ہمارے عظیم رہنماء

کہتے ہیں مصیبت جب بھی آتی ہے اکیلے نہیں آتی۔ یہ بٹالینز یا فوج کی شکل میں آتی ہے۔ اسی طرح کرپشن کی لعنت جب بھی کسی قوم پر نازل ہوتی ہے تو یہ بھی وبا کی صورت میں نازل ہوتی ہے اور بڑے بڑے پاکدامنوں اور پھنے خانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ باقی اقوام کے لئے یہ درست ہو یا نہ ہولیکن پاکستان کے لئے سو فیصد درست ہے۔ مزید تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس وبا کے شکار عام لوگوں سے زیادہ خاص اور معزز لوگ ہوتے ہیں جنہیں قوم کے راہنما کہا جاتا ہے۔ جو قوم کی راہبری کے ذمہ دار ہیں۔ جو قوم و ملک کو آفات سے بچانے اور ملک کو نیک راہ پر چلانے کے ذمہ دار ہیں۔ جو اپنا مقابلہ خلفاء راشدین کے دور حکومت سے کرتے ہیں اور انکی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ کچھ سال پیشتر ہماری نئی حکومت نیب نے ایسے ہی معززین کے 150 میگا کرپشن کیسر سپریم کورٹ میں پیش کئے جن میں تقریبا تمام اشرافیہ اور ہمارے عظیم لیڈرز شامل تھے۔شنید تھی کہ یہ صرف پہلی قسط تھی۔ اصل لسٹ 450 ’’نیک چلن‘‘ افراد پر مشتمل تھی۔ کرپشن کا حجم تقریباً 424 ارب روپے بنایا گیا۔ افسوس کہ جنہیں ہم نیک پارسا فرشتے سمجھتے تھے۔ جو قوم کے سامنے اپنی شرافت اور ایمانداری کی مثالیں دیتے تھے۔ الیکشن کمیشن کی چھاننی سے بار بار نکلے ہوئے’’ صادق وامین‘‘ لوگ تھے اور سب سے بڑھ کر کہ وہ مہذب، محب وطن اور محترم ہستیاں شمار ہوتی تھیں۔ ایسے لوگ تو قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں جو سب کرپشن کی دلدل میں ملوث پائے گئے۔کراچی کے ایک بہت بڑے لیڈر آجکل روزانہ قوم کو ایمانداری، حبّ الوطنی اورعوامی خدمت کا سبق دیتے ہیں چند سال پیشتر اس پر کوہ ہمالیہ جتنی کرپشن کے الزامات تھے۔ کیسز بھی چلے۔ پھر یہ صاحب ایک بہت اعلیٰ شخصیت کی نظر میں آئے۔ سب کیسز ختم۔ نیک پاک قرار پائے اور آجکل ملک و قوم کے اہم لیڈر ہیں۔
  یہ تو وہ 150 لوگ ہیں جنکا نام سپریم کورٹ میں پیش ہوا ہے۔ ان کے علاوہ بھی کرپشن کے بہت سے کیسر ہیں مثلاً صوبہ خیبر پختو نخواہ کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس اور سابق بجٹ آفیسر پر فرد جرم عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے پولیس کے لئے اسلحہ خریدا اور اس میں 2 ارب 36 کروڑ روپے کی مالی بدعنوانی کی۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک موجودہ صوبائی وزیر اور ایک سابق سمیت 9 افراد بھی مالی کرپشن پر حراست میں لئے گئے ہیں جبکہ دونوں وزراء کا دعوی ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور انہیں سیاسی عداوت کی بنا پر تحقیر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کا فیصلہ بہر حال تفتیش کے بعد ہو گا۔ سابق آرمی چیف جناب اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کامران کیانی بھی حراست میں لئے گئے ان پر الزام تھاکہ انہوں نے DHA کے الاٹمنٹ سرٹیفیکیٹس غیر قانونی طور پر بیچ کر DHA کو 500 ملین روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ پھر بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوئی۔ کراچی میں حساس ادارے میں سروس کرنے والے 110 ایسے افسران ہیں جو قتل، رشوت، اغواء اور بھتہ خوری کی وارداتوں میں ملوث پائے گئے لیکن پھر بھی سروس کر تے رہے۔ یہ لوگ اپنے عہدوں کے تقاضوں کے مطابق پبلک کی کیا خدمت کریں گے یا کیا انصاف کریں گے سوچا جا سکتا ہے۔ کیسی کیسی محترم ہستیاں اس نیک کام میں ملوث ہیں۔ ہماری اشرافیہ اور سرکاری عہدیداروں کا کرپشن میں ملوث ہونا قومی بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات تو احساس ہوتا ہے کہ شاید ہم بحیثیت قوم ہی کرپٹ ہیں۔ کرپشن ہمارے خون میں سرایت کر چکی ہے۔ ورنہ اتنی زیادہ کرپشن اور وہ بھی اتنی اعلیٰ شخصیت کی مثال شاید ہی کسی اور ملک میں موجود ہو۔
  یہ تو رہی وہ کرپشن جو ملکی قوانین کے خلاف پائی گئی ہے اور نیب کی وجہ سے پبلک کے سامنے آئی ہے۔ ان لوگوں نے غریب اور بے بس پبلک ہی کو لوٹ کر اتنی دولت اکٹھی کی ہے اور پبلک کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ سوائے کڑھنے کے کچھ کرہی نہیں سکتی۔ اس کرپشن کے علاوہ ایک دوسری قسم کی کر پشن بھی ہے جو قانون کی حدود کے اندر رہ کر یہ معزز لوگ کرتے ہیں۔ مثلاً ان لوگوں نے موجودہ بجٹ میں خاموشی سے اپنی مراعات اور تنخواہیں 150 فیصد تک بڑھالی تھیں۔ اسی طرح تمام موجودہ اور سابق ممبران اسمبلی کو گریڈ 22 کے افسران کے برابر طبی مراعات دی گئیں۔ جن سے تمام خاندان والے بھی مستفید ہوں گے اور خاندان کا مطلب ساس، سسر، داماد، سالے اورسالیاںسب شامل ہیں۔ پھر ارکان اسمبلی کی تاحیات مراعات ہیں جن میں فری ائیر ٹکٹ سیکرٹری اور ٹیلیفون وغیرہ شامل ہیں۔ اپنی مراعات کے سلسلے میں صدر صاحب اور وزرائے اعظم کا اپنے ذاتی گھروں کو سرکاری رہائش گاہ قرار دے کر ان کی مرمت اور تزین و آرائش پر اربوں روپے خرچ کر دینا بھی عوام کی خدمت کاحصہ قرار پائے۔ ایک سابق صدر نے گاؤں میں اپنے ذاتی مکان پر کئی کروڑ روپے خرچ کر ڈالے اور ایک وزیر اعظم صاحب نے اپنے گھر کی صرف چاردیواری کو بم پروف کرانے پر تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کئے۔ اس طرح ہر صدر، ہر وزیر اعظم اور کئی ایک ارکان اسمبلی نے شیر مادر سمجھ کر قومی خزانہ اپنی ذاتی رہائش گاہوں پر خرچ کیا۔ پھر ان معزز راہنماؤں کو غیر ممالک سے جو تحائف ملتے ہیں وہ بھی قانونی اور غیر قانونی طور پر ہڑپ کر لئے جاتے ہیں۔ ملک کے اندر بھی بہت سے تحفے ملتے ہیں مثلاً ایک صدر صاحب کو اربوں روپے ملکیت کا لاہور میں ہاؤس گفٹ ہوا۔ ایک سابق وزیر اعظم کو بھی لاہور میں گھر اور کچھ قیمتی کاریں ملیں۔ پی پی کے ایک مشہور لیڈر کے اکاؤنٹ میں کئی کروڑ روپیہ کسی نے جمع کروا دیا۔ کچھ لیڈروں کو زمینیں گفٹ میں ملیں تو کیا یہ سب کچھ مفت ملتا ہے۔ نہیں ہر گز نہیں۔ گفٹ دینے والے حضرات کئی گنا زیادہ مراعات لے لیتے ہیں جن کا بوجھ بھی ہم عوام کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حکومت نے کچھ عرصہ پہلے قطر کے ساتھ LNG امپورٹ کرنے کا معاہدہ کیا لیکن اس میں کچھ شقیں خفیہ رکھی گئیں جن کا تعلق لوگوں کے خیال میں خفیہ کک بیک سے تھاجو اس معاہدے سے حاصل ہوئیں۔ پھر پلی بارگین کا معاملہ ہے جو مکمل طور پر پبلک کے سامنے آتا ہی نہیں۔ مک مکا کر کے دو پارٹیوں کے درمیان ہی لین دین ختم ہو جاتا ہے۔ غیر ممالک کے بے مقصد دورے، پروٹوکول گاڑیوں کی لمبی قطاریں بھی اسی زمرے میں شامل ہیں۔ کرپشن کا یہ قانونی انداز میرے خیال میں دوسری طرز سے زیادہ نقصان دہ ہے کہ یہ پکڑی نہیں جا سکتی۔ لیکن کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ یہ معزز لوگ ہیں۔ویسے یہ حیران کن بات ہے کہ ہمارے معاشرے کا یہ سب سے سلجھا ہوا، معزز اور عقلمند طبقہ ہے اورعقلمند طبقہ کبھی ایسا کام نہیں کرتا جس سے اس کی مستقبل کی راہیں مسدود ہوجائیں۔انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ یہی عوام ہے جو انہیں کندھوں پر بٹھا کر اقتدار کے ایوان میں پہنچاتی ہے۔ انہیں یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ یہ جو دھوکہ دہی یا فراڈ کر رہے ہوتے ہیںیہ اپنے لوگوں کے خلاف کر رہے ہوتے ہیںجو اُن کے اقتدار کی سیڑھی ہوتے ہیں۔
 حضرت علی ؓ کا یہ قول کتنا سچا ہے کہ جس کے ساتھ بھلائی کرو اُس کے شر سے بچو۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ ہماری ہی وساطت سے اقتدار میں جائیں اور پھر ہمیں ہی ڈسنا شروع کر دیں۔ یعنی وہ ہمیں اتنا بے وقوف سمجھتے ہیں کہ بار بار دھوکہ کھانے کے بعد بھی انہی کے لئے نعرے بھی لگاتے ہیں۔ پولیس کے ڈنڈے بھی کھاتے ہیں۔ پھر بھی انہی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے بقول ہماری قیمت ایک پلیٹ بریانی ہے صرف۔ واہ رے ہماری عظیم قوم۔
  اگر ایسا کسی اور جمہوری ملک میں ہوتا تو شاید ایسے لیڈروں کو سزا بھی ملتی مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسا کوئی رواج نہیں۔ لیاقت علی خان کے دور سے لے کر آج تک کسی بڑے آدمی کو کرپشن پر سزا نہیں ملی اس لئے ہمارے موجودہ راہنماؤں میں سے بھی نہ کوئی مجرم ثابت ہوگا نہ کسی کو سزا ملے گی۔ نیب کی اپنی کارکردگی بھی الزامات سے بالا تر نہیں اس لئے سب بھائی بھائی۔ کرپشن اب ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے جسے ہر سیاستدان، ہر بیوروکریٹ اور ہر اہل طاقت شخص کھیلنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ پھر بھی اگر عوام بچ جائیں تو انکی خوش قسمتی۔ لہٰذا پاکستان زندہ باد!

ای پیپر دی نیشن