد اعظم کی ھدایت پر اولا ’’پندرہ روزہ نوائے وقت‘‘ کا اغاز کیا جو قریباً دو سال کا سفر طے کرتے 1942 میں روزنامے میں تبدیل ھوگیا۔نوائے وقت کو یہ اعزاز حاصل ھے کہ یہ برصغیر پاک و ہند میں اردو زبان کا پہلا اخبار ھے جو قائد اعظم کی ھدایت پر معرض وجود میں آیا اور اس اخبار نے مصور پاکستان علامہ محمد اقبال اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے فکر و فلسفہ اور سیاسی جدوجہد کو پھیلانے میں نا مساعد حالات میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ وقت بڑی آزمائش اور جدوجہد کا رھا ھے حمید نظامی کے ذمہ اس نئے اخبار کی ادارت اشاعت اور اسکے زریعے پاکستان مسلم لیگ اور قائد اعظم کے پیغام کو پھیلانا بھی تھا اور بحیثیت نوجوان سیاسی راھنما مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زریعے نوجوانوں کو منظم کرنا اور انہیں قائد اعظم کا دست و بازو بنانے میں متحرک رکھنا تھا۔ حمید نظامی ایک نظریاتی فکری راھنما تھے انہوں نے نوائے وقت کی بنیاد اسی فکر و فلسفے پر رکھی جو پاکستان کی نظریاتی صحافت کا ایک اہم سنگ میل ثابت ھوئی۔ نوائے وقت کا کمال یہ تھا کہ روزنامہ نوائے وقت نے تحریکِ پاکستان میں ایک اہم اور نمایاں کردار ادا کیا اور مسلمانوں کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے، قیامِ پاکستان کے نظریے کو فروغ دینے، اور قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کی جدوجہد کو عوام تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔نوائے وقت نے برصغیر کے مسلمانوں میں سیاسی شعور اجاگر کیا اور انہیں اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے پر آمادہ کیا۔ یہ اخبار مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے حل کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے کا ذریعہ بنا۔
نوائے وقت نے ہر موڑ پر قائد اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ اس نے مسلم لیگ کی پالیسیوں کو عوام تک پہنچایا اور انکے مقاصد کو واضح کیا۔جب کانگریس اور بعض دیگر جماعتیں متحدہ ہندوستان کی وکالت کر رہی تھیں، نوائے وقت نے ان کے موقف کو مسترد کیا اور پاکستان کے قیام کو مسلمانوں کے مستقبل کیلئے ناگزیر قرار دیا۔یہ اخبار تحریکِ پاکستان کے دوران کارکنوں کی آواز بنا اور انہیں جدوجہد جاری رکھنے کی ترغیب دی۔ اس نے انگریزوں اور ہندو انتہا پسندوں کی چالوں کو بے نقاب کیا۔نوائے وقت نے اردو زبان، اسلامی ثقافت، اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کے تحفظ کیلئے مسلسل کوششیں کیں، تاکہ برصغیر میں مسلمانوں کی علیحدہ شناخت برقرار رہے۔
نوائے وقت تحریکِ پاکستان کا ایک مضبوط ترجمان تھا، جس نے نہ صرف عوام میں سیاسی بیداری پیدا کی بلکہ قیامِ پاکستان کیلئے ایک فکری اور نظریاتی پلیٹ فارم بھی فراہم کیا۔قیام پاکستان کی تحریک میں پاکستان کو بڑی مخالفت کا سامنا پنجاب میں تھا 1937 کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو پنجاب سے صرف 2 نشستیں ملی تھیں جبکہ یہاں 175 کے ایوان میں یونینسٹ پارٹی سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر ابھری تھی اور اسی نے حکومت بھی بنائی تھی مسلم لیگ کو یونینسٹ پارٹی کی مخالفت کا سامنا تھا پاکستان کے مقابلے میں انہوں نے "پنجاب پنجابیوں کا" نعرہ دے رکھا تھا قائد اعظم محمد علی جناح نے یونینسٹ پارٹی کی قیادت کو اس بارے آڑے ھاتھوں لے رکھا تھا حمید نظامی نے ایسے حالات میں نوائے وقت کے اداریوں اور خبروں میں اس تاثر و نعرے کو تحلیل کرنے میں اھم کردار ادا کیا اور مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن پاکستان کی جدوجہد کو منظم کرنے میں قائد اعظم کی بھرپور معاونت کی۔ تحریک پاکستان کی کامیابی میں پنجاب کے نوجوانوں نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے حمید نظامی کی قیادت میں یہ کردار کئی جہتوں پر مشتمل تھا، جن میں سیاسی، صحافتی سماجی، تعلیمی، اور عملی قربانیاں شامل تھیں۔
پنجاب کے نوجوانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے پیغام کو عام کرنے، مسلم لیگ کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرنے، اور برطانوی و کانگریسی پروپیگنڈے کا جواب دینے میں اہم کردار ادا کیا۔پنجاب کے تعلیمی ادارے، خاص طور پر علی گڑھ یونیورسٹی،اسلامیہ کالج لاھور گورنمنٹ کالج لاہور تحریک پاکستان کے مرکز بن گئے۔ ان اداروں کے طلبہ نے قرارداد پاکستان (23 مارچ 1940) کی حمایت میں زبردست مہم چلائی۔نوجوانوں نے مسلم لیگ کے پرچم تلے کئی احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی میں نوجوانوں نے اہم کردار ادا کیا، کیونکہ انہوں نے ووٹروں کو متحرک کیا اور کانگریس کے خلاف زبردست مہم چلائی۔
علامہ اقبال کی شاعری نے نوجوانوں کو ایک نیا حوصلہ دیا۔صحافتی محاذ پر "نوائے وقت" "زمیندار" اور دیگر اخبارات نے نوجوانوں کو بیدار کیا۔ نوجوانوں نے مسلم لیگ نیشنل گارڈز کے نام سے ایک تنظیم بنائی، جس کا مقصد مسلم لیگ کے جلسوں اور قیادت کا تحفظ تھا۔ انہوں نے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی دفاعی اقدامات کیے۔پنجاب کے نوجوانوں کی سیاسی، سماجی، تعلیمی، اور عملی جدوجہد نے تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی قربانیاں اور جدوجہد ہی تھی جس کی بدولت 14 اگست 1947 کو پاکستان ایک آزاد مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔نوائے وقت نے قیام پاکستان کے بعد اپنے نظریاتی صحافتی مشن کو جاری و ساری رکھا قیام پاکستان کے 11 ماہ بعد قائد اعظم داعی اجل کو لبیک کہہ گئے چار سال بعد لیاقت علی خان بھی شہید کردئیے گئے مسلم لیگ میں جوتیوں میں دال بٹنے لگی تقسیم کا عمل شروع ھوا لیکن حمید نظامی اور نوائے وقت نے اپنے نظریاتی تشخص میں لغزش نہیں آنے دی اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق ادا کرتے رھے یہاں تک کہ پاکستان کو 1958 میں پہلے مارشل لا کا سامنا کرنا پڑا حمید نظامی کے قلم اور فکر کا سفر جاری رھا تاوقتیکہ 1962 میں ناروا جبر برداشت کرتے اپنی جان جان افرین کے سپرد کردی۔حمید نظامی نے جہاں چھوڑا وھاں سے مجید نظامی نے حق صداقت کا پرچم سنبھال لیا۔ اخبارات و جرائد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع رھا یہ مارشل لا اور سویلین حکومتوں کے دوران بھی جاری رھا نوائے وقت نے اپنے اصولوں پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔ مجید نظامی نے نوائے وقت کے مشن میں کمی نہیں آنے دی ۔
نوائے وقت کا کشمیریوں پر بڑا احسان ھے کہ جب بھی پاکستان کے حکمرانوں نے کشمیر پر کبھی ذرہ برابر کمزوری دکھائی نوائے وقت کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ھوگیا کشمیریوں کی تحریک آزادی میں نوائے وقت کا کردار ناقابل فراموش اور تاریخ ساز ھے جس کیلئے مجید نظامی مرحوم کے کشمیریوں کیلئے جذبات و احساسات کو الفاظ کا جامہ پہنانا مشکل ھے ھم کشمیری انکی مغفرت و بلندی درجات کیلئے بہ صمیم قلب دعا گو ہیں۔

سردار عبدالخالق وصی

ای پیپر دی نیشن