منموہن سنگھ سابقہ وزیر اعظم ہندوستان

پروفیسر بشردوست بام خیل

بٹوارہ جب ہوا تو دکھ درد اور غم کی کہانیاں ہرجگہ ہر مقام اور ہر شخص کا سینہ چیر کر اسے ہمیشہ کے لئے دکھی کر گیا اور یہی کہانی ضلع چکوال کے خوبصورت چھوٹے سے گاوں " گاہ " میں بھی دہراءگءجب 1947 کی ایک اندھی کالی رات کو ایک چھوٹا سا پتلا سا لڑکا اپنا برسوں پرانا گھر چھوڑ کر نا معلوم مقام کی طرف جا رہا تھا اور پیچھے پیچھے وہ اپنی یادوں اور دوستوں کی ایک دنیا چھوڑ رہا تھا .
یہ ڈاکٹر منموہن سنگھ تھے جو کپڑے کے ایک تاجر گورمکھ سنگھ اور امرت کور کے ہاں 1932 میں ضلع چکوال "گاہ " گاوں میں پیدا ہوئے اور وہاں کے پرائمری سکول میں اپنے دوستوں کے ساتھ تعلیم حاصل کی اور جب 2004 میں وزیر اعظم بنے تو اپنے ہی گاوں کے اسی سکول کے کلاس فیلو راجہ محمد علی کو وزیر اعظم ہاوس دلی بلایا اور وہاں اپنی بیگم کو کہا کہ ہم اکٹھے ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھتے تھے اور کبھی کبھی بیر کے درخت کو پتھر مار کر بیری کھاتے تھے .
راجہ محمد علی نے انھیں جہلم کی مٹی پانی جوتے اور چادر دئیے اور اس کے بدلے منموہن سنگھ نے بھی مختلف تحائف کے ساتھ ساتھ بہت ساری محبتیں دیں اور جب محمد علی نے انھیں کہا کہ ہمارے گاوں کے لوگ اپ کو بہت یاد کرتے ہیں تو اک لمحے کے لئے منموہن سنگھ کی انکھیں بھر ائیں اور انھوں نے کہا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ ایک دفعہ پھر ماں جیسی گاہ گاوں کے گود میں سو جاوں اور دوبارہ پیدا ہو کر وہاں کے پرائمری سکول میں داخلہ لوں اور پھر کبھی اس مٹی سے ماں کے اس گود سے جدا نہ ہوں.
محمد علی واپس ائے اور تھرو پراپر چینل منموہن سنگھ نے حکومت پاکستان کے تعاون سے ٹاٹا ویلفئیر کے تعاون سے وہاں سولر لائٹ مین سڑک اور ٹیوب ویل لگا دئیے جو اس گاوں کے باسیوں کو اس گاوں کے سپوت کی یاد دلاتی ہے .
منموہن سنگھ کی موت کی خبر جب اس کے اباءگاوں پہنچی تو سب لوگ محمد علی ہم جماعت منموہن سنگھ کے ڈیرے پر جمع ہوئے اور اسے یادکرتے رہے اور ان کے بھیجے ہوئے تحفوں اس پرائمری سکول اور ان کے گھر کو دیکھتے رہے اور پل بھر میں میڈیا کے لوگوں کے قافلے شروع ہو گئے جو مختلف لوگوں کے جزبات و احساسات کو دکھا رہے تھے اور سب اس کی موت پر خفہ تھے .
کہتے ہیں کہ جب وہ وزیر اعظم ہندوستان بنا تو اس نے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا اور اس نے اپنی ذہانت معاشی پالیسیوں اور مختلف پروگرامز کے تحت ہندوستان کو تاریکیوں سے نکالا اور ترقی کی راہ پر ڈال دیا اور اگر اج ہندوستان چین امریکہ اور روس کے ساتھ سینگ لڑا رہا ہے تو اس میں منموہن سنگھ کا سب سے بڑا کردار ہے اور یہی وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکر ترقی کی زینوں پر چڑھیں لیکن یہاں ایک خاص قوت اس ترقی کی دشمن ثابت ہوءاور نواز شریف کی اسی طرح کی معاشی پالیسیوں کو سبوتاج کیا گیا ورنہ ماہرین کے مطابق منموہن سنگھ اور نواز شریف اس خطہ کو معاشی ترقی پر گامزن کرنے کی استطاعت رکھتے اور یہی ہوا کہ منموہن سنگھ کو موقع ملا جبکہ نواز کا گلا گھونٹ دیاگیا اور یہی ترقی و شادمانی کا وقت تھاجسے ہم نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو دیا.
وہ سال2004 سے 2014 تک دو مدتوں کے لیے بھارت کے وزیر اعظم رہے۔ ماہرمعیشت کے طور پر پہچان بنانے کے بعد وہ سیاست کے میدان میں ا?ئے اور بھارت کے اندر نوے کی دہائی میں معاشی ترجیحات اور سمت کے تعین میں ان کے کردار کو سراہا جاتا ہے اور یہی وہ درست سمت تھی جس پر ہندوستان ایک معاشی طاقت بنا.
   منموہن سنگھ مرکزی بینک کے گورنر بھی رہ چکےتھے۔ وہ کچھ عرصے سے علیل تھے اور نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں داخل تھے۔ سابق بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی ا?خری رسومات دہلی کے نگمبودھ گھاٹ شمشان گھاٹ میں ادا کی گئیں مگر جدائی کا دکھ پاکستان میں بھی محسوس کیا گیا اور ان کی وفات پر کچھ سسکیاں پاکستان سے بھی ا?ئیں اور خاص طور پر گاہ گاوں کے لوگ ان کی جداءپر بہت روئے اور افسوس بھی کرتے رہے کہ ایک دفعہ اگر منموہن سنگھ اسی پرائمری سکول اتے جہاں وہ کبھی جماعت چہارم کے مانیٹر ہوا کرتے تھے تو ہمیں بہت خوشی محسوس ہوتی اور ہمارے گاوں کے لئے بھی یہ ایک اعزاز ہوتا.
منموہن سنگھ کی خوبی یہ تھی کہ وہ اکسفورڈ میں پڑھے معاشیات میں وہاں سے پی ایچ ڈی کی اور جب وطن ائے تو اپنا علم تجربہ اور وقت اپنے وطن کو دیا یہاں اپنا حلقہ بنایا کام کیا اور کہیں نہیں گئے بلکل ان ماہرین معاشیات کے برعکس جو پاکستان صرف وزارت کے لئے اتے ہیں اور پھر اپنی راہ لیتے ہیں.
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی جداءپر ہر مسلک ومذہب کے لوگ افسردہ خفہ و اداس ہوتے ہیں اور ان کو خود سے بہت نزدیک پاتے ہیں جن میں سابقہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپاءبھی تھے جو خود لاہور ائے دوستی کی ریل چلاءمینار پاکستان پر حاضر ہو کر پاکستان کو تسلیم کیا لیکن پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی.
کانگریس کے رہنما اور سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کی موت پر ان کی مخالف جماعت کی حکومت کا سات روزہ سوگ کا اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستانی سیاست میں مخالفین کی بھی اتنی ہی عزت و توقیر ہے جس نے اپنے وطن اپنے ملک اور اپنی مٹی سے محبت کی ہو .
منموہن سنگھ کو دونوں ملکوں میں لوگ یاد کریں گے اور یہی خوبی انھیں دوسروں سے الگ کرتی ہے کیونکہ اس نے ملک کو ترقی دی اور اپنوں کو یاد رکھا اور منموہن سنگھ کی زندگی میں ان چھوٹے لوگوں کے لئے بھی ایک پیغام ہے جو اپنے لوگوں اپنے گاوں سے نکل کر کامیابیوں کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہیں تو اپنوں کو بھول جاتے ہیں جبکہ منموہن سنگھ نے اپنا گاوں اپنے کلاسفیلوز اورعلاقہ کو ہمیشہ یاد رکھا .

ای پیپر دی نیشن